ڈینیئل پرل کیس: عمر شیخ کی سزائے موت سات برس قید میں تبدیل، تین ملزمان بری
پاکستان کے صوبہ سندھ کی ہائی کورٹ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے قتل کے الزام میں گرفتار مرکزی ملزم احمد عمر سعید شیخ کی سزائے موت کو سات برس قید کی سزا میں تبدیل کر دیا ہے جبکہ باقی دیگر تین ملزمان کو بری کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم جاری کیا ہے۔
نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کریم خان آغا اور جسٹس ذوالفقار سانگی پر مشتمل ڈویژن بینچ نے جمعرات کو ملزمان کی اپیل پر چھ مارچ کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا۔
ملزمان کے وکیل خواجہ نوید کا کہنا ہے کہ فیصلے کے مطابق ہائی کورٹ نے شیخ عمر کو صرف اغوا کے کیس میں ملوث قرار دیا ہے جبکہ قتل کے الزام سے بری کر دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ 20 سال سے جیل میں ہیں۔ دیگر تین ملزمان پر بھی دو سال مقدمہ چلا اور وہ 18 سال اپیل کے فیصلے کے متتظر رہے ہیں۔ اب 20 سال کے بعد یہ ثابت ہو گیا ہے کہ یہ تمام بےگناہ ہیں۔ جو سزا شیخ عمر کاٹ چکے ہیں اس کا انھیں ریلیف ملے گا۔‘
حیدرآباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 2002 میں احمد عمر سعید شیخ عرف شیخ عمر کو سزائے موت جبکہ دیگر ملزمان فہد نسیم، سلمان ثاقب اور شیخ عادل کو عمر قید کی سزا سنائی تھی اس کے علاوہ دیگر ملزمان ہاشم، عاصم عرف قاسم، حسن، احمد بھائی، امتیاز صدیقی اور امجد فاروقی کو مفرور قرار دیا گیا تھا۔
ہاشم عرف عارف کو 2005 میں پنجاب سے گرفتار کیا گیا تھا، جنھیں بعد میں سندھ پولیس کے حوالے کیا گیا۔ ہاشم کا تعلق حرکت المجاہدین سے ظاہر کیا گیا تھا اور ان کی رہائش احمد پور ضلع بہاولپور بتائی گئی تھی۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت کے فیصلے کے خلاف ملزمان نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کیں تھیں تاہم وکلا کی عدم حاضری اور عدم دستیابی کے باعث ان کی سماعت کئی سال تاخیر کا شکار رہی۔
ملزمان کے وکلا رائے بشیر اور خواجہ نوید نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ کیس میں تمام گواہ پولیس اہلکار تھے اور اس کے علاوہ پولیس کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہیں کرسکی ہے لہٰذا پولیس اہلکاروں کی گواہی پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔
وکلا کا یہ بھی موقف تھا کہ ملزم نسیم اور ثاقب سے ای میلز اور پیغامات سے بھرا لیپ ٹاپ برآمد کیا گیا اور اور مجسٹریٹ کے روبرو ان کا جو اعتراف جرم ریکاڈ کیا گیا وہ رضاکارانہ نہیں تھا اس میں نقص ہے۔
انھوں نے کہا تھا کہ ’پولیس نے لیپ ٹاپ کی ریکوری 11 فروری 2002 کو ظاہر کی جبکہ کمپیوٹر ماہر رونالڈ جوزف کا دعویٰ ہے کہ اسے یہ لیپ ٹاپ چار فروری کو بھیجا گیا جو اس کے پاس چھ روز رہا۔ پولیس کے اس موقف میں بھی تضاد ہے، لہٰذا ملزمان کی سزا معطل کر کے انھیں رہا کیا جائے۔
یاد رہے کہ امریکی اخبار وال سٹریٹ جنرل کے جنوبی ایشیا میں نمائندے ڈینیئل پرل 23 جنوری 2002 کو کراچی سے لاپتہ ہوئے تھے۔
27 جنوری کو ایک غیر معروف تنظیم دا نیشنل موومنٹ فار دا ریسٹوریشن آف پاکستانی سوورینٹی کی جانب سے دھمکی آمیز پیغام منظر عام پر آیا تھا کہ اگر 24 گھنٹوں کے اندر گوانتانامو بے میں قید پاکستانیوں کو رہا نہ کیا گیا، پاکستان کو ایف 16 طیارے فراہم نہ کیے گئے اور تاوان ادا نہ کیا گیا تو امریکی صحافی کو ہلاک کر دیا جائے گا۔
21 فروری 2002 میں پاکستانی حکام کو ایک ویڈیو موصول ہوئی جس میں ڈینیئل پرل کی ہلاکت دکھائی گئی تھی۔ مئی میں کراچی میں ہی ایک کم گہری قبر سے ایک سر بریدہ لاش برآمد ہوئی جو ڈی این اے رپوٹ کے مطابق یہ ڈینئیل پرل کی تھی۔
بعدازاں کراچی کے آرٹلری میدان تھانےمیں فہد نعیم، سید سلمان ثاقب، شیخ عادل، احمد عمر شیخ عرف مظفر فاروق کے خلاف اِغوا اور قتل کا مقدمہ درج کیا گیا اور بعد میں دیگر ملزمان کے نام بھی شامل کر دیے گئے۔
یاد رہے کہ واشنگٹن ڈی سی کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے تین سالہ پرل پروجیکٹ کے مطابق قتل کی ویڈیو بھی دو مرتبہ بنائی گئی تھی۔
پہلی میں صحافی کی گردن کٹ چکی تھی لیکن کیمرا مین نے خالد شیخ کو کہا کہ وہ دوبارہ اسے ریکارڈ کروائیں۔ دوسری مرتبہ خالد شیخ نے ڈینئل پرل کا سر تن سے جدا کیا۔
امریکی صحافیوں کی طرف سے تیار کی گئی اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ چاروں مجرموں نے اخبار وال سٹریٹ جنرل کے صحافی کے اغوا میں ضرور مدد کی تھی تاہم قتل انھوں نے نہیں کیا تھا۔
کراچی پولیس نے 2019 میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں شاہد شیخ نامی شخص کو بھی ہلاک کیا تھا جس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ وہ ڈینیئل پرل کے قتل میں بھی ملوث تھا۔
پولیس کے مطابق شاہد شیخ کو سنہ 2002 میں انھیں گرفتار کیا گیا تاہم سنہ 2006 میں انھیں رہا کر دیا گیا تھا اور وہ اسی مقدمے میں گرفتار ملزم نعیم بخاری عرف عطا الرحمان کے قریبی ساتھی تھے۔
عطاالرحمان کو فوجی عدالت نے سزائے موت سنائی تھی اس پر ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کے علاوہ کراچی ایئرپورٹ پر حملے کا بھی الزام ہے۔
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).