2 اپریل: بچّوں کی کتب کا عالمی دن


2 اپریل کو ”بچّوں کی کتب کے عالمی دن“ کے طور پر منایا جاتا ہے، جبکہ اسی مہینے کے دوران ہی اس دن کے 20 دن بعد 23 اپریل کو اقوامِ مُتحدہ کی جانب سے ”کتب اور کاپی رائٹ کا عالمی دن“ منایا جاتا ہے۔ ”کتب اور کاپی رائٹ کا عالمی دن“ 1995 ء سے منایا جاتا ہے، جبکہ ”بچّوں کی کتب کا عالمی دن“ ایک بین الاقوامی غیر سرکاری ادارے ”انٹرنیشنل بورڈ آن بُکس فار یَنگ پیپل“ (آئی بی بی وائی) کی جانب سے منایا جاتا ہے، جس کو بھی اب عالمی سطح پر مقبولیت حاصل ہو چکی ہے، اور دنیا بھر کے بچّوں کے قلمکار، مصنفین، ناشر اور قارئین اس دن کو مناتے ہیں اور بچّوں کے ادب کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔

2 اپریل معروف ڈینش مصنف، شاعر، ناول نگار، ڈرامہ نویس، آپ بیتی نگار، صحافی، سیّاح اور بچّوں کے ادیب، ”ہینز کرسچن اینڈرسن“ کا یومِ پیدائش ہے، جسے اس دن منانے کے لیے چُنا گیا ہے۔ اینڈرسن انّیسویں صدی کے اوائل میں 1805 میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بچّوں کے لیے سب سے پہلے جِن اور پریوں کی کہانیاں لکھیں۔ وہ چودہ سال کی عمر میں حصولِ روزگار کی خاطر کوپن ہیگن پہنچے۔ ابتدا میں ایک ”اوپرا“ میں کام کیا مگر ناکام رہے۔

پھر انہوں نے شاعری اور افسانہ نویسی شروع کی۔ اور پھر 1835 ء سے نونہالوں کے لیے کہانیاں لکھنے لگے، جو بچّوں سے زیادہ بڑوں میں مقبول ہوئیں۔ گو کہ ان کی قلمی توجّہ ڈرامہ نویسی، ناول اور سفرناموں پر رہی، مگر خود ان کی توقّع کے خلاف ان کو زیادہ شہرت ان کی بچّوں کے لیے لکھی گئی دیو مالائی داستانوں کو ملی، جو آج تک ترجمہ ہو کر دنیا کی 125 سے زاید مختلف زبانوں میں کئی ممالک کے نونہالوں کی تفریح کا سامان بنی ہوئی ہیں۔

ان میں سے مقبول ترین قصّوں میں ”شہنشاہ کے نئے کپڑے“، ”چھوٹی سی جل پری“، ”بلبل“، ”لال جوتے“، ”برف کی ملکہ“، ”بدصورت بطخ“، ”تھمبلینا“ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کی کہانیوں کا پہلا مجموعہ 1835 ء میں شایع ہوا۔ ہینز کرسچن اینڈرسن کی بچّوں کے لیے ادبی خدمات کا اس سے بڑا اعتراف اور کیا ہو سکتا ہے، کہ بچّوں کی کتب کے عالمی دن کو ان ہی کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ آج سے تین برس قبل جب اسی دن کی مناسبت سے میں نے اپنے ریڈیو پروگرام میں اردو میں بچّوں کے لیے نمایاں ادبی خدمات انجام دینے والی دو اہم شخصیات رومانہ حسین اور عامرہ عالم کو مدعو کیا تھا، تو اس گفتگو کے دوران عامرہ عالم نے ایک بہت اچھی تجویز دی تھی کہ ہمیں ”ہینز کرسچن اینڈرسن“ سے منسوب دن پر بچّوں کی کتب کا یہ عالمی دن منانے کے ساتھ ساتھ، اپنے مقامی مشاہیر کو بھی اہمیت دینے کی غرض سے، صوفی غلام مصطفیٰ تبّسم کے یومِ پیدائش یکم اکتوبر کو ”قومی یومِ ادبِ اطفال“ یا ”قومی یومِ کتبِ اطفال“ کے طور پر منانا چاہیے، تاکہ پاکستان کے کم و بیش ہر نونہال کے لبوں پر سجنے والے بولوں ”ایک تھا لڑکا ٹوٹ بٹوٹ“ اور ایسی کئی نظموں کے تخلیقکار صوفی تبسم کو مقامی سطح پر یہ خراجِ عقیدت پیش کیا جا سکے۔

کہا جاتا ہے کہ بچّوں کے لیے دنیا کی پہلی کتاب آج سے 374 برس قبل شایع ہوئی، جو 1646 ء میں بوسٹن (انگلستان) سے شایع ہونے والی ”پیوریٹن جان کاٹن“ کی شاعری کی کتاب تھی، جس کا عنوان تھا: ”بوسٹن کے بچّوں کے لیے شیرِ روحانی“۔ اس کتاب کو اس نے سوال و جواب کی صورت میں تحریر کیا تھا۔ یہ کتاب بوسٹن کے ساتھ ساتھ باقی انگلستان میں بھی مقبول ہوئی۔ اس کے کم و بیش آدھی صدی ( 48 برس) بعد شایع ہونے والا ”نیا انگلینڈ پرائمر“ بچّوں کی پہلی شایع شدہ نصابی کتاب کا درجہ رکھتی ہے، جو اپنی اشاعت کے تقریباً 100 سال بعد تک ( 18 ویں صدی کے اواخر تک) انگلستان کے اسکولوں میں پڑھائی گئی۔ مشترکہ ہندوستان میں ”نُور“، ”امنگ“، ”پیامِ تعلیم“، ”بچّوں کی دنیا“، ”گل بوٹے“ اور ”غبارے“ وغیرہ بچّوں کی ابتدائی اردو کتب کے طور پر شایع ہوئیں۔

بچّوں کے لیے کتاب تصنیف کرنا، عام کتاب لکھنے سے ایک یکسر مختلف اور مشکل کام ہے۔ عمومی طور پر ”تخلیق“ کسی منصوبہ بندی کی محتاج نہیں ہوتی اور شاعری یا فکشن لکھنے والے، اپنی ”آمد“ کی مناسبت سے چیزیں تحریر کرتے رہتے ہیں اور پھر بہت ساری تخلیقات کی تکمیل کے بعد ان کو یکجا کر کے کتاب کی شکل دی جاتی ہے۔ گو کہ ”نان فکشن“ لکھنے والے بھی بہت سارے قلمکاروں کی کتابیں اسی انداز میں ترتیب و تخلیق کے مراحل سے گزرتی ہیں، مگر ایسے تمام لکھنے والوں کے ساتھ ساتھ ”نظریہ ضرورت“ کے تحت لکھنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد ہے، جن کو قارئین کے مخصوص حلقوں کی ضروریات کو ذہن میں رکھ کر لکھنے کا فن آتا ہے اور وہ اپنے پڑھنے والے کی ذہنی سطح کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے نگارشات تحریر کرتے ہیں۔

بچّوں کے لیے لکھنا ان تمام تر طریقہ ہائے تحریر سے یکسر مختلف اور پیچیدہ عمل ہے، جس کے لیے قملکار کی مکمّل طور پر شعوری کوشش درکار ہوتی ہے۔ نونہالوں کے لیے آپ نثر میں لکھیں، خواہ نظم میں، آپ کو نہ صرف مخصوص عمر کے قاری کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے لکھنا پڑتا ہے، بلکہ اس کی زبان (ڈکشن) سے لے کر اندازِ پیشکش، طوالت، تفہیم اور بیان کے حوالے سے ہر چیز کو سہل رکھنا پڑتا ہے، تاکہ ابلاغ آسان ترین ہو۔ جب ہم ”بچوں کے لیے لکھنے“ کی بات کرتے ہیں، تو یہ بذات خود ایک وضاحت طلب امر ہے کہ ”کس عمر کے بچّوں“ کے لیے لکھا جا رہا ہے، کیوں کہ بظاہر تو ”بچّہ“ ایک ہی اصطلاح ہے، مگر چونکہ بچپن عُمر کا ایک ایسا حصہ ہے، جس کے ہر برس کے دوران اس کی ذہنی خواہ جسمانی نشوونما ہو رہی ہوتی ہے، لہٰذا آپ جو نظم یا کہانی ایک 3 برس کے بچّے کے لیے تحریر کر رہے ہیں، وہ نظم یا نثری تحریر ایک 15 سال کے بچّے کے لیے ہرگز تفریح کا باعث نہیں بن سکتی، کیوں کہ تب تک اس کی ذہنی تشکیل کا مرحلہ کافی آگے بڑھ چکا ہوتا ہے۔

یہ ایسے ہی ہے، جیسے کھلونے اور کپڑے ہر بچّے کی عمر کے لیے الگ الگ ہوتے ہیں، اور دکان پر جاتے ہی آپ سے دکاندار پوچھتا ہے کہ ”کس عمر کے بچّے کے لیے کھلونہ یا کپڑے چاہییں! “ اسی طرح بچّوں کے ادیب کو یہ ضرور ذہن نشین کرنا پڑتا ہے کہ وہ کس سطح کے نونہال کے لیے قلم اٹھا رہا ہے۔ اسی کی ذہنی ضروریات کو نصب العین کر کے ہی بچّوں کا کامیاب ادب تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح اردو کی پہلی کتاب، پانچویں جماعت والے بچّے کو نہیں پڑھائی جا سکتی، اسی طرح ایک ”نرسری رائم“ 10 سال کے بچّے کے لیے نہیں ہو سکتی۔ گویا ایک بچّوں کے ادیب کا نونہالوں کے حوالے سے ایک اچھا ”نفسیاتی ماہر“ ہونا ضروری ہے۔

ذہنی نشوونما کے لحاظ سے بچّوں کی عمر کو پانچ حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ولادت سے لے کر جسمانی بلُوغت (اوسطاً 18 سال) سے پہلے پہلے تک بچّوں کے ان شعوری ارتقا کے مراحل میں ( 1 ) 1 تا 3 سال ( 2 ) 3 تا 5 سال ( 3 ) 5 تا 10 سال ( 4 ) 10 تا 12 سال ( 5 ) 12 تا 18 سال کی عمروں کی درجہ بندی شامل ہے اور ایک بچّوں کے قلمکار کے لیے قلم اٹھانے سے پہلے یہ ضروری ہے، کہ وہ یہ جان لے کہ وہ کس عمر کے بچّے کے لیے قلم اٹھا رہا ہے، تاکہ وہ زبان کی آسانی اور پیشکش کا انداز اس کے فہم کے مطابق رکھ سکے۔

بچّوں کے لیے لکھنے کے حوالے سے جتنا اہم کام ”تحریر“ ہے، اتنا ہی اہم کام ان تحریروں کی مناسبت سے خاکوں کی تخلیق (السٹریشن) ہوتا ہے۔ کیوں کہ بچّے کی تفریح خواہ تفہیم کے لیے خالی تحریر کارگر نہیں ہوتی، جب تک ایک خاکا، تصویر، السٹریشن یا فوٹوگراف اس تحریر کو واضح نہ کرے۔ لہٰذا بچّوں کی کتب تخلیق کرنے کے حوالے سے جتنا اہم اور مشکل کام ایک قلمکار کا ہے، اتنا ہی مشکل کام ایک آرٹسٹ اور السٹریٹر کا بھی ہوتا ہے۔

اگر کوئی خوشقسمت بیک وقت یہ دونوں کام جانتا ہے، تو پھر یہ ”سونے پہ سہاگہ“ والی بات ہو جاتی ہے، اور اسے کسی اور کو یہ سمجھانا نہیں پڑتا، کہ میرے کن الفاظ کا مطلب کیا ہے اور کن الفاظ کی کس طرح تصویری عکّاسی کرنی ہے۔ یہ یاد رہے کہ ”بچوں سے متعلق ادب“ ضروری نہیں ہے کہ ”بچّوں کے لیے تخلیق شدہ ادب“ بھی ہو۔ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے، جو ہمارے ملک میں کافی سارے قلمکاروں کو لاحق ہے۔

پاکستان میں اردو میں تو کسی حد تک بچّوں کے لیے ادب تخلیق ہو رہا ہے، مگر اس کی مقدار اتنی نہیں ہے، جتنی ہونی چاہیے۔ ”نونہال“ اور ”پھول“ میگزین جیسے بچّوں کے رسالے مسلسل ماہوار شایع ہو کر بچّوں کے ذہنوں کی آبیاری تو کر رہے ہیں، مگر جتنی محنت اور درجنوں نجی ادارے بچّوں کی نصابی کتابیں شایع کرنے پر کر رہے ہیں، کاش وہی ادارے بچّوں کے لیے نثر اور نظم کی ”ہم نصابی کتب“ شایع کرنے میں بھی اتنی ہی دلچسپی دکھائیں۔

پاکستان کی دیگر زبانوں (بالخصوص مختلف صوبوں کی قومی زبانوں ) میں تخلیق ہونے والے بچّوں کے ادب کی حالت تو اور بھی زیادہ ابتر ہے۔ وہاں ایسے ادارے ہی نہیں ہیں، جو قلمکاروں سے نونہالوں کے لیے لکھوائیں اور ان کو مختلف پراجیکٹس اور اسائنمنٹس دے کر مختلف عمر کے بچّوں کے لیے کام کروائیں۔ اس ضمن میں کچھ قلمکار اپنی مدد آپ کے تحت سال بھر میں کچھ کتب لکھ کر خود ہی شایع کروا لیتے ہیں، مگر ظاہر ہے کہ محدود مالی وسائل کی وجہ سے ان میں تصاویر یا تو ہوتی نہیں، اگر ہوتی بھی ہیں تو رنگین نہیں ہوتیں، کیوں کہ رنگین طباعت اپنی جگہ پر ایک اور ”خرچے والا“ کام ہے، جس کو محدود پیمانے کی اشاعت میں ہر کسی کے لیے کرنا ممکن نہیں۔

اور بچّہ جتنا رنگین تصویروں اور طباعت سے لطف اندوز ہوکر اس کی طرف متوجّہ ہوتا ہے، اتنا بے رنگ خاکوں (سکیچز) کی جانب مائل نہیں ہوتا، اس ضمن میں میں کی سرکاری ادبی اداروں کو متعدد بار یہ سفارش پیش کر چکا ہوں، کہ وہ اپنے وہاں ”بچّوں کے ادب کا سیل“ قائم کر کے اس کی جانب سے نہ صرف بچّوں کے ادیبوں کو متفرق پراجیکٹس دے کر ان سے نثر و نظم کے ساتھ ساتھ سائنس کے موضوعات پر کتب تحریر کروائیں، بلکہ اس سیل کی جانب سے بچّوں کی کارٹون سیریز کے ذریعے نہ صرف مقامی ہیروز کو متعارف کرایا جائے، بلکہ چھوٹی چھوٹی کہانیوں کے ذریعے انہیں اخلاقی سبق بھی سکھائے جانے کا اہتمام کیا جائے۔

ایسی ویڈیوز ان اداروں کی ویب سائٹس، یوٹیُوب چینلز اور موبائل فون اپلیکیشنز کے ذریعے بچّوں تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ ٹی وی چنیلز کو نشر کرنے کے لیے بھی دی جا سکتی ہیں۔ کیا ”اکادمی ادبیاتِ پاکستان“ اور ”مقتدرہ قومی زبان“ جیسے ادارے بھی ”نیشنل بک فاؤنڈیشن“ کی طرح اپنی خدمات کا ایک مخصوص حصّہ بچّوں کے ادب کے فروغ کے لیے مُختص نہیں کر سکتے؟

ساتھ ساتھ والدین سے بھی یہ گزارش ہے کہ اپنے بچّوں کو بچپن ہی سے کتاب سے دوستی سکھائیے۔ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ کتاب پڑھنا صرف اُس کے لیے ضروری ہے، جس کا علم و ادب سے براہِ راست تعلق ہو، بلکہ ہر انسان، جو اپنے قلب و ذہن کو روشن کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے کتاب سے دوستی بیحد اہم ہے، چاہے اس کا کسی بھی شعبہء زندگی سے تعلق ہو۔ آپ بھی آج ہی سے اپنے بچوں کی کتاب سے دوستی کروائیے۔ یہ تمام عُمر ان کے کام آئے گی، اور انہیں ایک اچھا انسان بنائے گی۔

مگر ہاں! اسے پہلے اگر آپ کی بھی ابھی تک کتاب سے دوستی نہیں ہے، تو پہلے آپ کتاب سے دوستی کر لیجیے۔ یقین جانیے! آپ یہ دوستی کر کے کبھی نہیں پچھتائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments