کرونا کرونیکل: معزول آدم کے ابتدائی تاثرات


مارچ کا تیسرا ہفتہ تھا۔ ٹی وی اور سوشل میڈیا سے معلوم ہوا کہ پاؤں توڑ کر گھر بیٹھنا ہوگا۔ فوری تاثر چھٹی کا تھا۔ مسلسل کام کے بعد گھر میں گھروالوں کے ساتھ آرام کریں گے۔ مرضی سے اٹھیں گے، مرضی سے سوئیں گے؛ جب جی چاہا کتابیں پڑھیں گے، فلمیں دیکھیں گے، نہیں جی چاہا تو بیڈ، صوفے پر دراز یا نیم دراز ہوکر پرانی باتوں کو یاد کریں گے، پرانے گانے سنیں گے، پرانی تصویریں دیکھیں گے۔ کچھ لکھنے کو طبیعت مائل ہوئی تو لکھ لیں گے؛ نہیں جی چاہا تو خود پر جبر نہیں کریں گے۔ جس لمحے یہ خیالات ذہن میں آرہے تھے، اس لمحے یہ قطعاً احساس نہیں تھا کہ یہ سب خیالات اس خود غرضی پر مبنی تھے، جس میں یہ جادوئی صلاحیت ہے کہ وہ بڑے بڑے سانحات میں سے بھی آدمی کی راحت (جو ہمیشہ وقتی ہوتی ہے ) کشید کر لیتی ہے۔

بعد میں احساس ہوا کہ یہ خود غرضی کے اس اوّلین تجربے کا اعادہ تھا جب سکول کے دنوں میں یہ اطلاع ملتی کہ ہمارے ماسٹر صاحب اپنی بیماری یا اپنے کسی عزیز کی مرگ کے سبب آج نہیں آئیں گے تو ہم سب کے سہمے چہرے کھل اٹھتے تھے؛ہم سے اپنی خوشی سنبھالی نہیں جاتی تھی اور ہم شور مچانے اور کھیلنے لگتے تھے۔ وہ دن یادگار ہوا کرتا تھا! بعد میں یہی خود غرضی ہمیں دعامانگنے کی ترغیب بھی دیا کرتی کہ کم از کم ہفتے میں ایک دن تو ماسٹر صاحب کو بخار چڑھے، سائیکل سے گر کر ٹانگ تڑوا بیٹھیں یا ان کے خاندان میں کوئی جنت مکانی ہوں۔ یہ دعا کبھی کبھی قبول بھی ہوجایا کرتی۔ ہم خود کو خدا کے مقربین میں شمار کرتے۔ تب ہمارے معصوم دل اتنے سفاک ہوا کرتے تھے کہ اگلے دن ہم ماسٹر صاحب کی بیمار پرسی کرتے نہ ان سے تعزیت!

آدمی کو چھٹی تو چاہیے۔ صرف اس لیے نہیں کہ وہ مسلسل کام کے بعد اپنے تھکے جسم کو آرام دے سکے بلکہ اس لیے بھی کہ وہ ٹھہرکر سوچ سکے کہ آخر اتنی زیادہ مصروفیت اور اتنی تیز رفتار زندگی کا حاصل ہے کیا؟ اپنی مرضی کی کتابیں پڑھ سکے، اپنے ذوق کے مطابق موسیقی سن سکے، اپنوں سے اطمینان کی حالت میں مقصد، بے مقصد باتیں کرسکے؛ان لوگوں کی ایک ایسی فہرست بنا سکے جنھیں اپنی زندگی میں شامل رکھنا ہے اور جنھیں نکالنا ہے۔  صبح یا شام کو لمبی سیر کر سکے اور درختوں، پرندوں، جانوروں کو قریب سے دیکھ سکے اور اس یقین کو دوبارہ حاصل کر سکے کہ زندگی کرنے کا ڈھب صرف وہی نہیں جو اس نے اختیار کر رکھا ہے۔ لیکن یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ یہ چھٹیاں نہیں ہیں۔ اس لیے نہیں کہ جلد ہی ہمیں آن لائن کلاسیں پڑھانی پڑیں، بلکہ اس لیے کہ وہ ”حالت“ اپنی اصل کے ساتھ رفتہ رفتہ ظاہر ہونے لگی جس میں ہمیں مبتلا ہونا پڑا یا مبتلا کردیا گیا۔

یہ ”حالت“ ایک نئی چیز تھی۔ اس سے پہلے سنی تھی نہ دیکھی۔ وبائیں پہلے بھی آتی رہی ہیں۔ لاکھوں کروڑوں کو لقمہ اجل بناتی رہی ہیں۔ لیکن یہ ”حالت“ نہ چودھویں صدی کے یورپ کو ”سیاہ موت“ نامی طاعون کے وقت درپیش تھی نہ 1861 کے ہیضے کے ہاتھوں دہلی کے باسیوں کو (جس کا احوال غالب نے خطوط میں لکھا ہے اور نذیر احمد نے توبۃ النصوح میں )۔ آپ دن کے کسی وقت کسی راستے پر چل رہے ہیں، اچانک چوہا آپ کا راستہ کاٹتا ہے، آپ جیسے ہی اس کا نگاہوں سے پیچھا کرتے ہیں، وہ بل کھاتا ہے، تڑپتا ہے اور جان سے جاتا ہے۔  آپ کے منھ سے بے ساختہ نکلتا ہے : طاعون آگیا۔ (یا د کیجیے، کامیو کے ”طاعون“ کا ابتدائیہ)۔

لوگ قے کرتے ہیں۔ اسہال کا شکار ہوتے ہیں اور ایک ایک دن میں کئی کئی لوگ چھیجنے لگتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں ہیضہ۔ توبہ، استغفار کے ساتھ احتیاط، صبر اور خوف۔ ملیریا، چیچک، ٹی بی، ایڈز سے بھی لاکھوں لوگ دیکھتے دیکھتے چل بسے۔ بجا کہ سب وبائیں اس ننھی مخلوق کی پیداوار تھیں جنھیں سائنس دانوں (جو انسانیت کے عظیم محسن ہیں ) نے بیکٹیریا اور وائرس کا نام دیا۔

اس کے باوجود پہلی وباؤں کا ”چہرہ“ تھا۔ اس لیے صرف انھی سے فاصلہ اختیار کیا جاتا تھا جو اس کا شکار تھے۔ لیکن اب یہ فاصلہ سب سے ہے۔ اب ہر دوسرا شخص آپ کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے؛ یہ وبا کسی چہرے کے بغیرہے یا دوسرے لفظوں میں ہر چہرہ ہی وبا کا چہرہ ہوسکتا ہے۔ اس وبا نے امیر غریب، نیک گناہ گار، عورت مرد کا فرق مٹا دیا ہے۔ (کیا یہ وبا ہمیں جمہوریت سمجھانے آئی ہے؟)

میں نے اوپر جس ”حالت“ کا ذکر کیا ہے، اس کا یہ صرف ایک پہلو ہے اور اس پہلو نے ہر دوسرے شخص کے سلسلے میں اس قدر خدشات کو جنم دیا ہے کہ ہم کسی سے ہاتھ ملانا تو دور کی بات، اس کے قریب جانے سے بھی کترانے لگے ہیں۔ (سوائے ان چند لوگوں کو جنھیں یقین ہے کہ یہ وبا ایک سازش ہے یا پھر جو یہ سمجھتے ہیں کہ بیماری ہو کہ موت، ان کا ایک دن مقرر ہے۔)

اس ”حالت“ کا دوسرا پہلو دل چسپ بھی ہے، آئرنی کا حامل بھی اور سنگین بھی۔ ایک ننھی، حقیر مخلوق، جس کا اپنے بارے میں کوئی دعویٰ ریکارڈ پر نہیں، اس نے اشرف المخلوقات کے گھمنڈ میں مبتلا مخلوق کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا ہے۔ ہتھیار ڈالنے کا محاورہ میں نے اپنے بیان کی آرائش کی خاطر نہیں، اس ”حالت“ کو ٹھیک ٹھیک بیان کرنے کی غرض سے استعمال کیا ہے۔ اس وائرس کو کرونا کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ اس کی ”صورت“ کراؤن جیسی ہے، یعنی تاج شاہی۔ اس نے ثابت کیا ہے کہ اس وقت دنیا کے دو سو ملکوں پر اگر کسی کی حکومت ہے تو وہ یہی تاج شاہی ہے۔ یہاں مجھے کرسٹو فر مارلو کے ڈرامے ”ایڈورڈ دوم“ کا ایک منظر یا د آتا ہے جس میں بادشاہ کی تخت سے دست برداری کو پیش کیا گیا ہے۔

My nobles rule، I bear the name of king

I wear the crown، but am controlled by them

تو ہم صرف نام کے بادشاہ رہ گئے ہیں!

اس وقت سب اس سے بچاؤ کی کوشش کررہے ہیں اور اپنے اپنے گھروں (یا صحیح معنوں میں اپنے اپنے بلوں )میں چھپ کر بیٹھے ہیں۔ جس نسل نے عالمگیر یت یعنی کرہ ارض پرآزادانہ نقل و حرکت کا تجربہ کیا ہو، اس کے لیے اپنے بل تک محدود ہوجانا ایک قطعی نیا مگر دہشت انگیز تجربہ ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے شایداس عقاب کی مثال درست ہو جو بلند پہاڑوں کے سلسلے میں ایک بلند ترین درخت کی آخری شاخ پر گھونسلہ بناتا ہے اور آسمان کی پہنائیوں میں اپنے پرشکوہ پروں کو پھیلائے یوں پرواز کرتا ہے جیسے آفاق کی نوری مخلوق اس کی تماشائی ہو، اسے پروں سے باندھ کر لگڑ بگڑ کے بل میں ٹھونس دیاگیا ہو اور کچھ خوراک دے دی گئی ہو۔ اسے یہ سوچ کر صبر کرنا اور اپنی حالت کو قبول کرنا پڑے کہ وہ اسی صورت میں بچ سکتا ہے۔

تو ہمیں بس اپنے بچاؤ کی فکر ہے۔ اور اس کے سبب ہم اپنے وجود کی سب سے بنیادی اور اوّلین سطح پر جینے پر مجبور کردیے گئے ہیں، یعنی بچے کی سطح۔ بچے کے لیے سب سے اہم اس کی ذہنی زندگی ہے نہ جذباتی، نہ ثقافتی، نہ سیاسی، نہ ہی معاشی۔ اس کے لیے واحد اہم چیز اس کی صحت و زندگی ہے۔ بچہ جن صلاحیتوں اور جبلتوں کا حامل ہوتا ہے، ان میں اوّلیت اپنے تحفظ و سلامتی اور نشوونما کی ہے۔ بچے کے لیے یہ سب فطری ہے۔ اسے سوچنا نہیں پڑتا کہ اسے خوراک، نیند اور کھیل کیوں چاہیے۔

(بڑھاپے میں بھی بچے کی یہ حالت اس فرق کے ساتھ دہرائی جاتی ہے کہ بڑھاپے میں یادیں پیچھا کرتی ہیں )۔ بڑے اپنی ذہنی و جذباتی زندگی ( ادب، آرٹ، سیاست، ثقافت سب انھی دو سے کوئی نہ کوئی تعلق رکھتے ہیں ) کو زیادہ اہمیت دینے کے عاد ی ہوجاتے ہیں۔ اب ہم مجبور ہیں کہ ان سب کو معطل رکھیں یا ثانوی اہمیت دیں۔ اب ہمارے سارے معمولات کا محرک اپنی صحت اوردفاعی نظام کا استحکام ہے (اور اس کے لیے طرح طرح کے ٹوٹکے تجویز کیے جارہے ہیں۔ فیس بک تو یہی بتاتی ہے کہ ہر دوسرا شخص حکیم ہے )۔

دنیا کے جغرافیائی، قومی، سیاسی، دفاعی تنازعات فی الوقت سردخانے میں ہیں (گھریلو تنازعات کے بارے میں وثوق سے کہنا مشکل ہے)۔ اس کے علاوہ بھی کچھ مثبت پہلو بھی ہیں۔ ہماہمی، ہنگامہ خیزی، بھاگ دوڑ خواہ کتنے ہی دل فریب محسوس ہوتے ہوں، کئی غیر اہم اور منفی چیزوں کو بھی ہماری زندگی میں شامل کردیتے ہیں۔ سادگی اور کفایت از خود ہماری زندگی کا حصہ بن گئے ہیں۔ کھانے پینے سے لے کر پہننے اوڑھنے تک، صرف چند، بنیادی اشیا کافی سمجھی جانے لگی ہیں۔ صارفی ڈنگر والی زندگی قصہ ماضی معلوم ہوتی ہے۔ دکھاوا، موازنہ باقی نہیں رہا۔ لگتا ہے ہم سب انسانی تہذیب کے بچپن، یعنیHunter۔ gatherer والے عہد میں پہنچ گئے ہیں، جب زندگی خوراک جمع کرنے، کھانے، سونے اور چھوٹی موٹی تفریح تک محدود تھی۔ یہ تو ہوئے ہماری ”حالت“ کے کچھ دل چسپ، آئرنی کے حامل پہلو۔

کچھ سنگین پہلو بھی ہیں۔ ہم تقدیر کو الزام دیں، اسے عالمی سازش کہیں یا فطرت کا نتقام قراردیں یا محض اتفاق، ہم بچے کی سطح یا انسانی تہذیب کے اوّلین عہد میں پہنچے محسوس ہوتے ہیں۔ یہ ہماری ”حالت“ کا صرف ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ کافی سنگین ہے جو نہ بچے کو دکھائی دیتا ہے نہ خوراک جمع کرنے والے شکاریوں کو۔ اوپر میں نے عقاب کی مثال دی ہے۔ وہ عقاب ایک تاریک بل میں پڑا کیا سوچے گا؟ اسی کے جواب میں ہم اپنی صورتِ حال کی سنگینی کا اندازہ کرسکتے ہیں۔

 ہم میں سے ہر ایک کا جواب الگ ہوگا۔ کوئی یہ کہے گا کہ وہ ان آسمانوں کے بارے میں سوچے گا جنھیں اس نے تسخیر کیا۔ کسی کا جواب یہ ہوگا کہ وہ ان لذت بھرے دنوں کو یاد کرے گا جب وہ مرضی کا شکار کیا کرتا تھا اور اپنی محبوباؤں کے قرب میں ہوا کرتا تھا یا وہ کسی نئی محبوبہ کے بارے میں سوچے گا۔ کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ اس تاریک بل میں اپنی قسمت کو روتے وقت گزارے گا۔ کسی کے ذہن میں یہ آسکتا ہے کہ عقاب یہ سوچے گا کہ جیسے ہی وہ یہاں سے بچ نکلتا ہے، وہ کسی دوسرے پہاڑ پر جابسے گا اور اپنے جینے کا ڈھب بدلے گا تاکہ اسے دوبارہ اس طرح کی صورت حال سے نہ گزرنا پڑے۔

کوئی یہ خیال کرے گا کہ وہ ان دشمنوں کے بارے میں سوچے گا جن پر اسے شک ہے کہ وہ اس کی حالت کے ذمہ دار ہیں۔ یہ سب باتیں اس فرضی عقاب کے ذریعے ہماری حالت کے بعض حقیقی پہلوؤں کو بیان کرتی ہیں۔ ان سب میں ایک چیز مشترک ہے : ان میں اپنی ”حالت“ کا مقابلہ اس سے گریز کی صورتیں اختیار کرکے کیا گیا ہے۔ یہی چیز ہماری ”حالت“ کو سنگین بناتی ہے۔ ہم (یعنی وہ لوگ گھروں میں ہیں )اپنے وجود کی بنیادی سطح پر ہیں، تنہاہیں اور سب سے بڑے خوف (اپنے، اپنے اہل خانہ اور شاید پوری انسانیت کے خاتمے کے خوف) سے بچنے کی تدبیریں کررہے ہیں۔

انسانیت کی تاریخ کا خلاصہ ارنسٹ ہیمنگوے نے ”بوڑھا اور سمندر“ کے ایک جملے میں بیان کیا ہے: آدمی فنا ہوسکتا ہے، شکست نہیں کھا سکتا۔ لہٰذا ہم میں سے کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ اس وائرس کی بھی ویکسین ایجاد ہو جائے گی۔ وہ یقینا ً کوئی کافرمردود ہوگا، لیکن پوری انسانیت سکھ کا سانس لے گی۔ یہ بھی امکان ہے کہ اس کے بعد اس سے بھی بڑی کوئی وبا آئے اوریہ بھی ممکن ہے کہ یہ آخری وبا ہو۔ لیکن کیا یہ موقع دوبارہ آئے گاجب پوری دنیا اس ”حالت“ میں مبتلا ہوگی، کچھ کہہ نہیں سکتے، اور اسی لیے اس سے وابستہ خوف کا سامنا بہادری سے کرنے کی ضرورت ہے۔

 تسلیم کہ محبت، جنس، تفریح، کھانا، مستقبل کے خواب اور بولتے چلے جانا بھی اس خوف کے سلسلے میں رد اعمال ہیں۔ لیکن وہ ایک بنیادی سچائی کو فراموش کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ ہمیں ماننا چاہیے کہ ہم بنیادی سچائیوں سے گریز یا انھیں مسخ کرنے کی طویل تاریخ رکھتے ہیں ا ور اس سے بھی زیادہ دل چسپ بات یہ ہے کہ ہم نے اس عمل کے ذریعے آرٹ بھی تخلیق کیا ہے جسے کچھ لوگ بڑا بھی کہتے ہیں۔ جتنی زندگی حقیقی ہے، اس کا خاتمہ بھی اتنا ہی حقیقی ہے اور یہ کہ ہر شخص کو اپنے خاتمے کا سامنا تن تنہا کرنا ہے۔

یہ بنیادی سچائی ہے۔ زندگی کی بقا کی جدوجہد اس بنیادی سچائی کا سامنا کیے بغیر جاری رکھی جا سکتی ہے مگر وہ ہمیں بزدل بناتی ہے اور ہمارے اندر دیوتا ہونے کا التباس پیدا کرتی ہے اور ہمیں اس انکسار سے محروم کرتی ہے جو اپنے خاک بسر فانی ہونے کی حقیقت کے ادراک سے پیدا ہوتا ہے۔ نیز ہمیں پورا انسان بننے سے محروم رکھتی ہے۔ اگرعقاب کو واقعی اپنی ہستی کے مکمل معنی سے کوئی لگاؤ ہے تو وہ صرف آسمان کی وسعتوں کے تخیل کی اسیری میں نہیں بلکہ اس بل کی تاریکی کو اس کی ساری دہشت کے ساتھ محسوس کرنے اور اسی کو لکھنے /گانے میں ہے۔ بہ قول ارنسٹ بیکر: ”پورے انسان ہونے کی حالت کا مطلب ہے پورا خوف اور کپکپاہٹ“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments