کورونا وائرس: انڈیا کی حکومت نے اس وباء سے نمٹنے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں کیا وہ کافی ہیں؟


नरेंद्र मोदी

گذشتہ دنوں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ریڈیو کے ذریعے عوام سے خطاب کرنے والے اپنے پروگرام ‘من کی بات’ میں ملک گیر لاک ڈاؤن سے عوام کو جو پریشانی ہوئی اس کے لیے معافی مانگی۔

انھوں نے کہا ’میں عوام سے دل سے معافی مانگتا ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ آپ مجھے معاف کردیں گے‘۔

انھوں نے مزید کہا ’چونکہ کچھ ایسے فیصلے لینے پڑے جس سے آپ کے سامنے تمام مشکلات آ پڑیں۔ میرے غریب بھائی بہن سوچتے ہوں گے کہ ہمیں کیسا وزیر اعظم ملا ہے جس نے ہمیں اس مشکل میں جھونک دیا۔ میں دل کی گہرائی سے ان سے معافی مانگتا ہوں‘۔

تو کیا وزیر اعظم کا معافی مانگنا کافی ہے؟

معافی کے باوجود متعدد ایسے سوالات ہیں جن کا جواب دینا ضروری ہے جیسا کہ حکومت غریب مزدوروں کے بارے میں اتنی لاپروا کیوں تھی؟

بڑے شہروں اور دیہات کی جانب نقل مکانی تبھی شروع ہوگئی تھی جب وزیر اعظم نریندر مودی نے کورونا وائرس سے لڑنے کے لیے 24 مارچ کی رات 8 بجے پورے ملک میں 21 دن کے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تھا۔

انڈین شہر بریلی میں لوگوں کو بھی کیمیکل سے دھو دیا گیا

جنوبی ایشیائی ممالک میں کورونا وائرس کے متاثرین باقی دنیا سے کم کیوں؟

’انڈیا کو کورونا وائرس کی سونامی کے لیے تیار رہنا چاہیے‘

گائے کے پیشاب سے کورونا کا علاج اور دیگر ’بےبنیاد‘ دعوے

کورونا وائرس کے ’ہومیوپیتھک علاج‘ پر انڈیا کی وضاحت

کورونا: انڈیا میں ایک شخص کی وجہ سے 40 ہزار لوگ قرنطینہ میں


یہ اعلان رات 8 بجے کیا گیا تھا اور سو ارب سے زیادہ کی آبادی کو صرف 4 گھنٹے کا نوٹس یا وقت دیا گیا تھا۔ لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء اور ضروری ادویات کو خریدنے کے لیے صرف چند گھنٹوں کی مہلت دی گئی تھی۔

دکانوں اور بازاروں میں قیامت کا عالم تھا۔ سب کو لگ رہا تھا کہ اگلے روز سے کچھ نہیں ملے گا۔

دلی میں ملک کے مختلف دیہات سے آکر کام کرنے والے لاکھوں دیہاڑی مزدوروں کا روزگار بند ہوجانے اور بنیادی اشیا اور رہائش کی دقت کے پیش نظر انھوں نے اپنا سامان باندھنا شروع کردیا۔

وزیر اعظم کے بیان میں اس بات کا کوئی ذکر نہیں تھا کہ جب تعیمراتی کام رک جائیں گے، بازار اور دیگر روز گار بند ہوجائیں گے تو یہ روز کمانے اور روز کھانے والے لوگ کیا کریں گے۔

پبلک ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے ان غریب مزدروں نے اپنے گھروں کو واپس جانے کے لیے کئی سو کلومیٹر کا راستہ پیدل شروع کردیا۔

ان میں چھوٹے بچے، خواتین اور حاملہ خواتین بھی شامل تھیں۔ متعدد میڈیا رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھوک، بیماری اور لگاتار میلوں پیدل چلنے کی وجہ سے 20 مزدوروں کی موت ہوگئی۔ واضح رہے کہ انڈیا میں کورونا وائرس کی وجہ سے اب تک 35 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

یہ ناممکن ہے کہ حکومت کے پاس بڑے شہروں میں رہنے والے ان مزدوروں کی تعداد سے متعلق اعدادوشمار نہیں تھے۔

حکومت نے کورونا وائرس کی وبا سے لڑنے کے لیے ترقی پسند مغربی ممالک کی نقل کی اور لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا۔

اگر ہم دیگر ممالک کا ذکر کریں تو ہوسکتا ہے کہ انھیں طبی انتظامات، ٹیسٹنگ کٹس کی کمی اور دیگر مسائل کا سامنا ہو لیکن ان کے یہاں غریـب مزدوروں کی اتنی بڑی تعداد نہیں ہے جو دیہاڑی کما کر اپنا گزر بسر کرتے ہیں۔

2017 کے اقتصادی سروے میں کہا گیا ہے کہ 2011 سے 2016 کے درمیان تقریباً 90 لاکھ لوگ ایک ریاست سے دوسری ریاست روزگار کی تلاش میں گئے۔

2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک کے اندر روزگار کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے مزدوروں کی تعداد تقریباً ایک چشاریہ 39 کروڑ تھی۔

صحت اور فلاح و بہبود کی وزارت کے زیر انتظام کام کرنے والا ادارہ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن سائنسیز کے مطابق یہ چھوٹے شہروں سے آئے مزدروں کو سب سے زیادہ روزگار تعمیراتی شعبے میں ملتا ہے اور اس شعبے میں کم از کم چار کروڑ مزدور کام کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ گھروں میں ملازمت کرنے سے دو کروڑ لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ ٹیکسٹائل کے شعبے میں یہ اعدادو شمار ایک عشاریہ ایک کروڑ ہے جبکہ اینٹوں کے بھٹیوں میں کام کرنے سے ایک کروڑ لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔

اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ، کانوں میں اور بڑے کھیتوں میں مزدروں کی ایک بڑی تعداد کام کرتی ہے۔

ان دیہاڑی مزدروں کے مطابق لاک ڈاؤن کے بعد ان کے روزگار چھوٹ گئے۔ تعمیراتی شعبے اور دیگر شعبوں میں کام بند ہوجانے کی وجہ سے انہیں اپنے اپنے گھروں کا رخ کرنا پڑا .

حکومت اس انسانی بحران کا اندازہ کیوں نہیں لگا پائی؟

حکومت نے غرباء عوام کے لیے ان کے بینک اکاؤنٹ میں کیش ٹرانسفر اور راشن دینے کا اعلان کیا ہے لیکن متعدد مزدروں کے پاس نہ تو بینک اکاؤنٹ ہیں اور نہ ہی راشن کارڈ۔

حکومت نے اعلان کیا ہے کہ سبھی مکان مالک لاک ڈاؤن کے دوران مزدوروں سے اس ماہ کا کرایا نہیں طلب کریں گے۔ اگر کوئی مکان مالک اس حکم کو نہیں مانتا ہے تو اسے چھ ماہ تک کی جیل ہوسکتی ہے یا جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔

وزیر اعظم نے لاک ڈاؤن کا اعلان کرتے وقت یا باتیں نہیں کہی تھیں۔ انہیں اسی وقت لوگوں کو یقین دہانی کرانی چاہیے تھی کہ ان کی رہائش اور کھانے پینے کا انتظام کیا جائے گا۔

جب حالات بگڑے تو حکومت کو ان ساری باتوں کا دھیان آیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے اس اعلان کا موازنہ 2016 کے نوٹ بندی سے متعلق اعلان سے کیا جارہا ہے۔ اس وقت بھی وزیر اعظم نے رات کے 8 بجے اعلان کرکے ملک کی 80 فی صد کرنسی کو بیکار قرار دے دیا تھا۔

اس وقت پورے ملک میں ایسا بحران پیدا ہوگیا تھا جس کی مثال نہیں ملتی۔

وزیر اعظم مودی نے بعد میں لوگوں سے اپیل کی تھی کہ بس کچھ دنوں کی مہلت دے دیجیے سب ٹھیک ہوجائے گا۔ اگر حالات بہتر نہیں ہوئے تھے سزا دینے کے لیے جس چوہراے پر آپ بولیں گے وہاں کھڑا ہوجاؤں گا۔

لندن کے کنگس کالج میں پروفیسر اور ‘ دا پینڈامک پرہیپس’ کے ادیب کارلو کاڈف فی الوقت انڈیا میں رہائش پزیر۔

پروفیسر کاڈف کہتے ہیں، ” بھارت کے غریباور ہاشیے پر موجود عوام بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ پہلے سے ہی غیر برابری کی زندگی گزارہے ان لوگوں پر مزید برا اثر پڑے گا’۔

پروفیسر کاڈف یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ اس طرح کے سخت فیصلوں کے نفاذ سے پہلے ان کے نتائج کے بارے میں بحث کی نہیں ہوتی .

اقتصادی ماہر جان دریز نے اپنے آرٹیکل میں لکھا ہے حکومت نے جس اقتصادی پیکج اور دیگر اقدامات کا اعلان کیا ہے اس پیکج میں کوئی برائی نہیں یا حکومت نے جو کیش ٹرانسفر اور راشن تقسیم کرنے کی بات کہی ہے وہ بھی اچھا قدم ہے لیکن انڈیا کے متعدد غریب مزدورں کے پاس آج بھی راشن کارڈ نہیں ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ حکومت نے کیش ٹرانسفر کے لیے جو 31000 کروڑ روپئے مختص کیے ہیں اس کے تحت ہر غریب کے کھاتے ہیں ہر ماہ 500 روپئے جائیں گے۔ یہ سکیم صرف تین ماہ کے لیے ہے۔ کسی بھی عام خاندان کے لیے 500 روپئے ماہ میں گزر بسر کرنا ناممکن ہے۔

اور جن مزدورں کے پاس راشن کارڈ نہیں ہیں یا جن کا بینک اکاؤنٹ ہی نہیں ہے ان کی مدد کس طرح سے کی جائے گی?

लॉकडाउन

کیا لاک ڈاؤن کے علاوہ کوئی متبادل نہیں تھا؟

24 مارچ کو وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ حکومت یہ دیکھ رہی ہے کہ اس وباء نے دنیا کے ترقی پسند ممالک کے بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ ان ممالک نے اس وباء سے نمٹنے کے لیے معقول اقدامات نہیں کیے یا ان کے پاس ذرائع کی کمی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ کورونا وائرس کا پھیلاؤ اتنی تیزی سے ہوا کہ تمام تیاروں اور کوششوں کے باوجود دنیا کے مختلف ممالک اس کا مقابلے کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا فی الحال اسے سے بچنے کا ایک ہی کارآمد طریقہ ہے اور وہ ہے سماجی دوری۔

لیکن ہمارے سامنے جنوبی کوریا کی مثال ہے۔ وہاں کی حکومت اس وائرس کو قابو کرنے میں کامیاب ہوئی ہے اور اس کی وجہ ہے زیادہ سے زیادہ لوگوں کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ۔

یہاں تک کہ عالمی ادارے صحت ‘ڈبلو ایچ او’ مسلسل اس بات پر زور دے رہا ہے کہ اس وباء کو روکنے کے لیے سماجی دوری کے ساتھ ساتھ اس کا ٹیسٹ کرانا بھی اتنا ہی اہم ہے۔

لیکن وزیر ا‏عظم نریندر مودی کا خطاب سن کر یہ بات سمجھ آئی ہے کہ انڈیا نے صرف سماجی دوری والی بات پر عمل کیا ہے اور یہ فیصلہ کیا ہے کہ لاک ڈاؤن کے ذریعے ہی وائرس کے پھیلاؤ کو روکا جاسکتا ہے۔

لاک ڈاؤن کا مقصد تھا کہ لوگ اپنے گھروں میں رہیں اور بھیڑ کا گروپ میں نہ رہیں۔

لیکن جو لاکھوں مزدور پیدل چل کر اپنے اپنے گھر جارہے تھے وہ ایک بھیڑ تھی اور اس کے بعد جب حکومت کی جانب سے انہیں بسوں میں لے جایا گیا ان بسوں میں انہیں بھوسے کی طرح بھرا جارہا تھا۔ یہاں تک کہ بسوں کی چھتوں پر بھی لوگوں کو بیٹھا دیکھا جاسکتا تھا۔

یہ بھی کہا گیا کہ اپنی اپنی ریاستوں پر پہنچنے پر وہاں کی حکومتیں ان مزدروں کو قرنطینہ کریں گی لیکن قرنطینہ کے لیے ہر شخص کو علیحدہ کمرے میں رکھنا ضروری ہوتا ہے لیکن وہاں اس طرح کا کوئی انتظام نہیں تھا .

दक्षिण कोरिया

جنوبی کوریا سے انڈیا نے سبق حاصل نہیں کیا؟

مارچ 2020 کی ابتدا میں عالمی ادارے صحت نے کہا کہ کورونا وائرس ایک وباء ہے اور اس سے بچنے کے لیے سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی اہم ہے۔

حالانکہ اس معاملے میں جنوبی کوریا نے منفرد اقدامات کیے اس نے سماجی دوری کے علاوہ بڑے پیمانے پر لوگوں کے ٹیسٹ کرائے اور وہ کورونا وائرس کے سلسلے کو توڑنے میں کامیاب رہا۔ جنوبی کوریا نے لاک ڈاؤن جیسے سخت اقدامات نہیں کیے۔

انڈین حکومت کے ایجنیڈے میں بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کرانا شامل نہیں ہے۔ حکومت نے کہا ہے کہ وہ رینڈم نمونے جمع کرے گی۔ باقاعدہ ہر انسان کا ٹیسٹ نہ ہونے کی وجہ سے یہ نہیں معلوم ہورہا ہے کہ یہ وباء کس حد تک پھیل چکی ہے۔

پروفیسر کاڈف لکھتے ہیں۔ ” جن ممالک میں طبی سہولیات آسانی سے دستیاب ہیں، صحیح تعداد میں تربیت یافتہ طبی سٹاف موجود ہے وہاں مریضوں کے زندہ بچے رہنے کی امید زیادہ ہے۔ سپین میں فی 1000 مریضوں پر تین بیڈ ہیں، اٹلی میں یہ تعداد 2۔3 ہے، فرانس میں 6، جرمنی میں 8، اور جنوبی کوریا میں یہ تعداد 3۔12 ہے”

कोरोना वायरस के बारे में जानकारी

نجی ہسپتالوں میں لیب میں ٹیسٹنگ کٹس بنانے کی منظوری دینے میں تاخیر کیوں؟

بھارت میں کٹس کی کمی سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہاں جس سطح پر ٹیسٹ ہونے چاہیے وہ ہو ہی نہیں رہے ہیں۔ شروعات میں آئی سی ایم آر نے یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن اور یورپی سی ای سرٹیفیکیشن والی ٹیسٹنگ کٹ کی منظوری دی، اس میں چینئی کی ٹرائوٹرون ہیلتھ کيئر جیسی بھارتی کمپنیوں کو شامل نہیں کیا گيا۔

ٹرائوٹرون چین کو پانچ لاکھ کٹس بھیج چکی ہے۔ حالانکہ کمپنی اس طرح کی کٹس نہیں بنا رہی ہے جس کے ذریعے ایک دن میں ہزاروں لوگوں کا ٹیسٹ کرا جاسکے۔ لیکن حکومت نے شروع میں تقریبا دوگنی قیمت میں کٹس کو برآمد کیا۔

ٹرائوٹرون اور مائی لیب ڈسکوری اب بھی آئی سی ایم آر اور سینٹرل سٹینڈرڈ ڈرگز کنٹرول اوگینائزیشن سے اپنی ٹیسٹنگ کٹس کی منظوری ملنے کا انتظار کررہی ہے۔

دوسری جانب سویز کمپنی کی سبسڈری روشے ڈائیگنوسٹکس انڈیا کو ٹسیٹ کرنے کا لائسنس مل گیا ہے۔

2019 میں مائی لیب کو ایچ آئی وی، ہیپ ٹائٹس بی، اور سی کی ٹیسٹنگ کٹ کے لیے بھارت کی پہلی ایف ڈی اے سے منظور شدہ مولیکیولر ڈائيگنوسٹکس کمپنی کے طور پر منظوری مل گئی تھی۔

ٹرائوٹرون کی پارٹنر کمپنی لیب سسٹم ڈائیگنوسٹکس چین میں کٹس فروخت کررہی ہے۔ کمپنی نے کہا ہے کہ وہ ہر دن 5۔7 لاکھ کٹس بنا رہی ہے۔

آئی سی ایم آر کے نیٹورک میں لیب میں کرائے جانے والے کووڈ 19 ٹیسٹ کا خرچ تقریبا 4500 روپئے ہے جو غریبوں کے لیے ایک بڑی رقم ہے۔

कोरोना वायरस के बारे में जानकारी

بھارت دنیا میں سب سے کم ٹیسٹنگ کرنے والا ملک کیوں؟

27 مارچ تک بھارت نے صرف 26798ٹیسٹ کیے تھے جب دنیا بھر کے ملکوں میں کیے جا رہے سب سے کم ٹیسٹ ہیں۔

اس بات کوئی واضح دیٹا نہیں ہے بھارت میں کتنے ٹیسٹ کرنے کی سہولت دستیا ب ہے۔ ٹیسٹ کٹس کی کمی کی وجہ سے ٹیسٹ کرنے کا معیار سخت ہے۔

صرف ان لوگوں کا ٹیسٹ کیا جارہا ہے جو یا تو اس وباء سے متاثر ممالک سے لوٹے ہیں یا اس وائرس سے متاثرہ مریضوں کے رابطے میں رہے ہیں۔

20 مارچ کو آئی سی ایم آر نے کہا کہ ٹیسٹنگ میں ان افراد کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے جو طبی شعبے میں کام کرتے ہیں یا جنہیں اس وائرس کے لگنے کا خدشہ زیادہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق ڈبلو ایچ او کی سفارش کے ہر 1000 شخص پرایک ڈاکٹر ہو اس کے برعکس انڈیا میں فی 10000 شخص ایک ڈاکٹر موجود ہے۔

حکومت سے یہ سوال پوچھا جارہا ہے کہ اس نے صحیح وقت پر کٹس اور پی پی آئی یعنی پرسنل پروٹیکٹو اکیپمنٹ کا پروڈکشن کیوں نہیں بڑھایا۔ ساتھ وینٹیلیٹر بھی دھیان نہیں دیا گيا۔

حکومت نے 28 مارچ کو صرف یہ اشارہ دیا کہ ملک کووڈ 19 کی سٹیج تھری میں داخل ہوچکا ہے۔

اپنے دوسرے خطاب میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ حکومت نے کورونا وائرس سے لڑنے اور ملک کے طبی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لیے 15000 کروڑ روپئے کا پیکج مختص کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس رقم سے ” ٹیسٹنگ کٹ، پرسنل پروٹیکٹو اکیپمنٹ یعنی پی پی آئی، ائسولیشن بیڈ، آئی سی یو بیڈ، وینٹیلیٹر اور دیگر طبی آلات کی تعداد میں اضافے میں مدد ملے گي”

وینٹیلیٹر کی کمی کیسے پوری ہوگی؟

وفاقی وزارت صحت کے مطابق انڈیا میں پبلک سیکٹر کے صرف 8432 وینٹیلیٹرز ہیں، جبکہ پرائیوٹ سیکٹر کے پاس 40000 وینٹیلیٹرز ہیں۔

ٹاٹا موٹرز، مہندرا اور مہندرا، ہوندئی موٹر انڈیا، ہونڈا کارس انڈیا، اور ماروتی سزوکی انڈیا سے وینٹیلیٹر بنانے کی کوشش کرنے کے لیے کہا گيا ہے۔

وینٹیلیٹر کی ضرورت کووڈ 19 سے بے حد متاثر مریض کو لائف سپورٹ دینے میں کام آتا ہے۔

ماہرین کہ چکے ہیں کہ انڈیا کو ملک میں موجودہ وینٹیلیٹر کی تعداد سے 8 یا 10 گنا زیادہ وینٹیلیٹرز کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

کاریں بنانے والی کمپنیاں وینٹیلیٹر بنانے میں مصروف ہیں اور اب ان کو بنانا ایک بڑا چیلنج ہے۔

دوسرے ممالک وینٹیلیٹرز حاصل کرنے کی دوڑ میں مصروف ہیں۔ میڈیا کی رپورٹس سے یہ احساس ہورہا ہے کہ سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی کے علاوہ معقول طبی سہولیات بھی بے حد ضروری ہیں۔

کووڈ 19 کی وباء کا مقابلہ کرنے کے لیے انڈین حکومت کی جانب سے ابھی تک جو بھی اقدامات کیے گئے ہیں ان کا جواب نہیں مل رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32543 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp