اب آپ گھر بیٹھے خون کا عطیہ دے سکتے ہیں


بلڈ بینک

اس وقت پاکستان میں تھیلیسیمیا کے ایک لاکھ مریض ہیں

کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے نتیجے میں پاکستان کے مختلف شہروں میں موجود تھیلیسیمیا بلڈ بینک میں خون کا عطیہ کرنے والوں کی شدید کمی ہوگئی ہے۔

لیکن اب اس کمی کو مدّنظر رکھتے ہوئے، فاطمید فاؤنڈیشن اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیسیزز نے ’ہوم سروس‘ کا اعلان کر دیا ہے۔

اس نئی سروس کے ذریعے خون کا عطیہ دینے کے لیے لوگ بلڈ بینک یا ہسپتال آنے کے بجائے گھر بیٹھے خون عطیہ کرسکیں گے۔

اس وقت پاکستان کے کئی شہروں میں جزوی یا مکمل لاک ڈاؤن کا نفاذ ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں لوگ سڑکوں اور گلیوں میں جمع نہیں ہوسکتے۔

کورونا وائرس کی وبا پھیلنے سے پہلے تک لوگ سڑکوں میں لگے کیمپ، بلڈ بینک اور ہسپتالوں میں جا کر خون عطیہ کرتے تھے۔

مزید پڑھیے

وہ چار ٹیسٹ جو شادی سے پہلے کروانا ضروری ہیں

پشاور میں پہلےعلاقائی بلڈ سینٹر کا افتتاح

لیکن کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد سے لوگ ہسپتالوں اور بلڈ بینک کی طرف سے لگائے گئے کیمپوں میں وائرس لگنے کے ڈر سے نہیں جارہے۔

خون کی عطیات میں کمی کا براہِ راست اثر تھیلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچوں پر پڑ رہا ہے جن کو دس سے پندرہ دنوں میں خون کی ضرورت پڑتی ہے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیسیزز کے ڈائریکٹر طاہر شمسی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’کورونا وائرس سے پہلے ہمارے ادارے کے بلڈ بینک میں تقریباً 1000 سے 1200 خون عطیہ کرنے کے لیے آرہے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد یہ تعداد ڈھائی سو افراد تک محدود ہوگئی جو تھیلیسیمیا میں مبتلا بچوں کے لیے خطرناک بات ہے۔

اس وقت پاکستان میں تھیلیسیمیا کے ایک لاکھ مریض ہیں جن میں زیادہ تر تعداد بچوں کی ہے۔ تھیلیسیمیا کا مرض والدین کے ذریعے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔

ڈاکٹر شمسی نے بتایا کہ اس مرض کی تین اقسام ہیں جن میں تھیلیسیمیا مائنر، میجر اور انٹر میڈیٹ ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس مرض میں زیادہ تعداد بچوں کی ہوتی ہے جن میں ہیموگلوبن کی شدید کمی کے باعث ان کو ہر دس سے پندرہ دن میں خون چڑھانا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے کہ ادویات کے استعمال سے بچوں میں آئرن کی مقدار برابر رہے۔

تاہم کورونا وائرس کے دنیا بھر میں پھیلنے کے بعد اس وقت باقی مہلک بیماریاں اور ان پر کی جانی والی بات چیت پسِ پشت جاچکی ہے۔

ڈاکٹر طاہر شمسی اور فاطمید فاؤنڈیشن سے منسلک ڈاکٹرز نے حال ہی میں وزیر مملکت برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا سے بھی اپیل کی کہ وہ ملک بھر میں خون کے عطیات کو یقینی بنائیں۔

اس کے ساتھ ہی اسلام آباد سے جُڑے ادارے جمیلہ سلطانے فاؤنڈیشن نے بھی حال ہی میں اپنے ادارے سے منسلک بلڈ بینک میں خون کی عطیات میں اضافے کے لیے گھر بیٹھے خون عطیہ کرنے کی سروس متعارف کرنے کی بات کی۔

لیکن خون کی عطیات میں ہونے والی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے، فاطمید فاؤنڈیشن اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف بلڈ ڈیسیزز نے ہوم سروس کا اعلان کر دیا ہے۔

اس سروس کے بارے میں بات کرتے ہوئے فاطمید فاؤنڈیشن سے منسلک سیما نے بی بی سی کو بتایا کہ جو لوگ گھر سے باہر نہیں نکل سکتے اُن تک فاطمید، این آئی بی ڈی اور دیگر بلڈ بینک پہنچ جایا کریں گی۔

انھوں نے کہا کہ ’سڑکوں پر موجود کیمپ سے ہمارا روزانہ کا تقریباً چالیس سے پچاس فیصد کام ہوجاتا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ لوگوں میں کورونا وائرس کے پھیلنے کے نتیجے میں بہت تحفظات ہیں لیکن اس سروس کے ذریعے ہم اپنے ورکروں کو گھر بھیجتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ فاطمید اور دیگر اداروں سے منسلک رضاکار گھر گھر جاکر خون کی عطیات جمع کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ ’اس کے لیے ہم نے سٹیریلائزڈ آلات بھی منگوائے ہیں۔ اور گھروں کے باہر اپنے ٹیم کے لوگ بھی بھیجتے رہتے ہیں تاکہ کسی کو بھی گھر سے نکلنا نہ پڑے۔‘

سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ اور میڈیا چینلوں کے ذریعے ان اداروں کی کیمپین خاصی کامیاب ہوئی ہے۔ لیکن اب بھی اور عطیات کی ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ ہی ڈاکٹر طاہر شمسی نے بتایا کہ ’ہم وائرس کے پیشِ نظر لوگوں کے تحفظات کو سمجھتے ہیں۔ لیکن ہماری اپیل ہے کہ ایسے لوگوں کا بھی خیال رکھیں جن کو ہماری معاشی اور جسمانی عطیات کی ضرورت ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp