حامد میر کا ’جارجیا‘ اور انیق ناجی کا مضمون!


22 مارچ کو ایک ٹی وی پروگرام میں سینئر صحافی حامد میر بتا رہے تھے کہ گزشتہ شب اسلام آباد میں ایک اہم مغربی سفارت خانے سے 75 افراد کو ایک سپیشل فلائٹ کے ذریعے پاکستان سے نکال کر ’قریب ترین سٹیشن جارجیا‘ میں منتقل کر دیاگیا ہے۔ حامد صاحب کے مطابق اس غیر معمولی واقعہ کی وجہ سفارت خانے کو ملنے والی وہ اطلاع تھی کہ جس کے مطابق چند ہی دنوں کے اندر اسلام آباد میں کرونا وائرس کی تیز رفتار ’سپائک‘ آنے والی ہے۔

ایمانداری کی بات ہے کہ ایک انتہائی باخبر صحافی کے منہ سے دل دہلا دینے والی خبر سن کر ایک دفعہ تومیں خود بھی سہم گیا تھا۔ خدا کا شکر کہ اگلی صبح ڈان اخبار کے صفحہ اوّل پرتفصیل چھپی کہ کرونا کی پھیلتی وبا کے پیشِ نظر دنیا بھر سے ان امریکی سفارتکاروں اور ان کے خاندانوں کو واپس بلایا جا رہا ہے جو ازخود واپس گھروں کو لوٹنے کے خواہش مند ہوں۔ چنانچہ پاکستان سے بھی 75 امریکیوں کو خصوصی طیارے کے ذریعے واپس امریکہ لے جایا گیا تھا۔

خصوصی طیارہ امریکی ریاست ’جارجیا‘ میں اترا۔ غالب امکان یہی ہے کہ سفارت کاروں نے میر صاحب کو خبر دیتے ہوئے امریکی ریاست ’جارجیا‘ اور قریبی سٹیشن ’جارجیا‘ کی منا سب وضاحت میں ضرورغفلت برتی ہوگی۔ رہی وہ ’سپائک‘ کہ جس کے اندیشے کی بنا پر بقول حامد میر صاحب، امریکی سفارت کار خود کو ڈپلو میٹک انکلیو میں بھی غیر محفوظ تصور کر رہے تھے، فی الحال تو اللہ نے ہمیں اس سے محفوظ رکھا ہے۔ آنے والوں دنوں میں بھی اسی سے رحم کی استدعا ہے۔

یادش بخیر، 2008 میں بھی روزنامہ جنگ کے صفحہ اول پر حامد میر صاحب کی ایک سٹوری چھپی تھی کہ جس کے مطابق میر صاحب نے ہمیں دہشتگردوں کی طرف سے وعید سنائی تھی کہ سینکڑوں خود کش حملہ آور پوری تیاری کے ساتھ ملک کے طول و عرض میں پھیل چکے ہیں جو کسی بھی فوجی کارروائی کے جواب میں پاکستان کے شہروں میں قیامت برپا کر کے رکھ دیں گے۔ یہ وہ دن تھے کہ جب دہشتگردوں کے ترجمان سرِشام ٹی وی ٹاک شو میں براہ راست لائن پر لیے جا تے تھے۔

حال ہی میں معروف صحافی انیق ناجی صاحب کا ایک مضمون نظر سے گزرا۔ میر شکیل الرحمٰن سے متعلق یہ مضمون میں نے بوجہ دلچسپی سے پڑھا۔

غالباً 1981 کے سال، لاہور میں تنویر بھائی جان نے مجھے جنگ اخبار کا پرچہ تھماتے ہوئے پوچھا ’بولو، اس میں کیا نئی چیز ہے؟ ‘ کافی دیر اخبارکو غور سے دیکھنے کے بعد میں نے کندھے اچکائے تو انہوں نے بتایا کہ میر خلیل الرحمن کے صاحبزادے میر شکیل الرحمٰن نے لاہور سے ’جنگ‘ کے مقامی ایڈیشن کا اجرا کیا ہے۔ اور یہ کہ یہ پاکستان کا پہلا اردو اخبار ہوگا جو ہاتھ سے نہیں بلکہ کمپیوٹر پر نستعلیق کمپوزنگ کے ذریعے چھپا کرے گا۔ میں کافی دیرتک اخبار کو دیکھتا رہا۔

میر شکیل الرحمن کے اخبارنے پرنٹ میڈیا میں انقلاب برپا کر دیا۔ نا صرف تکنیکی طور پر بلکہ ان دنوں جنگ کے ادارتی صفحہ کا بھی کوئی ثانی نہیں تھا۔ یوں بھی یہ وہ دور تھا کہ ’جنگ‘ اور ’نوائے وقت‘ کا ہی طوطی بولتا تھا۔ سب بڑے لکھنے والے انہی دو اخباروں میں لکھتے تھے۔

’جنگ‘ گروپ کے بانی میر خلیل الرحمٰن ایک صلح جو انسان تھے۔ حکومتوں کے ساتھ محاذ آرائی سے اکثر گریزاں ہی رہے۔ میر شکیل الرحمٰن نے بھی خود کوایک صحافی سے بڑھ کر کامیاب بزنس مین کے طور پر منوایا۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ 1998 میں جب ’جنگ‘ پہلی بارکسی حکومت سے ٹکرایا تو میر شکیل الرحمٰن ہی گروپ کے کرتا دھرتا تھے۔ میر شکیل الرحمٰن جیسے افراد مجھے اوائل جوانی میں پڑھے جانے والے ہیرلڈ رابنز کے ناولوں کے ہیروز کی یاد دلاتے ہیں۔ مشکل راستے کھوجنے اور نت نئے حریف ڈھونڈ نے والے مہم جو۔ اکثر خیرہ کن کامیابیاں سمیٹتے سمیٹتے خود اپنے ہاتھوں پٹ جانے والے۔

الیکٹرونک میڈیا کا دور آیاتو میر صاحب نے ایک بار پھر ’انوویٹو‘ (Innovative) بزنس مین کے طور پر نئی صدی کے امکانات کوبھانپا اوراس میدان میں بھی انقلاب برپا کر کے رکھ دیا۔ سر پٹ بھاگنے، کم پڑھنے اور زیادہ لکھنے، بے تکان گھنٹوں بولتے جانے والے نووارد دانشوروں اور تجزیہ کاروں کی کھیپ بھی اسی الیکٹرانک دور کی پیداوار ہے۔

جنرل مشرف کے زوال کے سال، جب میر شکیل صاحب کی جب سیکیورٹی اداروں سے ٹھنی تو گروپ سے وابستہ ’نوواردوں‘ کی اسی کھیپ میں سے کچھ ان کا ہراول دستہ بن کرسامنے آئے۔ مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ دہشت گردی کی جنگ کے زخم کھائے ایک عام سپاہی کی نظر سے میں نے جب بھی جنگ گروپ کے اس ہراول دستے کو جمہوریت کی بالا دستی کے نام پر، کبھی افتخار چوہدری تو کبھی شریف خاندان کے ساتھ مل کرسیکیورٹی اداروں پر حملہ آو ر ہوتے دیکھا تو اس کا ’ماسٹر مائینڈ‘ اکثر میر شکیل الرحمٰن کو ہی سمجھا۔

2013 میں جب حامد میر صاحب پر حملہ ہوا تو ’حامد میر کے بھائی نے سب کچھ بتا دیا! ‘ کی اعصاب شکن گردان گھنٹوں لگا تار جیو نیوز کی سکرین پر چنگھاڑتی رہی۔ میں ان دنوں کوئٹہ میں تعینات تھا۔ ہم سب کا یہی خیال تھا کہ میر شکیل الرحمٰن کے ایما پر ہی ان کے ٹی وی چینل اور اخباروں نے اداروں کے خلاف ہیجان برپا کر رکھا ہے۔ اکتا کر ایک روز میں نے روزنامہ ’جنگ‘ کے ساتھ اپنی تین عشروں پر محیط رفاقت کا رشتہ توڑ ڈالا۔ مجھے نہیں معلوم اس اخبار میں اب کیا لکھا جاتا ہے۔

انیق ناجی کے میر شکیل الرحمٰن سے تعلقات بہت قریبی نظر آتے ہیں۔ لہذٰا ان کے حالیہ مضمون کو میں نے دلچسپی سے پڑھا ہے کہ اس میں میرے اس عمومی تاثر کی نفی ہوتی ہے کہ گروپ سے وابستہ کچھ ’نووارد‘ میر شکیل کی ہلہ شیری کے ساتھ ہی مہم جوئی پر اترتے ہیں۔ ناجی صاحب کے مضمون میں بتایا گیا ہے کہ دراصل میر شکیل نہیں بلکہ ان کے ’مشیر‘ ان کو انقلابی بنا کر مرواتے ہیں۔

ناجی صاحب کے مطابق اگرچہ میر صاحب کے یہ ’مشیر‘ جو درحقیقت ان کے ملازم اور ان سے تنخواہ پاتے ہیں، گو آج تو سوشل میڈیا پر میر شکیل کے حق اور حکومت کے خلاف ’جہاد‘ میں سرگرم ہیں، لیکن کل کلاں اگر میر صاحب کے ساتھ پھانسی کوئی نہیں چڑھے گا اور نہ جیل کاتے گا۔ وہاں وہ خود کو تنہا اور ان ’مشیروں‘ کو کسی اور کا ملازم پائیں گے۔ آخری نتیجے میں ناجی صاحب نے میر صاحب کو ٹھنڈے دل سے خود احتسابی کا مشورہ دیا ہے۔

انیق ناجی کے زیرِ نظر تجزیے پر تو خود میڈیا کے لوگ ہی تبصرہ کرسکتے ہیں کہ یہ انہی کا میدان ہے۔ میں مگر ناجی صاحب کی اس رائے سے اتفاق کرتا ہوں کہ صحیح معنوں میں سویلین بالا دستی کا راستہ انقلاب نہیں، ارتقائی منازل کے ذریعے ہی طے ہوگا۔ یہ راستہ لینڈ کروزر، مرسڈیز اور رولز رائس کے مسافروں کا تو ہر گز نہیں۔ ناجی صاحب کی یہ رائے بھی مجھے صائب نظر آتی ہے کہ آئین کی مکمل بالا دستی کسی ایک پرائیویٹ ادارے اور اس کے ملازمین کی نہیں، بلکہ پورے معاشرے کی لڑائی ہے۔ یہ لڑائی معاشرہ ہی جیت سکتا ہے۔ کوئی ایک کاروباری گروپ یا خاندان نہیں!

اسی بارے میں: شکیل صاحب، جیو نیوز اور انقلاب‎


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments