وبا کے دنوں میں خود سے ملاقات


ان دنوں کرونا کے حوالے سے رنگا رنگ موضوعات کی بہار آئی پڑی ہے۔ کرونا وائرس کے وبائی دنوں میں محبت، پھر تجدید محبت۔ پھر خود سے ملنے کے دن، اپنے آپ کو پہنچاننے کے دن وغیرہ وغیرہ۔

آمنہ مفتی نے بھی لکھا۔ ان وبائی دنوں میں گھر پر رہئیے اور خود سے ملئے۔ اب اپنے آپ سے باتیں کرتی اور پوچھتی ہوں بھئی یہ خود سے ملنا کیا ہوا؟ ہم جیسے اجڈوں نے تو ساری زندگی خود کا نہیں سوچا۔ اب اِس آخری پہر کیا اِس پر غور کریں گے۔ وہی مثال صادق کہ عمر تو ساری کوئے بتاں میں کٹی،اب کیا خاک مسلمان ہوں گے؟

اب خود سے ملنے کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خود پر توجہ دیں۔ اپنی وئیر ٹیر Wear Tearکو دیکھیں۔ اب پھر سوچیں تھیں۔ یہ کام بھی ساری زندگی نہیں کیا۔ ہم نے تو بھنووں سے بھی کبھی چھیڑ خانی نہیں کی۔ حتیٰ کہ شادی والے دنوں میں بھی وہ کچھ نہیں کیا جو بہرحال ہمارے وقتوں میں سکہ رائج الوقت تھا۔ بیوٹی پارلروں کا تو تب کہیں دور دور نام و نشان تک نہ تھا۔ ہاں اُبٹن جیسے دیسی ٹونے ٹوٹکے بہتیرے تھے۔ رنگ چونکہ کالا تھا اسے البتہ گورا کرنے کے لیے پانی والے تالاب کے حکیم سید ظفر عسکری کی جان نہیں چھوڑتی تھی۔ میرے کونڈی ڈنڈے اور پُڑوں کی غرض و غایت جب چھوٹی خالہ کو سمجھ آئی تو اس نے بھی یہ طعنہ دینا فرض بنا لیا۔

کالے کدی نہ ہوندے بگھے

بھانویں نو من صابن ملّے

اور میں شدت سے چاہنے کے باوجود وہ کونڈی ڈنڈا نہ کبھی اپنے سر پر مار سکی اور نہ چھوٹی خالہ کے۔ اب رہی محبت بھئی ہوئی ہوگی۔ کِسی نے تجدید محبت کا مزہ بھی چکھا ہوگا۔ یا کِسی کو کِسی کی تجدید محبت کی داستان سننے کو ملی ہوگی۔

وبائی دنوں میں محبت پر کون سے جوڑے فٹ بیٹھتے ہیں اگر تجزیہ کریں تو شاید ایک بھی نہیں۔ نوبیاہتا بیچاروں کے ارمانوں پر تو اوس پڑ گئی ہوگی۔ بیڈ روم کے سوا گھر میں کون سی جائے عافیت ہے اُن بیچاروں کے لیے۔ باہر نکلنے اور ہنی مون کے راستے جائے ممنوعہ بن گئے ہیں۔ محبت کا گھنا خوبصورت سر تو اِس ناگہانی آفت کے نزول سے ہی گنجا ہوگیا ہے۔

اب رہے ہم۔ ہمارے ہاں تو یہ فرصت کے دن عذاب بن گئے ہیں۔ ایک عذاب باہر دوسرا گھر کے اندر۔

ہماری زندگیوں میں گھر کے اندر رہنے کی سکون بھری عیاشی تو کہیں ہے ہی نہیں۔ اب پونے پانچ یا پانچ بجے اٹھ کر اس کے حضور جھکنے کے بعد کا وقت تو جیسا روانڈ دی کلاک جیسا ہی ہوتا تھا۔ کبھی کبھی جی چاہتا ہائے ہماری بھی کیا زندگی ہے کھوتوں کی طرح جتے رہتے ہیں۔ سکون سے ناشتہ بھی نصیب نہیں۔ ہاں البتہ اگر کبھی اتفاق سے تین چار چھٹیاں اکٹھی آگئیں تو سیاپا ہی پڑ گیا۔ دیکھ لیں بندہ بھی کتنا ناشکرا ہے۔

میاں کی اپنی سرگرمیاں دل جلانے والی۔ لان کی فضول کانٹ چھانٹ ہورہی ہے۔ اچھے بھلے پودوں کا ناس مارنا شروع کردیا ہے۔ کچھ کہنے کا بھی فائدہ نہیں کہ کون سی سُننی ہے۔ بولتے جاؤ۔ کرتے جاؤ آپ بکواس۔

اب میں کیا کروں؟ باورچی خانے میں گھستی ہوں۔ بچوں کے لیے چپس تلنے والی کڑاہی کو دیکھا ہے حشر نشر ہوا پڑا تھا اس کا۔ ایک ایک دراز کو کھولا۔ اتنی قابل رحم حالت کہ غصّے سے خون کھولنے لگا ہے۔ سلیقہ شعار تو خیر کبھی نہ تھی مگر ایسی پھوہڑ بھی نہ تھی۔ سر پر پڑی تو دال دلیا کرنا سیکھ ہی گئی۔ مگر الاّ ماشاء اللہ بہوؤں کو کیا کہوں۔ کچھ کہتے ہوے بھی ڈرتی ہوں۔ ایک تو نری اللہ میاں کی گائے اور دوسری ماشاء اللہ سے بڑی زمانہ ساز۔ اب کیا کروں۔ بیکار اندر باہر کے چند چکر کاٹے۔

صبح پژمردہ سی تھی۔ جس میں دل ڈوبتا اور مایوسیاں بھنگڑے ڈالتی تھیں۔ شاپروں کی گٹھریاں نکالیں۔ پٹارے کھولے بیٹھی ہوں۔ عمر عیار کی زنبیل ہے میرے سامنے۔ بیٹی بہو جس نے جو اچھی بھلی کرتی پاجامہ کنڈم کر کے پھینک دیا وہ میری گٹھری میں سما گیا۔ بیٹی کی اچھی بھلی قمیضیں جن کے نیچے لگی قیمتی لیسیں نئی تھیں۔ کتنی فضول خرچ ہیں یہ آج کی لڑکیاں۔ کچھ سوچتی ہی نہیں۔ کپڑے پر کپڑے خریدتی چلی جاتی ہیں۔ یہی حال بہوؤں کا ہے اب اللہ سمجھے اِس آن لائن شاپنگ کو۔ گھروں میں بیٹھی آرڈر کرتی ہیں۔ دروازے پر دستک ہوتی اور ٹی سی ایس کا بندہ پیکٹ تھماتا ہے اور ساتھ ہی ڈھیرسارے پیسوں کا مطالبہ ہوتا ہے۔ ایسے میں خون کھولتا ہی ہے نا۔ اور تو اور اب یہ کام بیجنگ میں بیٹھی نواسی نے بھی شروع کردیا ہے۔ وہ وہیں سے آرڈر کرتی ہے۔ اب بولتی ہوں کہ اے ہے ابھی کل تو پیکٹ آیا تھا آج پھر آگیا ہے۔ پوتی فوراً کہتی ہے۔ ”دادو یہ تو فاطمہ آپی نے منگوایا ہے۔“ اب ایسے میں بولوں کہ نہ بولوں۔ تو بھئی بولتی ہوں کہ اِسے وہاں بیٹھی چین نہیں۔ پاکستان آنا ہی ہے نا تو خرید لینا۔ اِن کا تو حال ہے۔ کھوں پیا ویہڑکا ہن اے کھسی کرلو۔ (یعنی بچھڑا کنویں میں گر گیا ہے بس فوراً خصی کر لو۔ )

اب خود کو بھی کیا کہوں۔ فضول اور بے تکے شغل سے باز نہیں آؤں گی۔ لنڈے کے سویٹروں کو اُدھیڑنا، گولے بنانا، انہیں نئے بنانے کی کوشش کرنا اور پھر زچ آکر ادھورے چھوڑ دینا، بریزے کی دکان سے کٹ پیس خریدنا اور پھر ان کے جوڑ توڑ کرنے بھی میرے محبوب مشغلوں میں سے ایک ہے۔ ایسی کمینی ہوں کہ گھنڈ توپیوں پر ڈھیروں ڈھیر وقت ضائع کردوں گی پر اِس فضول اور بے تکے شغل سے باز نہیں آؤں گی۔ اب ایک بازار کھلا پڑا ہے سامنے۔

اِن میں کچھ اچھے نگ بانٹے جاسکتے ہیں۔ ملازموں کی بیویاں بچیاں۔ بچیوں کے لیے تو دل فوراً منکر ہوگیا۔ اے ہے۔ ماشاء اللہ سے جیتی رہیں لڑکیاں یہ سب اسکولوں کالجوں میں پڑھتی ہیں۔ زمانے کے رنگ ڈھنگ سے آشنا ہیں۔ ماشاء اللہ سے دیکھو تو جی خوش ہو۔ 1500، سولہ سو میں اچھا نیا سوٹ خریدتی ہیں۔ اُترن کاہے کو پہنیں۔ اللہ نیک نصیب کرے سب کے۔ چلو ماؤں کی اور بات ہے وہ پہن لیں گی۔

رات کچھ اضطراب میں گزری۔ عمران خان کی حکومت گرنے کی افواہیں، بیوروکریسی کے شہباز شریف سے رابطوں بارے سرگوشیاں، بزدار، اعظم خان اور زلفی بخاری سے متعلق عمران خان کی حماقتیں اور اُن سے جڑے رہنے کی وجوہات اور ان سے پیدا شدہ خرابیوں پر مختلف یو ٹیوب چینلز پر تبصرے، حاشیہ آرائیاں۔ بیچ میں بوٹوں کی آمد کے امکانات، اسمبلیوں کے ٹوٹنے اور مارشل لا کا لگنا سب کے بارے لن ترانیاں سنتے سنتے کہیں اچاروں کی ترکیبیں دیکھتے دیکھتے سو گئی۔ نیند تو بس اِن ابتر حالات جیسی ہی تھی۔

صبح دم دیر سے آنکھ کھلی۔ نماز قضا تھی۔ باہر رم جھم کا سلسلہ تھا۔ ایک اور ہوک دل میں اٹھی۔ خدایا پاکستان اس وقت دوہری آزمائش میں ہے۔

بندہ کیسے سیاپے میں پڑ گیا ہے۔ کہاں کہاں جان بچاتا پھرے۔ اخبارات کا مطالعہ کرنا عادت ہے۔ ملازم لاتا ہے۔ چولہے پر تیز آگ پر ہاتھوں میں پکڑ کر اُسے اور اپنے ہاتھوں کو پکاتی ہوں۔ اب یہی کہہ سکتی ہوں کہ دل کو بہلانے کو یہ خیال اچھا ہے۔ پہلے صفحے پر چپکے جراثیموں کو چتا رسید کردیا تو اندر کے صفحات کا کیا ہوگا؟ تو بس پھر اُس اوپر والے کو ہی پکارنا ہے۔ ویسے تو سچی بات ہے اپنے رب کے بڑے پن کا ڈنکا جس شان سے بجا ہے اُس پرمیں تو بڑی مسرور ہوں۔ ان بڑے ملکوں نے جس طرح ہم تیسری دنیا کے لوگوں کو خانوں میں بانٹا ہوا تھا۔ وہ سب برابر ہوگیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).