کورونا: عقیدہ، گروہی مفاد اور اجتماعی ذمہ داری


بات یہ نہیں کہ آپ کسی مخصوص فرقے یا گروہ کو کرونا پھیلانے کا ذمہ دارقرار دے دیں بلکہ بات احساس ذمہ داری کی ہے۔

چین میں کون سی یہ بیماری تبلیغی جماعت سے پھیلی تھی یا اٹلی میں شیعہ زائرین واپس گئے تھے۔ کسی کے مخصوص وتیرے کی وجہ سے اسے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے اور بنایا جائے گا نہ کہ عقیدے کی بنیاد پر یا تعصبات کی وجہ سے۔ اسی طرح بے جا حمایت کرنے والے بھی صرف ذاتی وابستگی کی وجہ سے بغیر معاملے کو سمجھے میں نہ مانوں کی رٹ لگائے کھڑے ہیں اور بنیادی ہدایات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے جو نقصان اپنا اور ملک کا کر چکے اس پر کی جانے والی بات کو عقیدے پر حملہ اور کفر و اسلام کے دنگل میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ سیاسی لیڈر اور مذہبی راہنما بھی بجائے سمجھانے کے مفادات کے لئے دفاع میں کود پڑتے ہیں۔

ایک جاننے والے افریقہ کے ایک ملک میں ڈاکٹر ہیں۔ کرونا کے زور سے پہلے وہ اپنے والد کی تیمارداری کے لئے کینیڈا میں تھے۔ ابھی شور شروع ہوا ہی تھا کہ واپس چلے گئے۔ ائیرپورٹ پر انہیں قرنطینہ میں بھجوا دیا گیا۔ ان کی تنظیم بڑی با اثر تھی اس نے بھی دباؤ ڈالا، انہوں نے بھی کہا کہ میں خود ایک ڈاکٹر ہوں لیکن اس افریقی ملک میں کسی کی بھی نہ سنی گئی اور چودہ دن قرنطینہ میں گزارنا پڑے۔ اس افریقی ملک میں تادم تحریر بھی کرونا کے صرف دو کیس ہیں۔

ہمارے ہاں نا اہلی حکومت سے شروع ہوتی ہے اور عوام کی ضد تک پہنچتی ہے۔ تین جنوری کو (کرونا کے پہلے کیس سے بھی پہلے) نوٹس لینے کے باوجود کوئی خاص قدم نہ اٹھایا گیا۔ جب اٹھایا تو کوئٹہ سے زائرین کو بہاولپور لا کر قرنطینہ میں رکھا جانا شروع ہوا۔ قرنطینہ کی ضرورتوں کو مدنظر نہ رکھ کر ہالوں کے اندر لوگوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونس دیا گیا جہاں بنیادی صفائی بھی ناپید تھی۔ بعض ذمے دار افسروں کا کہنا تھا کہ گندگی اور غلاضت سے بیماریاں پھیلنے کا خطرہ کرونا سے زیادہ ہے۔

پیسوں اور وسائل کی کمی، غربت اور دیہاڑی داروں کی مشکلات یقیناً ایک جائز مسئلہ ہے، یہ وائرس اپنے نئے پن کی وجہ سے پوری دنیا کے لئے چیلنج ہے۔ لیکن لوگوں کو مانیٹر کرنے کے لئے ان کے سروں کے آگے سے تھرمامیٹر گزار کر انہیں کلیئر قرار دینا، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کی طرف سے ڈیزاسٹر ہو جانے کے بعد پلاننگ پر سوچنا شروع کرنا، لاک ڈاون، مکمل لاک ڈاون، گڈز ٹرانسپورٹ کی بحالی جیسے کنفیوژن کا شکار ہونا اور عوام کو کرنا، عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے حقائق سے لاعلم ہونا یا جان بوجھ کر غلط بیانی کرنا، اپوزیشن رہنماؤں کو اس طرح کی ہنگامی صورتحال میں اعتماد میں نہ لینا اور مشاورت نہ کرنا، نمبرز گیم میں پڑے بغیر اچھے قدم میں مخالف کی تقلید نہ کرنا۔ حکام کی کس کس نا اہلی کو رویا جائے؟

دوسری طرف عوام کا رویہ جو ابھی تک یہود و نصاری کی سازشوں سے ہی باہر نہیں نکل سکی۔ اگر انہیں آگاہی دینے کی کوشش کی جائے تو اسے کفر و اسلام، لبرل اور استعمار کا مسئلہ بنا لیتی ہے۔ وباوں سے متعلق حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح احکامات کے باوجود مذہبی اور سیاسی وابستگیاں، عبادات کو ”مغربی ایجنڈے“ سے بچانے کی کوششیں، چھ ہزار رشوت دے کر قرنطینہ سے فرار، کرونا کے مریض کا ہسپتال کی مسجد میں جمعہ پڑھتے پکڑے جانا، ہاتھ ملا کر سلام لینے کی برکات، پھونکوں کی شف شف، ہزار روپے میں بھاپ سے کرونا بھگانا، پریشر ککر میں وکس ڈال کر دھواں لینا، واٹس ایپ پر ایک منٹ میں بیماری کی تشخیص، چوبیس گھنٹے میں مکمل شفایابی۔ وہ طولانی داستان ہے کہ سنائے نہ بنے اور چھپائے نہ بنے۔

ٹریفک کے قوانین کی پابندی نہ کرنے والوں کو جو سزائیں اور جرمانے مغربی ممالک میں ہوتے ہیں ان کی ایک بنیادی فلاسفی بیان کی جاتی ہے کہ آپ قوانین کی پاسداری نہ کرکے دوسروں کی زندگی کے لئے خطرہ بنتے ہیں۔ ہمارے ہاں گنگا الٹی کہ میری زندگی میری مرضی، جورات قبر میں ہے وہ باہر نہیں آئے گی، اللہ فضل کرے گا کچھ نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ۔ بھائی اگر آپ کا ایمان بہت مضبوط ہے یا آپ کرونا وائرس سے مرنے کا ارادہ کر چکے ہیں تو جاتے جاتے اہل خانہ، محلہ، وطن اور دنیا کو تو عذاب میں مبتلا کرنا ضروری نہیں۔

نشہ ہے، جہل ہے، شر ہے، اِجارہ داری ہے

ہماری جنگ کئی مورچوں پہ جاری ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments