کورونا وائرس: بیماری کے دوران کیا گزری؟ تین مریضوں کی کہانیاں


جیسی کلارک

جیسی کلارک اس وقت ہسپتال داخل ہو گئیں جن انھیں سانس لینے میں مشکل پیش آ رہی تھی

برطانیہ میں کورونا وائرس سے ہونے والے جانی نقصان میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اب تک دو ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں لیکن اس وائرس کی لپیٹ میں آنے والے مریضوں کی اکثریت صحت یاب ہو جاتی ہے۔

کچھ لوگوں میں اس مرض کی بہت ہی معمولی سے علامات ظاہر ہوتی ہیں یا کوئی علامت ظاہر ہی نہیں ہوتی۔ لیکن کچھ لوگوں کے لیے ہسپتال میں داخل ہو کر یکسوئی سے علاج کروانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہوتا۔

ہم نے ایسے تین مریضوں سے بات کی ہے جن کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔

یہ تینوں افراد مختلف عمروں کے ہیں اور ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد اب تنہائی میں وقت گزار رہے ہیں۔

کرین مینرنگ

کیرن مینرنگ کی کورونا وائرس کا شکار ہونے سے قبل اپنے خاوند کے ساتھ ایک تصویر

میں اپنی اور اپنے بچے کی زندگی کی جنگ لڑ رہی ہوں

برطانیہ میں کینٹ کے علاقے ہارنی بے سے تعلق رکھنے والی کیرن مینرنگ چھ ماہ کی حاملہ ہیں اور یہ ان کا پہلا بچہ ہے۔

کیرن مینرنگ 39 برس کی ہیں اور مارچ کے دوسرے ہفتے میں انھیں مسلسل کھانسی اور بخار کی شکایت ہوئی۔ لیکن ہسپتال والے انھیں داخل کرنے سے گھبرا رہے تھے۔ لیکن گیارہویں دن ان کی حالت بگڑ گئی۔

کیرن نے بتایا کہ ان کی سانس اس قدر بگڑ گئی کہ انھیں ایمرجنسی سروس کو فون کرنا پڑا اور چند ہی منٹ میں ایمبولینس ان کے دورازے پر پہنچ گئی۔ انھوں نے کہا کہ ‘انھیں سانس لینے میں اس قدر دشواری ہو رہی تھی کہ ایمرجنسی میں طبی عملے کو فوری طور انھیں آکسیجن دینا پڑی۔

کورونا کے بارے میں آپ کے سوال اور ان کے جواب

پہلے سے بیمار افراد کورونا وائرس سے کیسے بچیں؟

کیا آپ صحت یابی کے بعد دوبارہ کورونا کا شکار ہو سکتے ہیں؟

کیا کورونا کے شدید علیل مریضوں کا علاج صحت یاب مریضوں کے خون سے ممکن ہے؟


کیرن کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ مثبت آیا یعنی کہ انھیں اس وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ ان کے دونوں پھیپھڑے نمونیا سے متاثر تھے اور انھیں ایک ہفتے کے لیے ایک کمرے میں تنہائی میں رکھا گیا۔

کیرن نے بتایا کہ کسی کو ان کے کمرے میں آ کر ان سے ملنے کی اجازت نہیں تھی۔

انھوں نے اس ایک ہفتے کی اپنی اذیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ‘میں خود کو بہت تنہا محسوس کر رہی تھی اور یہ میری زندگی کے تاریک دن تھے۔’

انھوں نے مزید کہا کہ ‘دو تین دن تک تو میں بستر سے نہیں اتر سکی۔ حتیٰ کہ میں بیت الخلا تک نہیں جا سکی۔ اگر انھیں میرے بستر کی چادر بدلنی ہوتی تھی تو وہ مجھے ایک طرف کروٹ دلوا کر میری چادر بدلتے تھے۔’

انھوں نے بتایا کہ ‘جب مجھے سانس لینا دشوار ہو جاتا تھا تو مجھے مدد کے لیے ایک گھنٹی بجانا پڑتی تھی اور اس بات کا انتظار کرنا پڑتا تھا کہ مجھے دیکھنے سے پہلے وہ اپنا احتیاطی لباس پہن لیں۔’

میں اپنے آپ کو پرسکون رکھنے کے لیے مستقل فون پر اپنے گھروں والوں سے رابطے میں تھی۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں میں مر نہ جاؤں اور میرے گھر والے بری خبر کے لیے تیار تھے۔’

میں ایک ایک سانس کے لیے جدوجہد کر رہی تھی اور اپنی اور اپنے بچے کی زندگی کی جنگ لڑ رہی تھی۔’

کیرن نے کہا کہ جس دن انھیں ہسپتال سے جانے کی اجازت ملی اس دن ہسپتال کی عمارت سے باہر قدم رکھتے ہی تازہ ہوا کے جھونکے کا جو فرحت بخش احساس انھیں اپنے چہرے پر ہوا اسے وہ کبھی نہیں بھلا پائیں گی۔

انھوں نے بتایا کہ ‘ان کے شوہر انھیں گاڑی میں ہسپتال سے گھر لے جانے کے لیے آئے اور ہم دونوں نے چہرے پر ماسک لگائے ہوئے تھے اور راستے بھر ہم نے گاڑی کی کھڑکیاں کھلی رکھیں۔’

انھوں نے کہ ہوا اتنی زبردست لگ رہی تھی پھر اچانک انھیں زندگی کی اتنی چھوٹی چھوٹی چیزوں کی اہمیت کا احساس ہونے لگا۔

کیرن گھر پر تنہائی اختیار کیے ہوئے ہیں اور باقی گھر والوں سے علیحدہ ایک کمرے میں بند ہیں۔ وہ صحت مند ہو رہی ہیں لیکن انھیں اب بھی خشک کھانسی کی شکایت ہے جو غالباً ایک مہینے تک چل سکتی ہے۔

ان کے خیال میں جس بیوٹی سیلون میں وہ کام کرتی ہیں انھیں یہ وائرس وہیں سے لگا ہے لیکن اس بارے میں کبھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتیں۔ اور انھیں یہ بھی کبھی معلوم نہیں ہو سکے گا کہ ان کے گھر والے کورونا وائرس سے کس طرح بچے۔

Jessie Clark

جیسی کلارک

‘میں چاہتی ہوں کہ کوئی میری مدد کرے’

برطانیہ کے شہر شیفیلڈ میں رہنے والی جیسی کلارک کو ڈر تھا کہ وہ کووڈ 19 کی لپیٹ میں آ سکتی ہیں کیونکہ انھیں ایک عرصے سے گردوں کی تکلیف ہے اور پانچ سال قبل ان کا ایک گردہ نکال دیا گیا تھا۔

چھبیس برس کی جیسی کو جب کھانسی شروع ہوئی اور انھیں سانس لینے میں بھی دشواری پیش آنے لگی تو ان کی تشویش بڑھ گئی۔ کچھ ہی دنوں میں ان کے لیے چلنا پھرنا بھی محال ہو گیا۔

جیسی نے اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ان کو پسلیوں، کمر اور پیٹ میں شدید درد محسوس ہونے لگا۔

‘ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کسی نے میری پٹائی کی ہو۔’

وزیر اعظم بورس جانسن نے جس دن ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا جیسی کے منگیتر ٹام انھیں مقامی ہسپتال کے حادثات اور ایمرجنسی کے شعبے میں لے کر گئے۔

انھیں احتیاطی پابندیوں کی وجہ سے فوری طور پر ایک دوسرے سے الگ کر دیا گیا۔

جیسی کا کہنا تھا کہ وہ اکیلے رہنے سے خوف زدہ اور پریشان تھیں اور چاہتی تھیں کہ کوئی ان کی مدد کرے۔

انھوں نے بتایا کہ ‘انھیں منہ پر لگانے کے لیے ایک سبز رنگ کا ماسک دے دیا گیا اور اس میں ناک پر لگائے رکھنے کے لیے ایک عجیب سی چیز تھی۔

’مجھے ایک ایسے وارڈ میں داخل کر دیا گیا جو کووڈ-19 کے مریضوں کے لیے مخصوص تھا۔ فاصلے برقرار رکھنے کے لیے بستروں کے درمیان دیواریں لگی ہوئی تھیں۔‘

جیسی کا کورونا وائرس کا ٹیسٹ نہیں ہوا تھا۔

ڈاکٹر نے کہا کہ وہ ہر کسی کا ٹیسٹ نہیں کر سکتے لیکن بہتر یہی ہے کہ ہم یہ فرض کرلیں کہ آپ کو بھی کورونا وائرس کا شکار ہو گئی ہیں۔

ڈاکٹر نے بتایا کہ انھیں جو تکلیف محسوس ہو رہی ہے وہ ان کے پھیپھڑوں میں سوزش کی وجہ سے ہے اور انھیں الگ رہنا چاہیے اور درد کم کرنے کے درد ختم کرنے والی ادویات کا استعمال جاری رکھنا چاہیے۔

جیسی کا کہنا ہے کہ انھیں سانس کی کبھی کوئی بیماری نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘یہ سوچ انتہائی خوف زدہ کرنے والی تھی کہ آپ کی سانس بند ہو جائے اور آپ کو جو محسوس ہو رہا ہے وہ وائرس کی لپیٹ میں آنے والے کے لیے عام ہے۔’

جیسی چھ گھنٹوں تک ہسپتال میں رہیں۔ ٹام کار پارک میں اپنی منگیتر کا انتظار کرتے رہے اور انھیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔

ٹام کا تعلق انتہائی ضروری کام کرنے والے عملے سے ہے اور ہو سکتا ہے کہ ان میں وائرس کی کوئی علامت ظاہر نہ ہوئی ہوں اور ان سے یہ وائرس جیسی کو منتقل ہو گیا ہو۔

ہسپتال سے فارغ ہونے کے پانچ دن بعد بھی جیسی کو چلنے پھرنے میں دشواری پیش آرہی ہے اور وہ دن میں اٹھارہ گھنٹے سو کر گزارتی ہیں۔ کبھی کبھار انھیں کھانسی کا دورہ پڑتا ہے لیکن انھیں سانس لینے میں کوئی مشکل پیش نہیں آ رہی۔

Quote card:

انھوں نے کہا کہ بہت سے نوجوان کا خیال ہے کہ انھیں کورونا وائرس لگنے کا کوئی امکان نہیں اور وہ اس سے محفوظ ہیں لیکن اب وہ بھی اس بارے میں سنجیدہ ہیں۔

‘ایسی بہت سے معلومات دی جا رہی ہیں کہ کورونا وائرس میری عمر کے لوگوں کو نہیں لگتا لیکن ایسا نہیں ہے یقیناً یہ لگتا ہے۔’

سٹیورٹ بوئل

سٹیورٹ بوئل

‘میں ایک تاریک جگہ سے صرف ایک سانس کی دوری پر تھا’

سٹیورٹ بوئل کو تقریباً یقین ہے کہ انھیں دو ہفتے قبل ایک چرچ میں کوائر میٹنگ کے دوران کورونا وائرس لگا۔

انھوں نے کہا کہ ‘جمعرات کے روز جب ہم جمع ہوئے تو ہم احتیاطی طور پر ایک دوسرے سے فاصلہ رکھ رہے تھے لیکن اتوار کو زیادہ لوگ آئے جن کو نزلہ ہو رہا تھا۔’

اگلے دس دنوں میں 64 برس کے سٹیورٹ کی طبیعت خراب ہونا شروع ہو گئی۔

Quote card:

انھوں نے اپنی حالت بیان کرتے ہوئے کہا کہ ابتدا میں تو یہ بہت معمولی سی تکلیف تھی۔

‘لیکن بعد میں سیڑھیاں چڑھتے وقت بوڑھوں کی طرح ہانپنے لگتا تھا۔ جلد ہی میں حرکت کرنے حتی کہ ہلنے جلنے کے قابل بھی نہیں رہا۔ یہ وائرس میرے پھیپھڑوں پر حملہ آور ہو رہا تھا اور میں کوئی مدافعت نہیں کر پا رہا تھا۔’

سٹیورٹ کی فیملی نے ایمرجنسی سروس کو فون کیا اور وہ انھیں ہسپتال لے گئے۔

انھوں نے کہا کہ انھیں محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ کسی فلم کا حصہ تھے۔

‘مجھے سٹریچر پر ریڈ زون میں لے جایا گیا جہاں بہت سے ٹیسٹ کیے جا رہے تھے اور مریضوں سے نمونے حاصل کیے جا رہے تھے۔

انھیں لگا کہ مجھے وائرس ہے اور انھوں نے میری آکسیجن تیز کر دی۔ کچھ گھنٹے ایسے تھے جہاں میں کسی تاریک جگہ سے صرف ایک سانس کی دوری پر تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ میرا وقت آگیا ہے اور اب مجھے جانا ہے۔’

‘میں اپنے پھیپھڑوں میں جاری جنگ کو محسوس کر سکتا تھا اور مجھے اس سے لڑنے کے لیے اپنے بدن کی تمام تر توانائیاں درکار تھیں۔

سٹیورٹ بوئل

سٹیورٹ بوئل جب ہسپتال میں داخل تھے

اضافی آکسیجن سے میرے پھیپڑوں کو کچھ مدد ملی اور مجھ اضافی توانائی ملی کہ میں بیماری سے نمٹ سکوں۔

این ایچ ایس (نیشنل ہیلتھ سروس) کا عملہ بہت زبردست کام کر رہا تھا لیکن وہ آپ کو کورونا وائرس سے لڑنے میں مدد کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے۔

اس بیماری کی کوئی ویکسین یا کوئی جادوئی خوراک دستیاب نہیں ہے جو آپ کو بچا سکے۔ یہ آپ کی اپنی قوت ارادی پر منحصر ہے۔’

اس دوران ان کے چرچ نے ان کے لیے انٹرنیٹ کے ذریعے ایک گانا گایا۔

انھوں نے بتایا کہ یہ گانا اپنے آپ کا خیال رکھنے اور ہمت نہ ہارنے کے بارے میں تھا۔ ‘میں ابھی خود گانا گانے کے قابل نہیں ہوں اور ابھی صرف ہلکی آواز نکال سکتا ہوں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp