کورونا وبا: چند نتائج اور نئی ترجیحات کا تعین


حالیہ نئے کورونا وائرس کی وبا نے دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی اور مقامی سطح پر انسانی سماج کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے، اور کئی سطحوں پر اس کے اثرات اس سے بھی کہیں زیادہ محسوس کئے جا رہے ہیں۔ یہ وبا ابھی چونکہ جاری ہے اور بہت سی جگہوں پر قابو میں نہیں آ رہی، بہت سی جگہوں پر صحت عامہ کی سہولیات نہ ہونے کے باعث اس کی تشخیص نہیں ہو پا رہی، اور کئی ممالک میں یہ درمیانی منازل میں ہے، اس لئے اس کے مجموعی اثرات کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

چین چونکہ اس موذی وبا سے نسبتاً کم نقصانات کے ساتھ (دنیا کے کئی ممالک مثلاً اٹلی، اسپین اور امریکہ کے اعداد و شمار کے مقابلے میں) باہر نکل چکا ہے، اور کچھ دوسرے آبادی اور جغرافیہ کے اعتبار سے چھوٹے ممالک مثلاً جنوبی کوریا، ہانگ کانگ اور سنگاپور اس سے بہتر انداز میں نبرد آزما ہوئے ہیں، اس لئے دنیا کے سامنے چند ‘بہترین مثالیں’ موجود ہیں۔ ان کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر طبی، سائنسی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں کے پاس اس ‘نئے کرونا وائرس’ سے نمٹنے کی زیادہ صلاحیت اور امکانات پیدا ہو گئے ہیں۔ ویسے بھی آج اکیسویں صدی میں انسانی سماج گذشتہ صدیوں کے مقابلے میں سائینسی علوم اور ٹیکنالوجی میں ہزار گنا آگے ہے، اس لئے امید کی جاتی ہے کہ جلد یا بدیر اس وبا پر قابو پا لیا جائے گا، اور اس کا کوئی مستقل حل نکال لیا جائے گا۔

اس امید کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ مختلف ممالک سے طبی تحقیق سے متعلق جو اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، وہ عندیہ دے رہی ہیں کہ اس ‘نئے کرونا وائرس’ کی ساخت، خصوصیات اور اس کی حرکیات کے بارے میں ماہرین طب نے گہرائی میں جا کر بظاہر ٹھیک ٹھیک اندازے لگا لئے ہیں۔ دشمن کی تعداد، طاقت اور حوصلے کے بارے میں درست اندازوں سے اپنی صف آرائی عموما’ً کامیابی کا باعث بنتی ہے۔

نیا کرونا وائرس جس سے Covid 19 کی بیماری لاحق ہوتی ہے، صحت عامہ کا ایک انسانی بحران ہے۔ اس کے ابتدائی ایام میں یہ واضح ہو گیا تھا کہ یہ متعدی وائرس ہے، بہت تیزی سے پھیل سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر اموات ہو سکتی ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) نے 31 جنوری 2020 کو ‘عالمی صحت ایمرجنسی’ کے نفاذ کا اعلان کر دیا تھا اور ان ممالک کو جہاں صحت عامہ کے نظام کمزور ہیں، خاص طور پر خبردار کیا تھا کہ انہیں فوری اقدامات کرنے چاہیں۔ 31 جنوری تک کورونا صرف چین تک محدود تھا اور وہاں 258 اموات ہوئیں تھیں۔ 31 جنوری کو برطانیہ میں 2 افراد کورونا + تھے۔ 2 فروری کو فلپائن میں چین سے باہر پہلی موت ہوئی۔ آج دو ماہ بعد 2 اپریل 2020 کو یہ وائرس 203 ملکوں میں پھیل چکا ہے، اس سے 44,000 افراد مر چکے ہیں اور 877,000 لوگ اس سے متاثر ہیں۔ اٹلی، اسپین، امریکہ اور برطانیہ میں چین سے زیادہ اموات واقع ہو چکی ہیں۔ اٹلی اور اسپین میں لاشوں کے انبار کے مناظر نے اس انسانی المیہ کے دکھ کو ناقابل بیان حد تک تکلیف دہ بنا دیا ہے۔

اس پس منظر میں بعض اہم مسائل اور حقائق کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے، جن کا تعلق ہماری موجودہ سماجی، سیاسی اور معاشی صورت حال سے ہے اور جن سے ہماری انسانی صورت حال کا تعین ہوتا ہے۔ یہ کسی بھی بڑے عالمی بحران یا اس قسم کی وبائی صورت حال میں ہماری ترجیحات اور کردار کا رخ بھی متعین کرتی ہیں۔ یہ وبا ہمارے ساتھ کیا سلوک کرے گی، اس بارے کچھ کہنے کی ہمت نہیں پڑتی۔ تاہم چند باتیں رقم ہونی چاہیں تاکہ جو کچھ ہو چکا، وہ آئندہ نہ ہو۔ یہ گزارشات ہیں:

1۔ تقریباً پچاس برس پہلے عالمگیریت نے سامراجیت ہی کی ایک شکل کے طور پر دنیا کو ‘گلوبل ویلج’ میں تبدیل کیا تھا۔ یہ عمل دو سطحوں پر ہوا: ایک تو سرمائے نے اپنا کردار ‘نیشنل’ سے ‘گلوبل’ میں تبدیل کر لیا، اور دوسرے ذرائع ابلاغ کا کردار بھی ‘گلوبل’ ہو گیا۔ اول الذکر کے نتیجے میں عالمی معیشیت چند بین الاقوامی کمپنیوں اور افراد کے ہاتھوں میں جانے سے ‘دولت کا شدید ارتکاز’ پیدا ہوا۔ گلوبل ویلج کی مالک یہی چند کمپنیاں اور افراد ہیں۔ وسائل اور دولت کی اتنی بڑی غیر منصفانہ تقسیم اور ملکیت کا سوال مستقبل میں اقتصادی بحث کے مرکزی دھارے کا اہم سوال ہو گا، اور انسانیت کو اس کا کوئی منصفانہ حل نکالنا ہی پڑے گا۔ ہمیں اپنی معیشت کو خود انحصاری کی بنیاد پر استوار کرنا ہو گا اور اپنے زرخیز وسائل بشمول انسانی وسائل کو بھرپور طریقے سے استعمال کرنا ہو گا۔ اس کے لئے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے حصار سے نکلنا ضروری ہو گا۔ وباؤں سے بے بسی کے ساتھ مرنے سے تو بہتر ہے کہ ‘مالیاتی بلاؤں’ کے ساتھ لڑ جھگڑ کر عزت نفس کے ساتھ موت کو گلے لگایا جائے، کم از کم تاریخ تو یاد رکھے گی۔

2۔ سرمایہ دارانہ معیشت اور ماضی قریب میں عالمگیریت نے دنیا میں بالعموم اور ترقی پذیر اور غریب ممالک میں بالخصوص امیر اور غریب کے درمیان خلیج کو بہت وسیع اور گہرا کر دیا ہے۔ ان ملکوں میں غربت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان جیسے ممالک میں حالیہ وبا کے ضمن میں اس سوال نے کہ لاک ڈاون کے نتیجے میں ان غریبوں کا کیا ہو گا، حکمرانوں کے ذہن میں کنفوژن کو پیدا کیا اور اس سے فیصلہ سازی میں مسائل پیدا ہوئے۔ وبا کے دنوں میں ان غریبوں کا کیا ہو گا، اس کے لئے تو کچھ کرنا ہی پڑے گا، کچھ ہو سکے گا یا نہیں، پتہ نہیں۔ لیکن وبا کے بعد ان کے لئے کیا لائحہ عمل ہو گا، کیا منصوبہ بندی ہو گی، اس ے قومی ترجیحات کی اہم بحث میں شامل کرنا پڑے گا۔

معاشرے کے پچھڑے ہوئے طبقے کے ان افراد کو جو کھیتی باڑی کر سکتے ہیں، بے زمین کسان، ہاری یا کھیت مزارعہ ہیں، انہیں قابل کاشت اراضی دی جانی چاہیے، جو ہمارے ہاں وافر ہے، اور اس کے ساتھ رعایتی پانی، بجلی اور کھاد۔ زمین سب سے بڑا اثاثہ ہے، مرغی یا انڈہ نہیں! جو کاریگر اور افراد دوسرے پیشوں سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے لئے نئے ترقیاتی منصوبے شروع کئے جانے چاہیں۔ ان تمام پالیسوں، منصوبوں اور شعبوں میں عورتوں کی شمولیت اور وسائل کی تقسیم سختی کے ساتھ صنفی برابری کے اصولوں پر کرنا لازمی شرط ہے۔

3۔ اس وقت دنیا میں اکا دکا ممالک کو چھوڑ کر بیشتر ممالک کھلی منڈی کی سرمایہ دارانہ معیشت کے نظام کے تحت چل رہے ہیں۔ پاکستان اور ہمارے جیسے کئی ممالک تو ‘قرضوں کی معیشت’ کا شکار ہیں۔ یہ عجیب تضاد ہے کہ ترقی یافتہ سرمایہ دار ملکوں اور اسکینڈے نیویا کی چند فلاحی ریاستوں میں تعلیم، صحت، رہایش اور ٹرانسپورٹ سرکاری شعبے کے پاس ہیں۔ اس لئے ان کو پبلک ایجوکیشن، پبلک ہیلتھ اور پبلک ٹرانسپورٹ کہتے ہیں۔ سرکار تعلیم، صحت اور کافی حد تک رہائش میں شہریوں کی ذمہ داری اٹھاتی ہے اور ٹرانسپورٹ میں ان کو سستے نرخ اور رعایت دیتی ہے۔ لیکن، سرمایہ دار ملکوں کے تشکیل شدہ مالیاتی اداروں کے سرمایہ دارانہ ماڈل اور شرائط کے تحت پاکستان اور ہمارے جیسے ممالک میں نجکاری اور لبرلائزیشن کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ پاکستان میں عملاً تعلیم، صحت اور رہائش نجی شعبے کو منتقل ہو چکے ہیں۔ سرکاری شعبے میں حکومت کی جانب سے تعلیم اور صحت کے لئے انتہائی کم بجٹ مختص کیا جا تا ہے، اس لئے ہماری پبلک ہیلتھ اور پبلک ایجوکیشن انتہائی ناگفتہ بہ حالت میں ہے۔ بچے سرکاری اسکولوں میں خوار اور مریض سرکاری ہسپتالوں میں تڑپتے رہتے ہیں۔ جدید ٹرانسپورٹ کی سہولت دو تین شہروں تک محدود ہے، باقی ملک میں ٹرانسپورٹ کسی اچھی حالت میں نہیں۔ چنانچہ، تعلیم اور صحت کی نجکاری ختم ہونی چاہیے اور ان کے اداروں کو قومی تحویل میں لے لینا چاہیے۔ قومی ترقی کے ضمن میں یہ اقدام ‘سب کے لئے ایک جیسا تعلیمی نظام اور نصاب’ کی جانب ایک اہم قدم ثابت ہو سکتا ہے، جو موجودہ حکومت کا نعرہ بھی ہے۔

4۔ حالیہ کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں اپنے عوام کو بچانے کے لئے اسپین نے تمام نجی (پرائیویٹ) ہسپتالوں کو قومیا لیا (نیشنلائز کر لیا)، جس سے عوام میں صحت کی وسیع تر سہولتوں تک رسائی کی وجہ سے خوف و ہراس میں فوری کمی واقع ہوئی۔ نجی صحت کے ایک بڑے سیکڑ کو سماجی ضروریات کے تحت سرکاری استعمال میں لانے کے اسپین کے اس اقدام سے نیشنلائزیشن کے خلاف تیسری دنیا میں حکومتوں کے انجانے وسوسے بھی دور ہوں گے۔ اس ی طرح اٹلی نے صحت عامہ کی ضروریات کو معیشت پر فوقیت دیتے ہوئے ان تمام پیداواری سرگرمیوں پر پابندی لگا دی جن کی فوری ضرورت نہ تھی۔ ان اقدامات سے پورے یورپ اور امریکہ میں یہ پیغام گیا کہ انسانی صحت کسی بھی معاشی سرگرمی کے لئے ایک لازمی حالت ہے۔ یہ سبق سیکھا گیا کہ تمام تر معاشی اور دیگر وسائل کو اس وبا سے نمٹنے کے لئے استعمال کرنا چاہیے، یعنی فوکس یکطرفہ ہو گا۔ معیشت کو بچانا یا بیک وقت صحت عامہ اور معیشت دونوں کو بچانا ماہرین عمرانیات اور اقتصادیات کے نزدیک درست حکمت عملی نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ہی وقت میں دو خمیدہ خطوط (curves) کو سیدھا یا ہموار کرنا ممکن نہیں ہوتا، جبکہ دونوں ایک دوسرے سے مشروط بھی ہوں۔ بالکل ایسے ہی جیسا کہ بیک وقت دو کشتیوں میں پاوں نہیں رکھے جا سکتے۔

5۔ بڑے سر مایہ دار ممالک نے، بشمول امریکہ اور برطانیہ، دونوں کشتیوں میں پاوں رکھنے کی حکمت عملی اختیار کی۔ انہوں نے کورونا وبا سے نمٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی معیشت کو بچانے یا کم ازکم اس وبا کے نتیجے میں پیدا ہونے شدید معاشی اثرات کو کم کرنے کی پالیسی کے تحت اقدامات اٹھائے، بیل آوٹ پیکج دئیے اور اپنی صنعتوں کو مراعات دیں، شرح سود صفر کر دی تاکہ نجی شعبہ صحت عامہ کے اس بحران سے نمٹنے میں مدد کرے۔ ان سرمایہ دار ممالک کےلئے معیشت زیادہ اہم تھی۔ وہ وبا کے نتیجے میں کساد بازاری اور اقتصادی دباو جیسے بحران پیدا ہوتے دیکھ رہے تھے، ان کی نظر میں بڑے پیمانے پر کاروبار کی بندش، بے روزگاری اور مالی خسارے زیادہ اہم تھے۔ حالانکہ یہ قطعی مختلف صورت حال تھی۔ اس کی انسانی قیمت ناقابل یقین حد تک بہت زیادہ نظر آرہی تھی۔ بدقسمتی سے یہی ممالک اس وبا کے بڑی قیمت ادا کر رہے ہیں۔

6۔ فیصلہ یہ کرنا تھا کہ صحت عامہ کو بچایا جائے یا معیشت کو۔ فیصلہ یہ کرنا تھا کہ صحت عامہ کے اس بحران کو تمام تر وسائل کے ساتھ حل کرنا ہے یا معیشت کو بچاتے ہوئے اس وبا سے نمٹنا ہے۔ چین نے صحت عامہ کو بچانے کا فیصلہ کیا اور ایسا کرتے ہوئے شدید معاشی نقصان بھی اٹھایا۔ لیکن اپنے عوام کے ساتھ فوری تاریخی انصاف یہ کیا کہ انہیں تین مہینوں میں ‘ایک خمیدہ خط کو ہموار’ کرنے کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے اس وبا سے نجات دلا دی۔ جبکہ اس کے برعکس، کئی ممالک کی حکومتوں نے، قطع نظر اس کے کہ ان کی معیشت کتنی مضبوط تھی یا کمزور، اس خاص مرحلے پر جب ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے خطرے کی گھنٹی بجائی تھی، فوری اور واضح اقدامات اٹھانے میں تاخیر برتی۔ یہیں فرق پڑا اور کرونا کے خلاف جنگ میں وہ خود بھی پھنس گئیں اور اپنے عوام کو بھی شدید مشکلات میں مبتلا کر دیا۔

جن ملکوں نے فوراً اور صحیح سمت میں اقدامات لئے، وہ کافی حد تک کامیاب نظر آرہے ہیں۔ جن ممالک نے فوری قدم اٹھانے میں تاخیر کی، وہ انہیں مہنگی پڑ رہی ہے۔ ان ممالک کی فہرست میں اٹلی، امریکہ، اسپین اور برطانیہ ہیں۔ کچھ ممالک ابھی تک دو کشتیوں میں پاوں رکھنے پر بضد ہیں، اگرچہ انہوں نے وبا سے نمٹنے کے لئے بڑے پیمانے پر اقدامات بھی اٹھائے ہیں، جیسا کہ پاکستان اور ہندوستان۔ تاہم، ان کو غربت، ناخواندگی اور توہم پرستی جیسے بڑے مسائل کا سامنا ہے، جس کی وجہ سے ان کی قیادت بے یقینی کا شکار ہے۔ اس بے یقینی سے جلد نکلنا ضروری ہے ورنہ معاملات ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔ بحران ہی انسان اور قیادت کا امتحان ہوتا ہے۔آج کے جمہوری دور میں قیادت باہمی مشاورت اور منتحب اداروں سے رہنمائی حاصل کرنے کا نام ہے۔ ایسے مواقع پر اپنی ذات اور انا کو ایک طرف رکھتے ہوئے اجتماعی فیصلے کئے جانے چاہیں۔ ہم وقتی مصلحتوں اور سیاس ی لڑائیوں سے اوپر اٹھ کر ہی اس خطرناک وبائی آفت کو شکست دے سکتے ہیں۔

7 ۔ لاک ڈاون پر اس وقت دنیا میں عمومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ اس لاک ڈاون پر سختی اور خلوص نیت سے عمل کرنا چاہیے۔ دنیا پہلے ہی ‘سماجی دوری’ جسے دراصل’جسمانی دوری‘ کہنا چاہیے، کے تجرباتی دور سے گزر رہی ہے۔ سماجی دوری کی جگہ جسمانی دوری کی اصطلاح اس لئے بھی استعمال کی جانی چاہیے کہ جسمانی دوری نے سماجی میل جول کو عملاً متاثر تو کیا ہے، جیسا کہ تعلیمی، مذہبی اور سماجی تقریبات اور اجتماعات پر پابندی یا بندشیں لگائی گئی ہیں۔ لیکن ‘سوشلائیزیشن’ کا سب سے بنیادی ادارہ، خاندان، سماجی میل جول پر پابندی سے ابھی تک آزاد ہے۔ ویسے بھی مصافحہ نہ کرنا، گلے نہ ملنا، ایک دوسرے سے چند میٹر کے فاصلے پر کھڑا ہونا عملاً جسمانی دوری کی شکلیں ہیں، اس لئے کہ بعض معاشروں میں تو سلام دعا کے لئے مصا فحے یا گلے ملنے کی پریکٹس موجود ہی نہیں ہے۔ دوسرے ٹیکنالوجی کی نت نئی مصنوعات، ذرائع ابلاغ کے وسیع اور سریع تر چینلز اور سوشل میڈیا کی ‘کثیرالکائیناتی’ دنیا میں اس وبا کی وجہ سے کم از کم متوسط طبقے کے سماجی میل جول میں اضافہ ہی ہوا ہے، کمی نہیں آئی۔ اس سلسلے میں جو کچھ طبی ماہرین ہدایات اور احتیاطیں تجویز کر رہے ہیں، وہی اس وبا کا حل ہیں۔ دنیا میں جہاں جہاں ممکن ہے، اس پر پہلے ہی عمل ہو رہا ہے، اور مزید سختی سے ہونا چاہیے۔ فی الحال اس سے بچاؤ، اس کے تدارک اور خاتمے کا یہی راستہ ہے۔

8۔ ’گھر پر رہیں‘ (Stay at home) اس وبا سے نمٹنے کی بنیادی احتیاط ہے۔ اس کے نتیجے میں دو ایسے ناخوشگوار اور ناپسندیدہ نتائج سامنے آئے ہیں، جنکا تدارک ہونا چاہیے ۔ پہلا تو یہ کہ عورتوں کے کام جن کی فہرست پہلے ہی بہت طویل ہے اور وہ گھر کی وہ فرد ہے جوگھر کے کاموں کی وجہ سے صبح سب سے پہلے اٹھتی ہے اور رات کو سب سے آخر میں سوتی ہے۔ تعلیمی اداروں اور کاروبار، دفاتر بند ہو جانے کی وجہ سے اس کے گھریلو کاموں میں کم از کم سوگنا اضافہ ہوا ہے۔ یہ صورت حال اس کی صحت پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہے اور اس وبا کی موجودگی میں وہ باقی لوگوں کے مقابلے میں ’زیادہ حملے کی زد‘ میں ہے۔ لہذا گھریلو کاموں کے ضمن میں ’گھریلو ذمہ داری، سب کی ذمہ داری‘ کے اصول پر عمل کرنا بہت ضروری ہے۔

دوسرا مسئلہ زیادہ تشویشناک اور تکلیف دہ ہے۔ دنیا کے کئی ملکوں سے یہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ گھروں میں رہنے کی وجہ سے عورتوں کے خلاف ’گھریلو تشدد‘ کے واقعات میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حکومتوں، مقامی رہنماوں اور مقامی انتظامیہ کو اس صورت حال کا نوٹس لینا چاہئے۔ عورتیں ایسی صورت حال میں مقامی انتظامیہ سے رجوع بھی کر سکتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments