کورونا وائرس: تو کیا میں نے غلط کہا تھا؟


ایک مکمل تحقیق اور ریسرچ کے بعد میرا کالم بارش کا پہلا قطرہ بنا تھا جس میں پہلی بار اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ کورونا وائرس ایشیائی اور افریقی ممالک میں وہ تباہی نہیں مچا سکے گا جو اس نے مغربی ممالک اور خصوصًا یورپ میں مچا دی ہے۔ (یہ کالم ”ھم سب“ کے علاوہ اخبارات اور مختلف ویب سائٹس نے بھی شائع کیا )

میرے استدلال کی بنیاد ان ممالک میں ملیریا اور فلو جیسی بیماریوں کا عام ہونا اور اس کے مقابلے میں یہاں کے لوگوں کا فطری طور پر مضبوط قوت مدافعت (immunity system) کا پروان چڑھنا ہے، جو کورونا وائرس پر حاوی دکھائی دے گا۔ چونکہ اس کالم میں پہلی بار ایک نئی لیکن اُمید افزاء تحقیق اور نقطئہ نظر کی طرف توجہ دلائی گئی تھی۔ اس لئے اس تحریر کو جہاں مبالغہ آمیز پذیرائی اور پسندیدگی ملی وھاں بعض لوگوں نے مجھے پاگل اور جاہل کے القابات اور خطابات بھی بخش دیے۔

ظاھر ہے یہ رائے مخالف سمت میں تیرنے کے مصداق تھی لیکن میرے سورس اعلٰی درجے کے طبی ماہرین خصوصًا ایک اہم مائیکرو بیالوجسٹ ہی تھی، اس لئے اس ”بھونچال“ میں بھی میں اپنی بات پر قائم رہا اور سوشل میڈیا اور دوسرے فورمز پر اپنے دلائل کے ساتھ لڑتا رہا۔

اب آتے ہیں کورونا وائرس کے حوالے سے موجودہ صورتحال کی طرف!

امریکہ اور پاکستان میں ایک ہی دن پہلے کورونا وائرس کے مریض کی نشاندہی ہوئی تھی لیکن آج (یکم اپریل) کو امریکہ میں کنفرم مریضوں کی تعداد ایک لاکھ نوے ہزار تک پہنچ چکی ہے جبکہ اموات چارہزار سے اُوپر جا چکی  ہیں۔اس کے برعکس پاکستان میں کُل مریضوں کی تعداد دو ہزار جبکہ ابھی تک اموات صرف اٹھائیس ہوئے ہیں حالانکہ بعض اموات کی میڈیکل ہسٹری کچھ اور بتا رہی ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں امریکہ میں نو سو افراد کورونا وائرس سے چل بسے جبکہ پاکستان میں صرف ایک کیس (موت) ریکارڈ ہوا۔

اگر ہم باقی مغربی دنیا پر نگاہ ڈالیں تو وھاں کے اعداد و شمار انتہائی خوفناک اور دل دھلادینے والے ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مطابق یکم اپریل تک اٹلی میں ایک لاکھ پانچ ہزار سات سو بیانوے کنفرم کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ اموات ساڑھے بارہ ہزار تک پہنچ چکے ہیں۔

سپین میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد پچانوے ہزار نوسو تئیس جبکہ آٹھ ہزار چار سو چونسٹھ اموات ابھی تک ریکارڈ ہوئی ہیں۔

جرمنی بہتر ہزار مریضوں اور سات سو پچھتر اموات جبکہ فرانس تریپن ہزار مریضوں اور ساڑھے تین ہزار سے زائد لاشوں کے ساتھ لھولھان ہے۔

جبکہ اس کے برعکس ایشیائی اور افریقی ممالک میں صورتحال بہت بہتر ہے۔ پاکستان کا ذکر تو میں پہلے ہی کر چکا اس لئے دوسرے متعلقہ ممالک کی ڈیٹا پر ایک نظر ڈال لیتے ہیں۔ مثلاً ایک ارب تیس کروڑ آبادی والے ہندوستان (جہاں بے تحاشا غربت ہے اور صحت کی سہولیات بھی مفقود ہیں) میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد تین ہزار سے کم جبکہ کُل اموات پچاس کے قریب ہیں جبکہ ڈیڑھ سو مریض صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔

سعودی عرب میں ابھی تک پندرہ سو تریسٹھ کورونا وائرس کے مریضوں کی تشخیص ہوئی ہے جبکہ کُل اموات کی تعداد صرف دس ہے جبکہ ایک سو پینسٹھ مریض مکمل طور پر صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔

بنگلہ دیش میں ساٹھ مریض جبکہ پانچ اموات ہوئی ہیں ان میں پندرہ لوگ صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔

متحدہ عرب امارات میں چھ سو چونسٹھ کورونا مریضوں کی نشاندہی ہوئی جن میں چھ اموات ہوئیں جبکہ اکسٹھ مریض مکمل طور پر صحت یاب ہو چکے ہیں۔

اس طرح افغانستان میں یکم اپریل تک دو سو مریض اور چار اموات جبکہ پانچ مریض صحت یاب بھی ہو چکے ہیں حالانکہ افغانستان میں صحت کی سہولیات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔

محترم قارئین!

یہ ہے موجودہ ڈیٹا کا تقابل اور وہ واضح فرق جس کی نشاندہی سب سے پہلے ایک تھکا دینے والی تحقیق کے بعد میں نے مارچ کے مہینے میں آپ کے سامنے رکھی تھی۔

(بعد میں کئی ٹاک شوز اور کالم نگاروں نے بھی اسی موضوع کو آگے بڑھایا) ۔

لیکن اس سب کچھ کے باوجود بھی احتیاط کا دامن ہر گز نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ بدلتے ہوئے موسم میں خدانخواستہ یہ اجنبی وائرس کہیں پلٹ کر شدت کے ساتھ حملہ نہ کر دے۔

ایک بات اور!

پچھلے کالم ( کیا کورونا وائرس پاکستان میں زیادہ تباہ کن نہیں؟) کے حوالے سے بعض قارئین نے سوال اُٹھایا تھا کہ اگر ایشیائی اور افریقی ممالک، مغربی ملکوں کی نسبت قدرے محفوظ ہیں تو پھر ایران میں تباہی کیوں پھیلی؟

یہ سوال بہت اہم ہے اور مجھے اعتراف ہے کہ میں نے تب اس حوالے سے وضاحت نہیں کی تھی لیکن خیر دیر آید درست آید کے مصداق اب ہی بتاتا چلوں کہ ایران گو کہ جغرافیائی حوالے سے ہمارا پڑوسی ملک ہے لیکن ایران کا موسم ٹمریچر ماحول اور وھاں کے لوگوں کا رہن سہن بودوباش اور خوراک یعنی سب کچھ ہم سے یکسر مختلف اور یورپی ملکوں کے قریب تر ہے جس کی وجہ سے ان کا جسمانی ساخت اورفطری قوت مدافعت مغربی ملکوں سے ملتا جلتا ہے اور ظاھر ہے اس تمام پس منظر کی وجہ سے کورونا وائرس کا اثر بھی مغربی ممالک جیسا ہی رہا۔

جاتے جاتے ابن خلدوں کی بات یاد آئی اگر ذرا گہرائی کے ساتھ سوچ لیں تو اسی موضوع (قوت مدافعت یا جینیاتی ساخت) سے متعلق بھی ہے اور اس موضوع کو سپورٹ کرتے ہوئے بھی۔

ابن خلدون نے لکھا ہے کہ تُرک قوم گھوڑے کا گوشت کھاتی ہے اس لئے ان میں سرکشی اور مستی بہت ہے۔ افریقی ممالک میں بندر کے گوشت کا استعمال ہے اس لئے ان کی زندگی پر بے حیائی غالب ہے جبکہ عرب اونٹ کا گوشت کھاتے ہیں سو ان میں کینہ اور انتقام کا جذبہ بہت ہے۔

گویا بات وہی ہے یعنی خوراک اور آب و ہوا سے ایک خطے کے لوگوں کا مزاج اور جسمانی ساخت متعین ہوتے ہیں جس میں قوت مدافعت اہم ترین جز ہے! اور یہی تو میں کہہ رہا ہوں۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments