بڑھاپے کی ورچوئل محبت، وبا اور موت کا دکھ


ایک پیلا پھول تھا جس کے گرد کئی سارے کاسنی ننھے ننھے پھول تھے اور ان کے بیچوں بیچ ’صبح بخیر‘ کا پیغام تھا۔ دل میں تازگی کی لہر دوڑ گئی تو ارجمند بیگم بستر پر ہی پڑی مسکرا اٹھیں۔ آج کل ایسی حسین صبحیں ان کا سواگت کیا کرتیں کہ ان کا جی چاہتا وہ ننگے پاؤں پھولوں سے سجی دھرتی پہ دوڑتی چلی جائیں۔ ایک لا ابالی لڑکی کی طرح ناچتی گاتی پھریں۔ ہواؤں کو اپنے من کے گیت سنائیں۔ انھوں نے جواب میں حسب معمول شکریہ کے پیغام کے ساتھ ’بہت محبت‘ لکھا اسی پھول کی تصویر کے نیچے پیغام کی اس جگہ پر جہاں وہ اپنے دل کی ہر بات لکھ سکتی تھیں۔ ایک خوشبو کی طرح وہ پیغام دوسری طرف جا پہنچا اور دو دل محبت کی حرارت سے دھڑکنے لگے۔ زندگی کو ایک نیا رنگ مل گیا تھا۔ یہ زندگی جو اب تھک ہار کر مستقلاً بستر پر آ بیٹھی تھی ایک بار پھر توا نا ہونے لگی تھی۔

دو سال سے ریٹائرڈ زندگی گزارتی چونسٹھ سالہ استانی گویا دنیا سے کٹ گئی تھیں۔ کہاں ہر طرف بچوں کا ہجوم۔ شور اور ہنگامے سے بھری پری سکول کی دنیا اور کہاں یہ ریٹائرمنٹ کی تنہائی۔ کسی عذاب سے کم نہ تھی۔ ارجمند بیگم نے ریٹائر منٹ کے یہ دو برس انتہائی اذیت میں گزارے۔ وہ ہایئپر سینسٹو تھی مگر ایسا تو نہیں تھا کہ کام کرنے کے قابل نہ تھی۔ شوگر کے مرض کے باوجود ان کی چہرے پہ حسن اور کشش اب بھی قائم تھی۔ گھر کی قید تنہائی میں ارجمند بیگم مرجھاتی جا رہی تھیں۔

بیٹے اپنی اپنی فیملی کے ساتھ دوسرے شہروں میں آباد تھے۔ کسی نہ کسی چھٹی یا تہوار پہ ہی اس کی خبر لینے کے بہانے فیملی گیدرنگ ہو جایا کرتی۔ اس عمر میں اپنا شہر چھوڑنے کا حوصلہ نہ تھا اور بیٹی کے ساتھ رہنا ان کی مجبوری بھی یوں بھی بن گیا تھا کہ بیٹی کا شوہر بیرون ملک آباد تھا اور وہ بینک کی لمبی نوکری کی پابند۔ اس بار اکٹھے ہوئے تو ان کی افسردگی کا خیال کرتے ہوئے سب نے انھیں کہا کہ وہ اپنا وقت سوشل میڈیا پہ لوگوں سے گپ شپ کر کے بھی گزار سکتی ہیں۔

وہ جدید ٹکنالوجی سے بے بہرہ عمر گزارے بیٹھی تھی اور موبایئلوں کو کچھ ایسا خاص پسند بھی نہ کرتی تھی، اس کے لئے یہ مشورہ کچھ ایسا خوشگوار نہ تھا۔ مگر بچھڑے ساتھیوں سے کبھی کبھی ویڈویو چیٹ کر لینے کا خیال خوش کن تھا لہٰذا انھیں سمارٹ فون کا سارا استعمال سمجھا دیا گیا جو انھوں نے ایک ایسے طالبعلم کی طرح سیکھا جس نے بس پاسنگ مارکس لینے جتنا ہی سیکھنا ہوتا ہے۔ دھیرے دھیرے ان کے فیس بک پہ نئے دوست بننے لگے۔ انھیں فیس بک پہ پڑھنے کو اچھی تحریریں بھی مل جایا کرتیں۔ اب ان کا وقت بے حد اچھا گزرنے لگا۔ ایسے ہی ایک گروپ میں انتہائی دلدوز تحریریں لکھنے والے وقار احمد کی ہر بات سے وہ متفق ہو جاتیں اور ستائشی کمنٹ بھی کر دیتیں۔

’ آپ آج کل کہیں مصروف ہیں؟ امید ہے میرا پوچھنا آپ کو برا نہیں لگا ہو گا‘ ۔ جب کئی روز ارجمند بیگم نے و قار احمد کی تحریروں پہ کمنٹ نہ کیا تو آخر وہ ان باکس چلے آئے۔ اور یوں ارجمند بیگم کو انھیں اپنی طبیعت کی ناسازی کی تفصیل بتانا پڑی۔ ایک دو روز خبر گیری کی گفتگو میں کٹے تو ارجمند بیگم کو اس طرح سے خبر گیری بھلی لگنے لگی۔ جواباً وہ بھی ان باکس حال احوال پوچھنے کا میسیج ڈالنے لگیں۔ انھیں پتہ چلتا کہ اٹلی میں رہنے کے باوجود وقار احمد انتہائی دین دار آدمی تھے۔

بیوی کی موت کے بعد اپنے آسودہ حال بیٹے اور بہو کے ساتھ رہتے تھے۔ صبح کی واک، صحت بخش خوراک اور لکھنا لکھانا ان کے معمولات تھے۔ ارجمند بیگم کو صحت کا خیال رکھنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ دعاؤں کے تحفے اور پھر ہم احساسی کا اظہار بڑے خلوص سے کر دیا کرتے۔ یہ سب وہ باتیں تھیں جو جوانی میں ہی بیوہ ہو جانے والی اور عمر بھر ایک معلمہ کی مشقت کرکے خود اپنے بچوں کو پڑھانے لکھانے اور بیاہ دینے والی ارجمند بیگم کے دل میں گھر کرتی گیئں۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے ساتھ بات کرنے کا وقت تھا وقار احمد کے پاس۔ یہ باتیں رشتے کی گرہ، گناہ و ثواب کے بوجھ اور کسی بھی ذاتی مفاد و غرض کے طمع سے آزاد تھیں۔ وقار احمد کو بھی بہتر سال کی عمر میں ایک بار پھر وہ ذمہ داری محسوس ہونے لگی جو ایک مرد کی فطرت میں گندھی ہوتی ہے اور جو اسے جینے کا جواز دیا کرتی ہے۔ عورت کا خیال رکھنا، اسے سرد گرم سے محفوط رکھنے کی فکر اور پھر اسی سے شرارت اور دل لگی۔ عمر بھر کی باتیں تھیں، ایک دوسرے کو بتانے کو اتنا کچھ تھا کہ وقت کا پتہ ہی نہ چلا کہ ایک سال کی اتنی کم مدت میں بنا یہ ساتھ دونوں کے لئے کس قدر اہم ہو گیا تھا۔

وہ دونوں گویا ایک نئی دنیا بسا چکے تھے۔ یہ دنیا عام دنیا جیسی نہ تھی جہاں انسانی جسم پھرا کرتے تھے۔ ملاقات سے تعلقات پروان چڑھا کرتے تھے۔ چھونے سے محبت کی تکمیل ہوا کرتی تھی۔ یہ تو ایک ورچوئل دنیا تھی۔ جہاں وہ دونوں اپنے اپنے الگوردھم کی اساس پہ موجود تھے۔ دکھنے والے چہرے اصل تھے مگر ان کی قربت کا کوئی سوال نہ تھا۔ یہاں بس احساس تھا۔ محبت تھی۔ احساس کی قربت ان دو دلوں کو بہت تھی۔ وہ اس تعلق سے منکر نہ تھے۔ اور ان کے ارد گرد کی مادی دنیا میں اس کے وجود کی گنجائش تھی نہ ہی ضرورت۔

وقار احمد کے گھر کے باہر اطالوی طرز کی فرشی گلیاں، مکانوں کی کھڑکیوں سے لٹکتی بیلیں، بالکونیوں میں جھومتے رنگا رنگ پھول پہلے سے کہیں زیادہ خوشنما دکھنے لگے تھے۔ وہ ان حسین گلیوں کی تصویریں ارجمند بیگم کو بھیج کر گویا انھیں اپنی اس دنیا میں شامل کرتے۔ کئی بار وقار احمد خواب بنتے کہ ایسے رنگین پھول ارجمند بیگم کی زلفوں میں سجا کر انھیں محبت کے گیت سنائیں۔ وہ یہ گیت وائس نوٹ میں گاتے تو ارجمند بیگم کو اپنی جوانی کے اچھے زمانے یاد آنے لگتے تو کبھی مکیش کے درد بھرے گیت دونوں کی تنہایؤں کی آواز بن جاتے۔ دونوں اشکبار ہوتے تو اس عمر میں ساتھی کی ضرورت انھیں زندگی کے ہر فلسفے سے بڑھ کر لگتی۔ یہ بے نام تعلق کسی قربت، کسی وعدے، کسی ملن کا محتاج نہ تھا۔ پھر یوں ہوا کہ اچانک دھرتی نے بھی ایک گہری آہ بھری۔

ہر طرف سے خبریں آنے لگیں کہ دنیا میں کرونا وائرس نے تباہی مچا رکھی ہے۔ چین اس کی لپیٹ میں آیا تو سوشل میڈیا ہر روز کی صورتحال سے آگاہی کا ذریعہ بن گیا۔ ’ارجمند بیگم۔ جینے کو دل چاہتا ہے۔ کاش کہ آپ کا اور میرا ساتھ یونہی بنا رہے۔ ‘ ۔ ’آپ اپنا بہت خیال رکھیئے۔ ہماری عمر کے لوگ اس کا شکار ہو رہے ہیں‘ ۔ وہ کہتیں۔ ’آپ کیا سمجھتی ہیں میں بڈھا ہو گیا ہوں۔ ارے، بہت فٹ ہوں میں۔ آپ پریشان نہ ہوا کریں۔ لیجیے، آپ کے لئے ایک گیت پیش ہے‘ ۔ اور پھر وائس نوٹ کے ذریعے ان کی نرم اور احساسات سے بھرپور آواز میں ایک گیت کے چند بول ارجمند بیگم کے کانوں میں گونج اٹھے۔ ’یہ میرا دیوانہ پن ہے یا محبت کا سرور۔ ‘

COVID۔ 19 کے نام سے پھیلنے والا یہ مرض بھی عجیب تھا۔ چین سے یہ وائرس اب باہر نکل کر یورپ کے دیگر ملکوں کا بھی رخ کر رہا تھا۔ ہاتھ کے ذریعے پھیلنے والا یہ سینے کا مرض کسی کو حقیقت لگا تو کسی کو فسانہ۔ کسی نے اس کو محض چین کی ہی تکلیف سمجھا تو کسی نے یہ خبر اڑائی کہ یہ وائرس پوری دنیا میں پھیل کر سب سے زیادہ عمر رسیدہ اور جسمانی طور پر کمزور لوگوں کو متاثر کرے گا۔ ارجمند بیگم کو وقار ا حمد صاحب کی فکر لاحق ہو گئی۔

اٹلی کے لوگوں کا خیال تھا کہ ان کا ماحول ایسے کسی بھی وائرس کو پنپنے کا ماحول فراہم نہیں کرتا۔ حالات روز بروز سنجیدہ تر ہوتے چلے جا رہے تھے۔ اٹلی میں اچانک اس وائرس کا شدید ترین حملہ ہوا۔ خوش فہمیوں کے زعم ٹوٹ گئے۔ تمام گھر کوارنٹین سینٹرز بن گئے۔ انسان کی انسان سے دوری سلامتی کی ضامن ہو گئی۔ موت کی دیوی اٹلی کی ہر گلی، ہر گھر میں اتر آئی۔ بھری بہار میں پھول اپنی بد نصیبی پہ مرجھا گئے کہ کسی جنازے کی زینت بھی نہ بن پائے۔ آج ایک اور نغمہ ان باکس میں گونجا تو ارجمند بیگم کا دل دہل گیا۔

’ محل اداس اور گلیاں سونی۔ چپ چپ ہیں دیواریں

دل کیا اجڑا دنیا اجڑی۔ روٹھ گئی ہیں بہاریں

ہم جیون کیسے گزاریں۔ ’

دس ہزار اموات۔ ہر طرف لاشوں کے ڈھیر اور پچھلے پانچ دن سے وقار احمد کی مسلسل بخار کی کیفیت۔ ہاسپٹل جانے سے پہلے ایک وائس میسیج چھوڑا ارجمند بیگم کے لئے۔ ’آپ کبھی میرے خلوص پہ شک نہ کیجئے گا۔ آپ کے دل کی خواہش جو آپ کبھی بیان نہ کر سکیں، میں ہمیشہ سمجھتا رہا۔ آپ نے جس لمحے میرے اور اپنے ساتھ کا سوچا، میری روح سے آواز آئی تھی کہ مجھے بس آپ کے دکھوں کا مداوا کرنا ہے۔ میں آپ کو مختصر رفاقت کے بعد دوبارہ بیوگی کا درد کبھی نہیں دے سکتا۔ آپ خوش رہئے گا۔ ہمیشہ۔ ‘

وقار احمد کو آئسولیشن میں رکھا گیا۔ ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر نے ارجمند بیگم کا فون اٹینڈ کر کے ساری صورتحال بتائی اور ان کو ونٹیلیٹر پہ شفٹ کرنے کی خبر بھی دی۔ ارجمند بیگم دل تھام کے رہ گیئں۔ دو دن بعد اسی فیس بک پہ دوستوں نے وقار احمد کو ٹیگ کر کے ان سے جدائی کا دکھ بیان کیا۔ گروپ میں لوگوں نے ان کی باتیں دہرائیں۔ ان کے الفاظ بار بار لکھے گئے۔ فیس بک کی دنیا میں کسی کو خبر بھی نہ ہوئی کہ ایک یوزر کا کمنٹ نہیں آیا۔ ورچوئل دنیا میں کسی کی غیر موجودگی کا احساس کم ہی ہوا کرتا ہے۔ یہ دنیا عام دنیا جیسی نہ تھی۔ یہاں تعلق جسم کا تو تھا نہیں کہ جسم کی موت کے ساتھ مر جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments