کورونا نے گلوبل ویلج کو گلوبل ہوم میں بدل ڈالا ‎


دنیا کی معیشت، معاشرت اور سیاسی حالات پر کرونا وائرس کا اثر اتنا گہرا اور ہمہ گیر ہے کہ اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا کیونکہ کسی بھی آفت سے پہنچنے والے نقصان کا اندازہ اسی وقت لگایا جا سکتا ہے جب وہ ختم ہو چکی ہو جبکہ کرونا وائرس کے خاتمے کا ابھی دور دور تک کوئی حتمی اندازہ سامنے نہیں آیا، کچھ کے نزدیک چھ ماہ سے ایک سال اور کچھ کے نزدیک تین سال سے پانچ سال کے بعد دنیا سے کرونا وائرس ختم ہو پائے گا۔

اس وقت دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک قائم حکومتیں جس معیشت کے اوپر سیاست کر کے قائم ہوئیں تھیں اس معیشت کا بھرکس نکلنے سے وہ شکل ہی تبدیل ہو گئی جس کے اوپر حکومتیں بیٹھیں تھیں، کسی کے پاس اتنے بڑے پیمانے پر آئی آفت سے نمٹنے کا کوئی ہنگامی پلان نہیں تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ ایک کے بعد دوسرے ملک کا نظام صحت جواب دینے پر آتا گیا اور اب حالت یہ ہے کہ سپر پاور کا صدر اپنی جان بچانے کے لئے امریکی کمپنی جنرل موٹرز پر سرعام ذمہ داری ڈال رہا ہے کہ اس نے چالیس ہزار وینٹی لیٹرز فراہم کرنے کا وعدہ کرنے کے بعد صرف چھ ہزار فراہم کئے ہیں ۔ کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ چین سے مقابلہ کرنے والا ڈونلڈ ٹرمپ، جو ہر وقت امریکی کمپنیوں اور مصنوعات کی تعریف میں زمین آسمان ملاتا تھا اس طرح سے جنرل موٹرز کی ٹوئٹر پر بے عزتی کرے گا۔ وجہ اس کا خوف ہے کہ امریکی عوام کا غصہ آئندہ الیکشن پر اثرانداز ہو کر اسے بڑے مارجن سے شکست سے دو چار کر دے گا اور تاریخ کا کوئی بھی طالب علم اس وقت آسانی سے بتا سکتا ہے کہ ایک لاکھ تو دور، چالیس ہزار ہلاکتیں بھی ٹرمپ کا صفایا پھیر دیں گی اور لگ بھی یہی رہا ہے کہ جارج بش سینئر کے بعد ٹرمپ گزشتہ چالیس برس میں وہ پہلا امریکی صدر ہو گا جو شاید دوسری مدت کے لئے منتخب نہ ہو پائے گا۔

کرونا وائرس سے نمٹنے کے لئے سنگاپور اور چین نے ایپ کا سہارا لیا ہے اور اس نے بہت کامیابی سے کرونا کو کنٹرول کرنے میں حکومت کی مدد کی جس کے بعد اب جرمنی کی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ وہ سنگاپور کی مثال کو نقل کرتے ہوئے چار سے چھ ہفتوں میں ویسا ایپ تیار کرنے سر توڑ اور شدید کوشش کر رہے ہیں۔ آپ اندازہ کریں، جرمنی، سنگاپور سے نہ صرف پیچھے ہے بلکہ اس کی تقلید کا اعلان کر رہا ہے۔

اس ایپ پر یہ بحث بھی شروع ہو چکی ہے کہ اس ایپ سے انسانی آزادیوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ دوسری طرف جاپان میں معاملہ اور بھی دلچسپ ہے ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد بننے والے جاپانی آئین میں اس طرح کی کوئی اجازت سرے سے موجود ہی نہیں کہ حکومت، نقل وحرکت سے متعلق انسانی آزادی کو روک یا کنٹرول کر پائے۔ کوئی ایسا قانون بھی موجود نہیں، یعنی ان کے پاس اپنی مشہور زمانہ دفعہ 144 نہیں۔

چار دن قبل نیویارک ٹائمز، جاپانی قوم کو رشک سے دیکھ رہا تھا کہ انہوں نے اس وائرس کے پھیلاؤ کو بہت کامیابی سے روکا، اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے اخبار نے لکھا کہ چونکہ جاپانی قوم کا آدھا حصہ پہلے ہی سے ماسک پہن کر باہر آتا ہے، اور ان کے کلچر میں بجائے ہاتھ ملانے کے دور سے احترام میں جھکنا ہی پریکٹس ہے، صفائی کے معاملے میں بھی وہ اتنا چوکس رہتے ہیں کہ بچوں کی سکول میں ابتدائی سالوں کی تعلیم ہی ماحول اور خود کی صفائی شامل ہے اس لئے وہاں زندگی معمول پر چل رہی ہے مگر آج وہاں بھی مریضوں کی تعداد ڈرامائی طور پر بڑھی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جاپان میں لاک ڈاؤن کرنے کا کوئی طریقہ ہی نہیں، ان کے نظام میں انتظامی طور پر گورنر اپنے صوبے میں لوگوں سے صرف درخواست کر سکتا ہے کہ وہ گھروں سے نہ نکلیں، مگر لوگوں کے نہ ماننے کو صورت میں پولیس انہیں گرفتار نہیں کر سکتی، ظاہر ہے اس کے حل پر بحث جاری ہے اور ضرورت ایجاد کی ماں ہمیشہ سے رہی ہے۔

یورپ میں ہنگری کی پارلیمان نے ایمرجنسی کے نام پر حکومت کو بے پناہ طاقت دے دی ہے کہ وہ جھوٹی خبر پھیلانے کے جرم میں ذمہ دار کو پانچ سال قید کر سکتی ہے اس پر یورپی یونین کی پارلیمان میں نئی بحث چھڑی ہوئی ہے کہ ہنگری کا نیا قانون، یورپی یونین میں بنیادی انسانی حقوق پر ضرب ہے جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ فلپائنی صدر کا اعلان آپ پڑھ ہی چکے ہوں گے کہ اس نے کرفیو توڑنے یا روٹی کے لئے احتجاج کرنے والوں پر گولی چلانے کا حکم دے دیا ہے غرض کہ دنیا تیزی سے ہچکولے کھاتی آگے کی طرف بڑھ رہی ہے جس کے بعد یہ کس صورت پر جا کر تھمے گی کہنا دشوار ہے۔

آن لائن انقلاب اب بہت تیزی سے آگے بڑھے گا، دنیا بھر میں لوگ گھروں میں کام کو ترجیح دیں گے۔ اور باہر جانے سے گریز کئی مہینوں تک چلے گا، اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ فائیو جی ٹیکنالوجی کی اہمیت دگنی ہو جائے گی جس میں سب آگے ہوواوے کھڑی ہے دوسرے الفاظ میں چین کھڑا ہے۔ شدید امریکی مخالفت کے باوجود قومی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے برطانیہ اور فرانس دونوں ہواوے کو اپنے ممالک میں فائیو جی کا انفرا سٹرکچر کھڑا کرنے کی محدود اجازت دے چکے، مثلآ فرانس نے شرط لگائی تھی کہ ہواوے وہ تمام آلات، فرانس ہی میں تیار کرے گا جو وہاں نصب ہوں گے ۔ مگر کیا اب بھی شرائط ویسی ہی رہیں گی یا نہیں ؟

ہمیں اس تیزی سے بدلتی ہچکولے کھاتی دنیا میں اپنی جگہ بنانے کا ایک اور موقع ملا ہے، ہم انٹرنیٹ یا آن لائن بزنس میں اپنے وسائل لگا کر اپنے نوجوانوں کی تربیت کر پائیں تو باقی وہ محنت کر کے اپنی جگہ خود بنا لیں گے۔

غور کریں تو پوری دنیا گلوبل ویلج سے ایک قدم آگے بڑھ کے گلوبل ہوم یا ایک عالمی گھر تک پہنچ گئی ہے ۔

ہم سب، دنیا کی تمام آبادی، گویا ایک کمرے میں ایک ہی خطرے سے دوچار دم سادھے ایک ساتھ بیٹھے صرف یہ انتظار کر ہے ہیں کہ اگلی باری کس کی ہو گی۔ لیکن سچی بات ہے کہ عالمی سطح پر موجود یہ احساس خوشگوار تبدیلیاں بھی لائے گا۔ ہمارے ملک میں بھی خوشگوار تبدیلیوں کی شروعات ہوئی جب امیر جماعت اسلامی، سراج الحق نے اپنی جماعت کے کارکنوں کو ہدایت کی کہ وہ خواجہ سرا کمیونٹی، اقلیتوں کی عبادت گاہوں کا خاص خیال رکھیں۔ بلاول بھٹو، شہباز شریف نے آگے بڑھ کے حکومت کی جانب دست تعاون بڑھایا، اور وزیر اعظم نے اس پیشکش سے فائدہ نہ اٹھا کر محض اپنا نقصان کیا اور غیر متعلق ہو گئے۔ دنیا بدل چکی، جو اس کا احساس کر کے آگے قدم بڑھائے گا اسے یقیناً راستہ ملے گا، جو پیچھے رہ گیا اس کے ساتھ وہی ہو گا جو متروکات کے ساتھ ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments