فاروق خالد کا ناول ”سیاہ آئینے“


کسی ایسے ناول کے بارے میں لکھنا جس کا ادبی مقام متعین ہو چکا ہو، آسان نہیں ہوتا۔ ایسے فن پارے کے مختلف زاویوں اور جہتوں پر سیر حاصل بات عموماً ہو چکی ہوتی ہے، لہذا ایسی تحریر پر قلم اٹھانے کا سزاوار کوئی فقط اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب وہ اس کا کوئی نیا پہلو دریافت کرے یا اس کے حسن و قبح کے حوالے سے کوئی نیا نکتہ اٹھائے۔ فاروق خالد کے آدم جی انعام یافتہ ناول، ”سیاہ آئینے“، پر بات کرتے ہوئے مجھے بھی اسی روائیتی تنقیدی دقت کا سامنا ہے۔

”سیاہ آئینے“ بیشتر واحد متکلم نقطہِ نظر سے لکھا گیا ہے۔ سماجی صورتحال کو شخصی تجربے کے استناد کے ساتھ پیش کرنے کا واحد متکلم بیانیہ اصولی طور پر بہترین ذریعہ ہے۔ ناول نگار نے اس تکنیک کو پورے فنی وقار کے ساتھ نبھایا ہے۔ سیاہ آئینے بظاہر تھیم کا ناول ہے لیکن اپنی بنیاد میں یہ ایک فکری تحریر ہے۔ کسی ناول میں نظریاتی آمیزش جاننے کا عمومی پیمانہ یہ ہے کہ اس میں راوی یا بیان کنندہ بطور کردار کتنا دخل انداز ہوتا ہے۔ وہ کسی کردار کے اوصاف، محسوسات، عمل یا ردِعمل کی وضاحت اور کسی وقوعہ کی تشریح میں کس قدر حصہ ڈالتا ہے۔ اگر یہ حصہ اس کے متعین کردار سے زیادہ ہے اور وہ قاری کو ایک خاص فکری سمت میں ہانک رہا ہے، تو جان لیجیے کہ وہ تحریر آئیڈیالوجیکل ہے اور لکھاری ایک ماہر شکاری بھی ہے۔

”سیاہ آئینے“ کی کہانی بارہ دری ہوٹل سے شروع ہوتی ہے جہاں ناول کا مرکزی کردار فیاضی، آرٹسٹ، گامن اور بیان کنندہ، منیر کرائے کے کمروں میں رہائش پذیر ہیں۔ ہوٹل بارہ دری سے ایک نومولود بچی کی لاش برآمد ہوتی ہے۔ جسے ایک اجنبی جو بعد میں عارف کے نام سے متعارف ہوتا ہے، اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ یہاں سے کہانی مختلف کرداروں کے ذریعے آگے بڑھتی ہے۔ منیر، عزیز نامی کردار کے گھر جاتا ہے جہاں اس کی ماں زخمی ہے اور باپ انتہائی غصے میں ہے۔ نڈھال، عزیز دوسرے کمرے میں موجود ہوتا ہے جو آگے چل کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہے اور سدھ بدھ کھو چکا ہے۔

ناول کا مرکزی کردار فیاضی، ایک انتہائی پڑھا لکھا، عالم، جیّد اور سماجی شعور کا حامل شخص ہے۔ وہ تیرہ سال کالج میں پڑھانے کے بعد ایک سکول میں پڑھانا شروع کر دیتا ہے اور ازاں بعد ایک فیکٹری میں بطور چوکیدار ملازمت کر لیتا ہے۔ اس کے کسی دور میں کوثر نامی طوائف کے ساتھ جنسی تعلقات رہے ہیں۔ کوثر بضد ہے کہ اس جنسی تعلق کے نتیجے میں ان کا بشیر نامی ایک بیٹا پیدا ہوا تھا جسے وہ فرزانہ نامی عورت کو دے آئی تھی، جس نے اپنے خاوند صفدر کے ساتھ مل کر اس کو پالا پوسا ہے۔ کوثر کو فرزانہ کا خط موصول ہوتا ہے کہ بشیر کو معلوم ہوگیا ہے کہ وہ اس کے حقیقی والدین نہیں ہیں اور وہ جاننا چاہتا ہے کہ وہ کس کی اولاد ہے۔ فیاضی کوثر کی بات سے یکسر انکاری ہوتا ہے کہ اس کا کوثر کے بطن سے کوئی بیٹا ہے۔

فیاضی کے انکار کے بعد کوثر ایک پیشہ ور کرائے کے قاتل، گامن، کو فیاضی کے قتل کے بدلے دس ہزار روپے دینے کا وعدہ کرتی ہے۔ گامن کو فیاضی نہیں ملتا، وہ اس کے بجائے کسی اور شخص کو قتل کر دیتا ہے۔ جب وہ کوثر سے طے شدہ رقم وصولنے آتا ہے تو پہلے وہ اس بات کا یقین ہی نہیں کرتی اور پھر یقین آتے ہی اسے فیاضی کے قتل پر برا بھلا کہتی ہے اور روپے دینے سے انکار کر دیتی ہے، جس پر گامن اسے قتل کر دیتا ہے۔ یہاں سے آگے، کہانی زیادہ تر عارف اور بشیر کے گرد گھومتی ہے۔

بشیر اپنے حقیقی باپ کی تلاش میں ہوٹل بارہ دری جاتا ہے جہاں اس کا تعلق عزیز، فیاضی اور عارف سے استوار ہو جاتا ہے۔ ایک دن عارف اسے اپنے گھر لے جاتا ہے جہاں دونوں شراب پیتے ہیں۔ عارف اسے عذرا نامی حاملہ عورت کے بارے میں بتاتا ہے کہ کیسے وہ اسے اپنے گھر لاتا ہے اور پھر بغیر جنسی عمل کے اس سے جنسی تلذذ حاصل کرتا ہے۔ اگلے روز وہ ایک مردہ بچی کو جنم دیتی ہے جسے وہ ہوٹل بارہ دری کے غسل خانے میں رکھ آتا ہے اور پھر وہاں سے لا کر دفناتا ہے۔ عارف کا تعلق رفعت نامی لڑکی سے بھی استوار ہوتا ہے جس سے، بقول اس کے، وہ حقیقی محبت کرتا ہے۔

رفعت یہ جان کر کہ عارف ایک گونگی، بہری، مظلوم عورت کلثوم کا خاوند ہے اور اس پر ظلم وستم کرتا ہے، اس سے تعلق ترک کر دیتی ہے۔ خیر اس رات عارف، بشیر سے ایک عجیب و غریب خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ وہ اس کی بیوی سے ہمبستری کرے جسے وہ چھپ کر براہ راست دیکھنا چاہتا ہے۔ بشیر جو کہ پہلے ہی اس عمل کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتا، کلثوم کی معصومیت اور مظلومیت سے پسیج جاتا ہے اور اِسے، اُس سے محبت ہو جاتی ہے۔ وہ کلثوم کو بزور عارف کے گھر سے بھگا کر لے جاتا ہے۔

اس کے بعد ناول، عارف کے بشیر کو تلاش کرنے اور کسی نہ کسی طرح رفعت کو حاصل کرنے کی کوشش کو بیان کرتا ہے۔ بشیر کو اچانک ڈھونڈ لینے پر وہ اس کو جان سے مارنے لگتا ہے لیکن فیاضی اس وعدے پر کہ وہ اسے رفعت سے ملوا دے گا بشیر کی جان بچا لیتا ہے۔ ازاں بعد بشیر موقع ملنے پر عارف کو زخمی کر کے باندھ دیتا ہے اور اسے قتل کرنے لگتا ہے، فیاضی اس بار عارف کو بچا لیتا ہے۔

آخر میں رفعت از خود عارف کے گھر آتی ہے اور اس سے درخواست کرتی ہے کہ وہ اس کا پیچھا چھوڑ دے کیونکہ اس کی شادی ہو رہی ہے جس میں آرٹسٹ اس کے والدین کی مالی مدد کر رہا ہے۔ عارف کی تمام تر منت سماجت کے باوجود رفعت اسے چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ یہاں کہانی کا اصولی طور پر اختتام ہو جاتا ہے، لیکن آخری چند صفحات میں فیاضی، البرٹ وائٹر نامی ایک مسیحی کے ساتھ روایتی مذاہب اور الہیات سے اپنی بیزاری پر مکالمہ کرتا ہے جو اسے فادر ولیم کے پاس لے جاتا ہے جہاں ابتدائی مکالمے کے بعد ہی ناول کا اختتام ہو جاتا ہے۔

ناول کی کہانی سپاٹ ہے اور کسی بھی موقعے، کسی بھی لمحے قاری کو اپنی گرفت میں نہیں لیتی۔ کسی بھی مرحلے پر پڑھنے والا اضطراب، بیتابی اور دھڑکتے دل کے ساتھ صفحات نہیں الٹتا کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ کہانی میں پڑھنے والے کو چونکا دینے والا کچھ بھی نہیں ہے۔ پاپولر فکشن کی طرح اس میں ڈرامائی اتارچڑھاؤ نہیں ہیں۔ یہ سنجیدہ ادب ہے۔ کمرشل اور پاپولر ادب پڑھنے والوں کے لیے اس میں دلچسپی کا کوئی سامان نہیں ہے۔

”سیاہ آئینے“ کا ماحول اور فضا تاریک، گدلی، پرملال، گمبھیر اور افسردہ ہے، جسے شعوری طور پر ناول نگار نے بڑی کامیابی کے ساتھ آخر تک برقرار رکھا ہے۔ ناول کی زبان ماحول سے مکمل ہم آہنگ ہے۔ فکشن کی زبان کسی بھی تحریر کے ماحول اور اس کے کرداروں کے حوالے سے متعین ہوتی ہے، فاروق خالد نے ناول کی لسانی تشکیل میں اس امر کو فنی مہارت سے ملحوظ خاطر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ سامنی دیوار، سُتے چہرے، لم سلما کمرا، نلکے کی بنّی، منہ کی ہواڑ اور اسی طرح کی بے شمار اردو پنجابی ادغام سے جنمی تراکیب نے ماحول اور کرداروں کے تہذیبی پس منظر میں تحریر کو مزید اوریجنل اور بلیغ بنا دیا ہے۔

ناول کے کردار اصل میں اس کے افسردہ ماحول اور پرملال فضا کی دیواروں پر آویزاں وہ سیاہ آئینے ہیں جو سماج کی تمام تر تاریکیوں اور اندھیروں کے عکس، ہر ممکنہ زاویے سے عیاں کرتے ہیں۔

عارف، ناول کا سب سے جاندار، جیتا جاگتا اور قابل یقین کردار ہے۔ وہ ایک جنسی مہم جو ہے (ناول نگار کے مطابق جنسی کجرو) جو ایک جسم سے دوسرے جسم کا غیر مختتم سفر، مطلوبہ جنسی آسودگی کی منزل کے حصول کے لئے جاری رکھتا ہے۔ عارف اس مہم جوئی میں مختلف جنسی تجربات سے شعوری طور پر گزرتا ہے لیکن اس کی نا آسودگی کیسے اور کیونکر دور ہوگی۔ وہ نہیں جان پاتا۔ اردو ناولوں کے کردار عموماً جنسی غدود سے محروم ہوتے ہیں اور جنس کی طلب اور خواہش اشارتاً بھی ظاہر نہیں کرتے جو اصل میں زندگی کی طرف اشارہ ہے۔ فاروق خالد نے جنس کے متعلق بغیر کسی احساسِ جرم کے بے خوف ہوکر بڑے خوبصورت انداز میں لکھا ہے۔ میری رائے میں عارف کا کردار اردو ناول کے یاد رہ جانے والے کرداروں میں سے ایک ہے۔

ناول کا مرکزی کردار فیاضی اپنے تمام تر عالمانہ مباحث اور علمی رنگارنگی کے باوجود کتاب کے صفحات سے نہیں ابھر سکا اور وہیں کہیں گم ہوگیا ہے۔ قاری کسی لمحے بھی اس کردار پر یقین کرنے پر خود کو آمادہ نہیں کر پاتا۔ اسی طرح گامن کا کردار، یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اسے فقط کوثر کے قتل کے لیے مرتب کیا گیا تھا، کیونکہ اس کے بعد موصوف کا کوئی اتا پتا نہیں ملتا۔ ناول کے آخر میں فیاضی کے عالمانہ مکالمے اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اس ناول کا سیکوئیل بھی ناول نگار کے پیش نظر تھا جو میری دعاؤں کے اسیر کے نام سے منظر عام پر آچکا ہے لیکن ہنوز میری نظر سے نہیں گزرا، امید ہے اس میں فیاضی کو زیادہ فطری انداز میں ڈیویلپ کیا گیا ہوگا۔

بارہ دری ہوٹل کے تنگ و تاریک، بے ڈھنگے اور غلیظ غسل خانے سماج کے عکاس ہیں۔ غسل خانوں کی گھٹن اور غلاظت سماج کی غلاظت اور گھٹن ہے۔ سماج کی غلاظت اور گھٹن کو فاروق خالد نے غسل خانوں کی تمثیل سے کچھ ایسی فنکارانہ مہارت سے نمایاں کیا ہے کہ پڑھتے وقت قاری کا نہ صرف دم گھٹتا ہے بلکہ وہ متلی بھی محسوس کرتا ہے۔ غسل خانوں کی سماج سے تطبیق کے لیے یہ منظر ملاحظہ فرمائیے :

” ناقص دروازوں پھسلواں فرشوں، کراہت انگیز بُو، تکلیف دہ نیچی چھتوں اور غسل خانوں میں مضحکہ خیز زینوں پر مستزاد یہ کہ ان کی تعمیر بھی یکساں طور پر ناگوار تھی۔ “

فاروق خالد اپنے سماج کی بُنت، غیرفطری تشکیل اور اس کے ناہموار اور غیرمنصفانہ ڈھانچے سے یکسر بیزار ہے۔ اسے اس کی تعمیر ہی میں خرابی کی صورت دکھائی دیتی ہے۔

غسل خانوں کا ایک اور منظر ملاحظہ فرمائیے :

” کھارے پانی میں شامل نمکیات، سستے صابن میں موجود تیزابی مادوں کی بہتات اور نہانے والوں کے اجسام سے اترنے والی میل کچیل اور پسینے نے غسل خانے کے فرش اور زینوں پر تعفن آمیز آلائشوں اور چکنی کائی کی تہہ بچھا دی تھی۔ “

تطہیر کے عمل میں، ترک شدہ گھناؤنے پن اور تاریک افعال کی آلائشوں اور میل کچیل کا نکاس، سماجی تعمیر میں بنیادی اہمیت کا حامل ہوتا ہے تاکہ فکری تبدیلی کے زیراثر اپنائے گئے افعال کی مہک، کیش ہائے متروکہ کے تعفن سے ممیز ہو کر تقابل کا ماحول پیدا کر سکے اور معاشرتی بھلائی کے امکانات وا ہوں، لیکن اگر کسی سماج کی تعمیر ہی میں یہ کجی رہ جائے تو متروک افعال کی آلائشوں اور میل کچیل کا تعفن، خوشگوار تبدیلی کے ترغیب بننے میں مزاحم ہوتا ہے۔

سیاہ آئینے کا ایک اور اہم پہلو اس کے مصنف کی منظر نگاری کے فن پر دستگاہ ہے۔ کئی مناظر اس مہارت سے قلمبند کیے گئے ہیں کہ قاری خود کو ان کا حصہ محسوس کرنے لگتا ہے اور وہ اس کے ذہن کے ساتھ چپک کر رہ جاتے ہیں۔ فاروق خالد نے اس ناول میں بڑی کامیابی کے ساتھ قاری کو ناول کے ماحول میں جذب کیا ہے۔

ناول میں مشاہداتی اشاریوں اور تفصیلات کی بھرمار ہے۔ کوئی منظر، گلی، کوچہ، وقوعہ، سڑک، نلکا، پرندہ، گلاس، میز، کمرا ان سے بچ نہیں پایا۔ مصنف کسی بات کو غیر ضروری نہیں سمجھتا، کسی وقوعے کو سرسری نہیں دیکھتا اور رک کر جملہ تفصیلات بتانے لگتا ہے۔ کئی مقامات پر یہ اعشاریے اور تفصیلات بڑی کامیابی سے کہانی کے بہاؤ کو روک دیتے ہیں اور قاری کہانی سے لاپرواہ ہوکر مصنف کے مشاہداتی کرشموں اور تفصیل نگاری پر غور کرنے لگتا ہے۔ اپنی تمام تر خوبیوں کے باوجود یہ کہانی کے حق میں اچھا نہیں ہے۔

سیاہ آئینے ناول نگار کے گہرے نفسیاتی اور سماجی شعور کا اظہاریہ بھی ہے۔ جا بجا قاری مصنف کے سماجی شعور سے متاثر ہوتا ہے اور اس کی قوت مشاہدہ اور تفہیم پر داد دیتا ہے۔ چند جملے ملاحظہ کیجئے جو مصنف کی بیان کردہ صلاحیت پر دال ہیں :

” طوائفیں واقعی یہ نہیں چاہتیں کہ ہر کوئی آئے اور ان سے جماع کرے مگر وہ یہ چاہتی ہیں کہ ہر کوئی آئے اور انہیں پیسے دے۔ اگر سچ کہا جائے، بہت سے آدمی انہیں پیسے نہیں دینا چاہتے مگر مجامعت کرنا چاہتے ہیں۔ یہ دو حالتوں کا پر مذاق سنگم ہے۔ “

” انسان افسوس کے ہاتھوں پریشان ہو کر گہرے تاریک سوراخوں کے اندر سے کسی محفوظ مقام پر پہنچنا چاہتا ہے مگر ساتھ ہی وہ ان سوراخوں سے خوفزدہ ہے اور افسوس کا ایک بھاری تھیلا اپنی کمر پر لادے چلا جارہا ہے۔ جب تک ہم خوف اور افسوس کو ان کی مناسب جگہوں پر نہیں سمجھیں گے ہماری راہیں کبھی صاف نہیں ہوگی۔ “

پوسٹ مارٹم کے حوالے سے دیکھیے :

” یہاں کے ڈاکٹروں سے توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ مردہ جسم سے کچھ وصول کر سکیں کیونکہ یہ صرف نیم مردہ جسموں سے فائدہ حاصل کرنے کا گّر جانتے ہیں۔ “

فاروق خالد نے یقینا ایک اچھا ناول لکھا ہے جس میں عارف جیسے زمینی اور حقیقی کردار تخلیق کیے ہیں، جن کی الجھنیں، وسوسے اور خدشات اس سماجی اور معاشی ماحول میں فہمیدہ بھی ہیں اور جانے پہچانے بھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments