کھیلوں کے معاملات اور حکمرانوں کے جذباتی فیصلے


حکمرانوں کے عام فیصلے کتنے جذباتی یا غیرجذباتی ہوتے ہیں؟ اس کا انحصار ان کے مزاج اور حالات پر ہوتا ہے لیکن اگر حکمران کھیلوں کے معاملات میں جذباتی ہوجائیں تو اسے کیا کہا جائے؟ کھیلوں سے ان کی غیرمعمولی دلچسپی یا اپنی بات منوانے کی ضد۔

ہاکی امپائر کی وجہ سے سفارتی تعلقات خطرے میں

سنہ 1972 کے میونخ اولمپکس کو پاکستانی ہاکی کی تاریخ کا سیاہ ترین باب کہا جاتا ہے۔ فائنل میں مغربی جرمنی کے ہاتھوں ایک گول کی شکست کو پاکستانی ٹیم نے سپورٹس مین سپرٹ نہ دکھاتے ہوئے قبول نہ کیا اور شکست کی بڑی وجہ خراب امپائرنگ خصوصاً ارجنٹائن سے تعلق رکھنے والے امپائر سرویٹو کے کھاتے میں ڈال دی۔

فائنل کے بعد جب مغربی جرمنی کا پرچم لہرایا گیا تو پاکستانی ٹیم کے کھلاڑیوں نے اپنی پیٹھ اس کی طرف کردی اور اپنے چاندی کے تمغے گلے میں پہننے کے بجائے ہاتھوں میں وصول کیے۔

ٹیم کے ایک کھلاڑی شہناز شیخ اپنا تمغہ اپنی چپل میں لٹکاتے ہوئے نظر آئے جبکہ اس موقع پر انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کے صدر رینی فرینک پر پانی کی بالٹی بھی انڈیل دی گئی۔

انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے اس واقعے کے بعد پاکستانی ہاکی ٹیم کے کپتان اسد ملک سمیت گیارہ کھلاڑیوں پر تاحیات پابندی عائد کردی جو بعد میں اٹھالی گئی تھی۔

میونخ اولمپکس کے فائنل کی ریڈیو کمنٹری سننے کے بعد پاکستان میں شدید ردعمل سامنے آیا۔

پاکستان کے اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے ساری صورتحال کا ذمہ دار ارجنٹائن کے امپائر سرویٹو کو قرار دیتے ہوئے ارجنٹائن سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی دھمکی دے ڈالی لیکن بیگم نصرت بھٹو نے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا۔

بیگم نصرت بھٹو نے صدر بھٹو کو مشورہ دیا کہ وہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اس میچ کی ریکارڈنگ ضرور دیکھ لیں تاکہ اصل صورتحال معلوم ہوسکے۔

جب فائنل کی ریکارڈنگ دیکھی گئی تو صورتحال اس سے بالکل مختلف تھی جو کمنٹیٹرز نے اپنی کمنٹری میں بیان کی تھی۔

صدر بھٹو نے فوری طور پر کمنٹیٹرز ایس ایم نقی اور فاروق مظہر پر پابندی عائد کرنے کا حکم دے ڈالا کیونکہ انھوں نے اپنی کمنٹری میں ایسا منظر پیش کیا تھا جیسے ٹیم صرف اورصرف امپائرنگ کی وجہ سے ہی ہاری ہو۔

صدر بھٹو پاکستانی ہاکی ٹیم سے اس قدر بد ظن ہوگئے تھے کہ انھوں نے وطن واپسی پر تمام کھلاڑیوں کو ایوان صدر طلب کرلیا لیکن پہلا دن ملاقات کے بغیر گزر گیا۔

دوسرے دن ٹیم کو دوبارہ بلایا گیا اور انتظار کرانے کے بعد کھلاڑیوں سے کہا گیا کہ صدر صاحب آپ سے ملنا نہیں چاہتے۔

صدر بھٹو نے کراچی میں جرمن کاروباری شخصیات کی ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے پاکستانی کھلاڑیوں کی جانب سے جرمن پرچم کا احترام نہ کرنے پر مغربی جرمنی سے بھی باقاعدہ معافی مانگی تھی۔

اندرا گاندھی فائنل چھوڑ کر چلی گئیں

سنہ 1982 میں نئی دہلی میں منعقدہ ایشین گیمز کے فائنل میں سمیع اللہ کی قیادت میں پاکستانی ہاکی ٹیم نے شاندار کھیل پیش کرتے ہوئے انڈیا کو ایک کے مقابلے میں سات گول سے آؤٹ کلاس کردیا تھا۔

سمیع اللہ کہتے ہیں کہ یہ فائنل دیکھنے کے لیے انڈین وزیراعظم اندرا گاندھی بھی سٹیڈیم میں موجود تھیں۔ انھیں میچ کے اختتام پر کھلاڑیوں کو میڈلز بھی دینے تھے۔

بھارتی ہاکی فیڈریشن کے حکام انھیں یہ کہہ کر سٹیڈیم میں لائے تھے کہ یہ گولڈمیڈل بھارت کا ہی ہے لیکن ایسا نہ ہوسکا اور جب پاکستانی ٹیم نے پانچواں گول کردیا تو اندرا گاندھی اتنی مایوس ہوئیں کہ میچ ادھورا چھوڑ کر سٹیڈیم سے چلی گئیں۔

سمیع اللہ کا کہنا ہے کہ اندرا گاندھی کے جانے کے بعد سٹیڈیم بھی تقریباً چالیس فیصد خالی ہوگیا تھا۔

حسینہ واجد بھی اسٹیڈیم سے چلے جانے پر مجبور

HASEENA WAJID

اندرا گاندھی کی طرح بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کے ساتھ بھی یہی صورتحال پیش آئی۔

وہ 2012 کے ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کا فائنل دیکھنے کے لیے ڈھاکہ سٹیڈیم میں آئی تھیں اور انھیں بھی اپنے ہموطن تماشائیوں کی طرح اپنی ٹیم کی جیت کا یقین تھا۔

لیکن ان کا موڈ اسوقت یکسر تبدیل ہوگیا جب میچ کے آخری اوور میں بنگلہ دیشی ٹیم جیت کے لیے درکار نو رنز بنانے میں ناکام رہی اور پاکستان فائنل جیت گیا جس کے بعد حسینہ واجد اپنی نشست سے اٹھیں اور چلی گئیں۔

ضیاء الحق کا عمران خان کو فون

سنہ 1986 میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کا دورۂ سری لنکا امپائرنگ تنازع سے بری طرح متاثر ہوا تھا۔

جب پاکستانی ٹیم دورہ شروع کرنے والی تھی تو سری لنکا میں پاکستان کے سفیر نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو بتا دیا تھا کہ یہاں فضا اس کے لیے سازگار نہیں ہے کیونکہ اس سے قبل جب سری لنکن ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا تھا تو اسے وہاں امپائرنگ کی شکایت رہی تھی اور پاکستانی سفیر کے بقول سری لنکا والے حساب بے باق کرنے کے لیے تیار تھے۔

سیریز کے دوران پاکستانی ٹیم کے کپتان عمران خان مسلسل سری لنکن امپائرز پر جانبداری برتنے کا الزام عائد کرتے رہے۔

انھیں سری لنکا کے میڈیا سے بھی شکایت تھی جو ان کے خیال میں جانبدارانہ رپورٹنگ کررہا تھا۔ پاکستانی حکومت نے اصل صورتحال معلوم کرنے کے لیے سرکاری خبررساں ایجنسی اے پی پی کے سینئیر رپورٹر انیس الدین خان کو دورے کے درمیان سری لنکا روانہ کیا۔

سیریز کے دوران امپائرز اور پاکستانی کرکٹرز کے درمیان طنزیہ بیان بازی زوروں پر تھی۔

یہاں تک کہ میچ کے دوران کسی تماشائی نے جاوید میانداد پر فقرے کسے تو وہ اسے سبق سکھانے کے لیے سٹینڈ میں پہنچ گئےتھے۔

اس سیریز کے دوران ایک موقع ایسا بھی آیا جب عمران خان نے دورہ ختم کرکے ٹیم کو واپس پاکستان لے جانے کے بارے میں فیصلہ کرلیا ۔

بتایا جاتا ہے کہ سری لنکا کے صدر جے وردھنے نے اس صورتحال میں صدر ضیاء الحق سے رابطہ کیا تھا۔صدرضیاء الحق نے عمران خان کو فون کرکے یہ بات واضح کردی کہ یہ دورہ ہر صورت میں جاری رہے گا۔

کیری پیکر کے کھلاڑی ٹیم میں نہ آنے پائیں

صدر ضیاء الحق نے آسٹریلیا میں کیری پیکر ورلڈ سیریز میں جانے والے پاکستانی کرکٹرز کی پاکستانی ٹیم میں واپسی کے بارے میں ایک اجلاس بلایا جس میں سابق کپتان جاوید برکی نے انھیں مشورہ دیا کہ ان کرکٹرز کو انگلینڈ کے دورے کے لیے ٹیم میں شامل کیا جانا چاہئے۔

تاہم پاکستان کرکٹ بورڈ کے صدر چوہدری محمد حسین اور عبدالحفیظ کاردار اس کے حق میں نہیں تھے جس کی وجہ سے صدر ضیاء الحق نے بھی کہہ دیا کہ ان کھلاڑیوں کی ہمیں ضرورت نہیں۔

انگلینڈ کے دورے میں پاکستانی ٹیم کو بری طرح شکست سے دوچار ہونا پڑا جس پر صدر ضیاء الحق غصے میں آگئے اور انھوں نے دورے کے درمیان ہی ٹیم میں تبدیلی کرنی چاہی جس پر انھیں بتایا گیا کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔

اس دورے کے فوراً بعد انھوں نے پاکستان کرکٹ بورڈ تحلیل کرکے لیفٹننٹ جنرل ( ریٹائرڈ) کے ایم اظہر کی سربراہی میں ایڈ ہاک کمیٹی قائم کردی۔

کیری پیکر سیریز میں حصہ لینے والے کرکٹرز عمران خان۔ مشتاق محمد۔ آصف اقبال اور ظہیرعباس کی پاکستانی ٹیم میں واپسی بھارت کے خلاف ہوم سیریز میں ہوئی تھی۔

صدر ضیاء الحق 1987ء میں بھی اس وقت شہ سرخیوں میں آئے تھے جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ کے بادل منڈلا رہے تھے اور ایسے موقع پر وہ کرکٹ ڈپلومیسی کا سہارا لے کر جے پور ٹیسٹ میچ دیکھنے اچانک انڈیا پہنچ گئےتھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp