اے عمران تجھے تو اللہ پوچھے!


ہم میڈیا والوں نے کتنی آس اور امید کے ساتھ تیاریاں کی تھیں کہ کم از کم اگلے دو تین ہفتے تک مفت میں چینل کا نشریاتی پیٹ بھرے گا۔ دو دو منٹ کے کروڑوں روپے کے سرکاری اشتہارات کی برسات جاری رہے گی۔

ہمارے مالکان نے اینکرانِ کرام کے لیے کتنے ارمانوں سے نئی وارڈ روب تیار کروائی تھی۔میڈیائی ڈرونز کے پرزوں کو پٹرول سے دھلوا کر پھر جڑوایا تھا۔پورے پورے سٹوڈیوز کو ‘لاک ڈاؤن کنٹرول روم’ میں بدلنے کے لیے سیٹ ڈیزائنرز اور ترکھان طلب کر لیے تھے۔

کنٹنیر کی طرز پر خصوصی فائر پروف میز کی ارجنٹ تیاری کا آرڈر بھی دے دیا تھا تاکہ منہ سے نکلنے والے تجزیاتی شعلوں سے سیٹ آگ نہ پکڑ لے۔

ڈی ایس این جیز کے سب ٹائر تک بدلوا لیے تھے۔حتیٰ کہ ایکسکلیوسیو کوریج کا منجن رکھنے کے لیے بڑے بڑے جار تک راستے میں تھے۔

غرض ہم نے عمران تمہارے لیے کیا نہیں کیا۔ مگر دو ہفتے کیا تم تو دو نومبر سے پہلے ہی پش اپس لگاتے لگاتے خود ہف گئے۔ عمران تمہیں اللہ پوچھے۔ تاریخ تمہیں معاف کر دے گی مگر ہم شاید تمہیں نشریاتی منجن کا اگلا ایکسائٹمنٹ سے بھر پور کنسائنمنٹ آنے تک بالکل معاف نہیں کریں گے۔

عمران خان کیا تمہیں معلوم ہے کہ کل دوپہر تک میڈیا کی حالت اس دلہن کی تھی جو بڑے ارمانوں سے سج دھج کے بیٹھی ہو۔ من ہی من میں لڈو پھوٹ رہے ہوں۔ کھڑکی سے باجوں تاشوں کی آواز بھی چھن چھن کے آ رہی ہو۔ اور پھر پتہ چلا کہ خوابوں کے شہزادے کی بارات الٹے قدموں لوٹ گئی۔ عمران تمہیں اللہ پوچھے۔

اب یہ دلہن کبھی دھوکا نہیں کھائے گی۔ بس یہی گائے گی۔

‘نہ بھیج نہ چینل مجھ کو، میں نئیں جانا نئیں جانا، میں نئیں جانا دھرنے دے نال’۔

تمہیں ذرا سا بھی آئڈیا ہے عمران کہ تم نے کیسا کیسا کس کس کا نقصان کیا۔ ابھی تو مولانا فضل الرحمٰن کو بیسیوں جگتیں لگانی تھیں۔ ابھی تو مسلم لیگ نواز کے ورکر نما وزرا کے سینوں میں جو نت نئی گالیاں عنفوانِ شباب میں داخل ہو رہی تھیں لبوں پر آنے سے پہلے ہی چل بسیں۔

ابھی تو شیخ رشید کو چلتی موٹر سائیکل پر سگار سلگا کر وکٹری کا نشان بناتے ہوئے فیض آباد چوک پر جلتے ہوئے رنگ سے پار ہونا تھا۔

ابھی تو علامہ طاہر القادری کو فوری وطن واپسی کی ایک اور دھمکی کی وصولی کرنی تھی۔ سب کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا ۔تم نے کیا کیا عمران۔

جن جن رہنماؤں کو اپنے اپنے علاقوں سے کارکن لے کر اسلام آباد کی جانب مارچ کرنا تھا انہیں بنی گالا میں روٹیاں توڑنے کے لیے پہلے سے کیوں بلا لیا۔ میر صاحب نے تو بس اتنا ہی کہا تھا کہ

سب پے جس بار نے گرانی کی

اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا

میر صاحب کا یہ مطلب تھوڑا تھا کہ تم اس شعر کا وزن چیک کرنے کے لیے سارا بھار پرویز خٹک پر ہی ڈال دو۔ اور آخر میں سب کچھ سپریم کورٹ ہی نے کرنا تھا تو پھر تم نے جو کیا وہ کیوں کیا؟

اس بات پر مجھے وہ پھٹیچر لطیفہ یاد آ رہا ہے کہ پرویز خٹک جیسے ایک نوجوان نے تم جیسے ٹین ایجر رہنما سے پوچھا استاد جی بگلہ پکڑنے کا سب سے موثر طریقہ کیا ہے؟ رہنما نے کہا جہاں بگلہ دیکھو ایک لمبا چکر کاٹ کے آہستہ آہستہ کہنیوں کے بل بگلے کے پیچھے پہنچو اور اس کے سر پر موم رکھ دو۔ جب سورج موم کو پگھلائے گا تو بگلے کی آنکھیں اس موم سے بند ہو جائیں گی۔ فوراً بگلہ پکڑ لو۔ نوجوان نے پوچھا استاد جی جب میں بگلے کے عین پیچھے پہنچ ہی جاؤں گا تو پھر موم سر پر کیوں رکھوں سیدھے سیدھے گردن ہی کیوں نہ دبوچ لوں؟ رہنما نے کہا ‘بیٹا جی آپ بالکل دبوچ سکتے ہو پر یہ استادی تو نہ کہلائے گی۔’

شاید یہی استادی دکھانے کے لیے آپ پاناما گیٹ کی چھان بین کے لیے ڈائریکٹ سپریم کورٹ جانے کے بجائے براستہ لاک ڈاؤن پلان عدالت کی سیڑھیوں تک گئے۔

ہو سکتا ہے بہت سے لوگ کہیں کہ میں کیا اناپ شناپ بک رہا ہوں۔ مجھے تو خوش ہونا چاہیے کہ بحران ٹل گیا، جمہوریت بچ گئی، سانپ بھی مرگیا لاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔ فریقین نے آخری وقت میں عدالت کو ساکھشی مان کے سیاسی بلوغت کا ثبوت دیا۔

بھاڑ میں گئی آپ کی نصیحت۔ میں تو ایسے ہی جلی کٹی سناؤں گا۔ کیا آپ میں سے کسی کا میڈیا ہاؤس ہے؟ کیا آپ نے ‘خصوصی لاک ڈاؤن ٹرانسمیشن’ کے پیشگی انتظامات پر دو چار کروڑ روپے خرچ کیے؟ نہیں نا؟ تو پھر آپ کو مجھے مفت کے مشورے اور غصہ تھوک دینے کی صلاح دینے کا کوئی حق نہیں۔ عمران خان تجھے تو اللہ پوچھے گا۔

Nov 2, 2016 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments