وبائی امراض، کورونا اور تعلیماتِ شریعت


کورونا وائرس کی عالمی وبا نے جہاں معاشی پہیہ جام کر رکھا ہے، وہیں اس سے روزمرہ کی زندگی بھی شدید متاثر ہوئی ہے۔ اکثر ملکوں میں لاک ڈاؤن کی کیفیت ہے، سعودی عرب، بھارت، عراق سمیت دنیا کے کئی ممالک اور شہروں میں کرفیو نافذ ہے۔ اس وقت پوری دنیا میں گھر پہ رہنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور تاحال علم نہیں کہ یہ صورتحال کب تک برقرار رہے گی۔ اگرچہ ہمارے ہاں کورونا کے حوالے سے بہت دیر بعد اس کی سنگینی کا ادراک کیا گیا مگر بیرونی دنیا بالخصوص سعودی عرب میں مقدس مقامات کو بند کرنے اور متعمرین کو مسجدِ حرام میں داخلے اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے سے روکا گیا تو پورے عالمِ اسلام میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔

مطاف کی بندش کو کسی نے اغیار کی سازش قرار دیا تو کسی نے قیامت کی نشانی۔ خلیجی ممالک کی مساجد سے جب ”حی علی الصلوٰۃ“ کی جگہ ”الا صلو فی رحالکم“ اور ”صلو فی بیوتکم“ (جہاں ہو وہیں ؍ اپنے گھروں میں نماز ادا کر لو) کے الفاظ بلند ہوئے تو سب انگشت بدنداں رہ گئے کہ اذان کے الفاظ تبدیل کر دیے گئے ہیں حالانکہ صحیحین میں متعدد احادیث موجود ہیں کہ جب بہت سردی اور تیز ہوا ہوتی تو موذن کو رسول اللہﷺ نے یہ حکم صادر فرمایا کرتے کہ لوگوں کو گھروں میں نماز پڑھنے کا کہا جائے۔

آندھی، طوفان، بارش حتیٰ کہ کیچڑ میں بھی ایسا کرنا سنتِ رسولﷺ سے ثابت ہے۔ اسلام جو دینِ فطرت ہے، زندگی کے ہر شعبے سے متعلق رہنمائی فراہم کرتا ہے اور اسی لیے دینِ مبین میں ہنگامی حالات، بیماری، سفر وغیرہ میں خصوصی رعایت دی گئی ہے، قرآن حکیم میں رمضان المبارک کے فرض روزوں سے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے ”جو تم میں سے مریض ہو یا سفر میں ہو تو وہ اور دنوں میں (روزوں کی) گنتی کو پورا کرے“ (سورۃ البقرہ: 183 ) اسی طرح حج کے حوالے سے فرمایا گیا ”اور اللہ کے لیے حج اور عمرہ پورا کرو، پس اگر روکے جاؤ تو جو قربانی سے میسر ہو (دو) ، اور اپنے سر نہ منڈواؤ جب تک کہ قربانی اپنی جگہ پر نہ پہنچ جائے، پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا اسے سر میں تکلیف ہو تو روزوں سے یا صدقہ سے یا قربانی سے فدیہ دے“ (سورۃ البقرہ: 196 )

بیماری، احتیاط اور علاج سے متعلق شریعت کی تعلیمات نہایت واضح ہیں۔ ایک دفعہ چند بدوؤں نے پوچھا کہ اللہ کے رسول! کیا ہم (بیماریوں کا) علاج کریں؟ آپؐ نے فرمایا ”ہاں، اللہ کے بندو! علاج کرو، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جو بیماری پیدا کی ہے اس کی دوا بھی ضرور پیدا کی ہے، سوائے ایک بیماری کے۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ کون سی بیماری ہے؟ آپؐ نے فرمایا: بڑھاپا۔ (سنن ترمذی: 2038، ابن ماجہ: 3436، صحیح للبانی)

شریعتِ اسلامیہ میں احتیاط کے ساتھ ساتھ مختلف علاج بھی بتائے گئے ہیں، شہد کے بارے میں ارشادِ ربانی ہے کہ ”ان (شہد کی مکھیوں ) کے پیٹ سے پینے کی چیز نکلتی ہے جس کے رنگ مختلف ہیں اس میں لوگوں کے لیے شفا ہے، بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانی ہے جو غور و فکر کرتے ہیں۔ (سورۃ النحل: 69 ) حدیث شریف میں کلونجی سے متعلق فرمایا گیا“ ان سیاہ دانوں میں ہر بیماری سے شفا ہے، سوائے سام (موت) کے ”۔ (صحیح بخاری: 5688 ) علاج کرنا سنتِ رسولﷺ بھی ہے۔ غزوہ احد میں رسول اللہﷺ کو لگنے والے زخموں میں بوریا جلا کر اس کی راکھ بھری گئی تھی۔ (صحیح بخاری: 3037 )

اسی طرح شریعت مطہرہ میں وبائی امراض سے متعلق بھی مکمل رہنمائی کی گئی ہے۔ صحابہ کرامؓ سے بیعت کے ضمن میں حضرت شریدؓ بن سوید ثقفی سے روایت ہے کہ ثقیف کے وفد (جو نبی کریمؐ سے بیعت کے لیے حاضرِ خدمت ہوا تھا) میں ایک جذامی شخص تھا، نبی اکرمﷺ نے اسے کہلا بھیجا کہ تم لوٹ جاؤ، ہم نے تمہاری بیعت لے لی۔ (سنن ابن ماجہ، حدیث: 3544، صحیح للبانی) اسی طرح فرمایا ”جذامیوں (کوڑھیوں ) کی طرف لگاتار مت دیکھو“۔ (سنن ابن ماجہ: 3543، صحیح للبانی) یہ بھی حکم ہے کہ بیمار اونٹ کو تندرست اونٹ کے پاس نہ لایا جائے (تاکہ بیماری اس میں منتقل نہ ہو سکے ) (صحیح مسلم: 5791 )

ہمارے ہاں بعض لوگوں نے سوشل میڈیا پر ایک حدیث شریف کو سیاق و سباق سے ہٹ کر شیئر کیا جس سے یہ ابہام پیدا ہوا کہ غالباً شریعت میں وبائی امراض سے احتیاط کی نفی کی گئی ہے۔ جو حدیث شیئر کی گئی وہ تھی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ چھوت لگنا کچھ نہیں۔ حالانکہ مکمل حدیث ہے کہ چھوت لگنا، بدشگونی لینا، الو کا منحوس ہونا اور صفر کا (مہینہ) منحوس ہونا، یہ سب لغو خیالات ہیں البتہ جذامی شخص سے ایسے بھاگو جیسے شیر سے۔

(صحیح بخاری: 5707 ) یعنی جو لوگوں میں مشہور تھا کہ ہر بیماری حتیٰ کہ بخار بھی ایک شخص سے دوسرے کو لگ جاتا ہے، اس کی نفی کی گئی اور ساتھ ہی یہ تاکید بھی کی گئی کہ جو حقیقی وبائی امراض ہوں جیسے طاعون یا کوڑھ، ان سے ایسے ہی دور بھاگو جیسے شیر کو دیکھ کر بھاگتے ہو۔ اس لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا نہ صرف سنت ِ رسولﷺ کی پیروی ہے بلکہ شریعت کے احکام کے عین مطابق ہے۔ گزشتہ دنوں امامِ کعبہ شیخ عبدالرحمٰن السدیس نے مسجد الحرام میں جو درس دیا، اس میں بھی مذکورہ حدیث شریف کی تشریح کی گئی تاکہ لوگ حدیث کو پورے مفہوم کے ساتھ سمجھ سکیں۔

اسی طرح حضرت عمرؓ بن خطاب سے متعلق ایک طویل واقعہ کتبِ احادیث میں مذکور ہے کہ آپؓ شام جا رہے تھے کہ راستے میں آپ کو خبر ملی کہ شام میں طاعون کی وبا پھوٹ پڑی ہے، آپؓ نے مہاجرین، انصار، قریش کے بڑے بوڑھوں ’سب کو علیحدہ علیحدہ بلایا اور ان سے رائے لی، کچھ کا خیال تھا کہ ہمیں آگے جانا چاہیے اور اس وبا سے ڈرنا نہیں چاہیے کہ موت تو کہیں بھی آ سکتی ہے۔ کچھ احتیاط کے تقاضوں کے تحت واپسی کا سفر اختیار کرنے کے حامی تھی۔

اتنے میں حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف آ گئے، انہوں نے بتایا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے کہ جب تم کسی سرزمین میں (کسی وبا سے متعلق) سنو تو وہاں نہ جاؤ اور جب ایسی جگہ وبا آ جائے جہاں تم خود موجود ہو تو وہاں سے مت نکلو۔ اس پر حضرت عمرؓ نے شام جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور واپسی کی راہ اختیار کی۔ (صحیح بخاری: 5729 )

شریعت میں بیماری کے علاج کے لیے اسباب پر ہی زور دیا گیا ہے، اسی لیے فرمایا گیا ”نظر بد اور زہریلے جانور کے کاٹ کھانے کے سوا اور کسی چیز پر جھاڑ پھونک صحیح نہیں“۔ (صحیح بخاری: 5705 )

جہاں تک وبائی امراض کا تعلق ہے تو بلاشبہ ان کی کثرت قربِ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے۔ سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”چھ چیزوں کے ظاہر ہونے سے پہلے نیک اعمال میں جلدی کرو، سورج کا مغرب سے نکلنا، دھواں، دابۃ الارض، دجال، ہر شخص کی خاص آفت (یعنی موت) اور عام آفت (وبائی امراض) “۔ (سنن ابن ماجہ : 4056، سلسلہ احادیث صحیحہ: 759 ) وبا سے متعلق شریعتِ اسلامیہ میں جہاں دیگر بہت سی رہنمائی فراہم کی گئی ہے وہیں کھانے پینے کی چیزوں کو ڈھکنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ”برتن ڈھانپ دو اور مشک بند کر دو۔ اس لیے کہ سال میں ایک رات ایسی ہوتی ہے جس میں وبا اترتی ہے، پھر وہ وبا جو برتن یا مشک کھلی پاتی ہے، اس میں سما جاتی ہے“۔ (صحیح مسلم: 5255 )

ایک دفعہ اللہ کے رسولﷺ سے طاعون کے متعلق سوال ہوا تو آپؐ نے فرمایا کہ یہ عذاب تھا اور اللہ جس پر چاہتا تھا، اسے بھیجتا تھا۔ پھر اللہ نے اسے مومنوں کے لیے رحمت بنا دیا، کوئی بھی بندہ اگر کسی ایسے شہر میں ہے جس میں طاعون کی وبا پھوٹی ہوئی ہے اور اس میں ٹھہرا ہے اور اس شہر سے بھاگا نہیں، صبر کیے ہوئے ہے اور اس پر اجر کا امیدوار ہے اور یقین رکھتا ہے کہ اس تک صرف وہی چیز پہنچ سکتی ہے جو اللہ نے اس کی تقدیر میں لکھ دی ہے (یعنی موت) تو اسے شہید کے برابر ثواب ملے گا۔ (صحیح البخاری: 6619 ) اس حدیث شریف کی تشریح میں علما کرام کا یہ اتفاق ہے کہ یہاں طاعون سے مراد تمام اقسام کے وبائی امراض ہیں۔

اسی طرح ایک حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہﷺ نے صحابہ کرامؓ سے استفسار فرمایا کہ تم شہید کسے سمجھتے ہو۔ صحابہ کرام نے جواب دیا: جو اللہ کی راہ میں مارا جائے، وہ شہید ہے۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: پھر تو میری امت میں بہت کم شہید ہوں گے۔ لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! پھر شہید کون ہیں؟ آپؐ نے فرمایا ”جو اللہ کی راہ میں مارا جائے وہ شہید ہے، جو اللہ کی راہ میں (مثلاً حج یا کسی نیک کام کے لیے نکلے مگر تکمیل سے قبل ہی) مر جائے وہ بھی شہید ہے، جو طاعون (وبائی امراض) میں مرے وہ بھی شہید ہے، جو پیٹ کے عارضے سے مرے وہ بھی شہید ہے، جو ڈوب کر مرے وہ بھی شہید ہے“۔ (صحیح مسلم: 4941 )

شریعت مطہرہ کی ان تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر ممکن حد تک وبائی امراض سے اجتناب کیا جائے، بیمار افراد سے دور رہا جائے، اگر بیماری ہمارے علاقے یا ہمیں اپنی لپیٹ میں لے لے تو گھبرانے کے بجائے اس پر صبر کرنا چاہیے اور اپنی پوری توجہ علاج پر مرکوز کرنی چاہیے۔ البتہ توکل صرف اور صرف اللہ کی ذات پر کرنا چاہیے لیکن علاج میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھنی چاہیے۔ اس حوالے سے مکمل احتیاط بھی کرنی چاہیے اور لوگوں سے میل جول بھی تب تک کے لیے ترک کر دینا چاہیے جب تک ان کو بھی مرض منتقل ہونے کا خدشہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments