دفعہ ایک سو چوالیس کا طبقاتی نفاذ


فیصل آباد کی سرگودھا روڈ پر پولیس کا ناکہ لگا ہوا تھا پہلی نظر میں ماؤں کے ان سپوتوں پر فخر محسوس ہوا جو ان حالات میں ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ میری گاڑی سے آگے تین گاڑیاں لائن میں لگی تھیں اور اگلی گاڑی میں چار بندے بیٹھے نظر آئے اب میں دیکھنے لگا کہ ان کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ اتنی دیر میں ایک موٹر سائیکل والا ڈبل سواری کی خلاف ورزی کرتے گزرا اچانک پولیس سب کچھ بھول کر چیل کی طرح ان پر جھپٹی اور پیچھے بیٹھے پچاس پچپن سالہ شخص کی گدی میں ایک تھپڑ رسید کیا دوسرے پولیس والے نے ایک موٹا بانس پکڑا ہوا تھا وہ بھاگتا آیا اور چند غلیظ گالیاں نکالتے ہوئے اس آدمی کو چند ڈنڈے رسید کیے اگلی گاڑیاں بغیر کسی روک ٹوک کر گزر گئی تھیں چنانچہ میں بھی گزر گیا لگتا تھا گاڑی پر دو سے زیادہ آدمیوں کی ہدایت ابھی پولیس والوں تک نہیں پہنچی۔

تھوڑی آگے جا کر دیکھا فیصل آباد کی ایک ارب پتی شخصیت کی بنائی گئی پرائیویٹ یونیورسٹی کے باہر لنگر تقسیم ہو رہا تھا جہاں وہی دھکم پیل تھی جو اس موقع کا خاصہ ہوتی ہے۔ پولیس والے بھی پاس ہی کھڑے تھے۔ اب حیرت کا مقام یہ تھا کہ دو بندے موٹر سائیکل پر بیٹھے ہوں تو کرونا کا خطرہ ہے اور گتھم گتھا ہوتے عوام سے کسی کو خطرہ نہیں۔

ہمارے بچپن میں ایک لطیفہ مشہور تھا اگر پاکستان میں ایٹم بم گرا تو کیا ہو گا جواب ڈبل سواری پر پابندی لگ جائے گی۔ بے شک آئسولیشن وقت کی ضرورت ہے لیکن یہ مرغا بنے انسان یہ ڈنڈے تھپڑ اور غلیظ گالیاں سنتے پاکستانی ایک خاص طبقے سے ہی کیوں تعلق رکھتے ہیں اسے سمجھنے کے لیے تھوڑا سا ماضی میں جانا پڑے گا۔

پاکستان شاید واحد مثال ہے کہ ایک سپر پاور کولونیل طاقت سے جمہوری جدوجہد کے تحت آزادی حاصل کی گئی تھی۔ کولونیل دور کی سول اور ملٹری بیوروکریسی کو اچانک بلڈی نیٹووز کے نیچے کام کرنا پڑا۔ انہوں نے اس ناپسندیدہ سیٹ اپ سے نکلنے کے لیے گٹھ جوڑ کیا اور ایوب خان کی سربراہی میں کامیاب ہو گئے۔ لیکن ایوب کو جس مخالفت کا سامنا کرنا پڑا وہ اس کے لئے غیر متوقع تھی ایک مستحکم پاکستان، صنعتی طور پر ایشین ٹائیگر تین دریا انڈیا کو بخشنے کے بعد قرضے پر ڈیم بنا کر زرعی ترقی کا ڈھول اس کے باوجود بالخصوص مشرقی پاکستان اور بالعموم مغربی پاکستان میں مخالفت اس کی سمجھ سے بالاتر تھی۔

ایوب خان اور اس کی ٹیم نے ایک اچھی جنگجو فوجی ٹیم کی طرح دشمن کا جائزہ لینا شروع کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ اصل مخالف مڈل کلاس طبقہ ہے۔ امیر طبقے کی طرح اس کے کچھ مفادات حکومت سے وابستہ نہیں ہوتے اور غریب طبقے کی طرح اسے روٹی کی چوبیس گھنٹے فکر نہیں ہوتی چنانچہ وہ کافی حد تک ذاتی مفاد سے بالاتر ہو کر سیاست میں انوالو ہوتے ہیں۔

چنانچہ ایک تین نکاتی پالیسی بنائی گئی اور اس پر عمل درآمد شروع کیا گیا سب سے پہلے سیاست سے غریب یا مڈل کلاس قیادت ختم کی گئی اور سیاست امیروں تک محدود کرنے کی شعوری کوششیں شروع ہوئیں اس سلسلے میں مغربی پاکستان تک ملا کا تعاون اسٹیبلشمنٹ کو حاصل تھا دوسرا پاکستان کی کاٹیج انڈسٹری تباہ کر کے دولت بائیس خاندانوں تک محدود کر دی گئی اور اپر مڈل کلاس ختم کی گئی اس کا دوسرا دور بھٹو نے مڈل کلاس کے سکول اور چھوٹے ادارے قومیا کر کامیابی سے مکمل کیا۔

اور تیسرا نکتہ مڈل کلاس کی عزت نفس مجروح اور ختم کرنا تھا آپ یقین کیجئے میں بنگلہ دیش میں قیام پذیر رہا ہوں اور فائیو سٹار ہوٹل کے اندر تک سائکل رکشے والے اتار کر آتے ہیں جبکہ پاکستان میں آپ فائیو سٹار ہوٹل میں موٹر سائیکل پر نہیں آ سکتے۔ بوفے پوری دنیا میں سستا ہے پاکستان میں ڈبل سے بھی مہنگا ہے۔ مڈل کلاس جو تفریح کرتا تھا وہ بھی مرحلہ وار ختم کی گئی جس کی ایک چھوٹی سے مثال کلنٹن کے اچھے ایریاز تک پبلک ٹرانسپورٹ نہیں جاتی۔

ٹی وی پر بھی مڈل کلاس کو غائب کر دیا گیا۔ یہ ایک مسلسل سوچا سمجھا عمل ہے جو مسلسل ساٹھ سال سے چل رہا ہے۔ میرا ماننا ہے اب چئیر گیم ختم ہونی چاہیے کہ کنالوں پر رہائشی نواز شریف کو ہٹا کر کنالوں کے رہائشی عمران کو لایا جائے پھر مربعوں کی مالک بھٹو فیملی آ جائے اب مڈل کلاس کو بھر پور مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے اور مڈل کلاس قیادت آنی چاہیے۔ ایک فیصلہ کریں اپنے جیسے کو ووٹ دیں گے اگر اس ذلت کا خاتمہ چاہتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments