ویکسین کا رونا، کورونا اور ذرا سا کینہ


نیوزی لینڈ کے قریب واقع ایک چھوٹے سے ملک سموآ میں دسمبر 2019 میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جب بچوں میں ویکسینیشن نہ کرائے جانے کی وجہ سے 50 سے زائد بچوں کی موت واقع ہو گئی۔ تحقیقات کرنے پر پتہ چلا کہ والدین میں ویکسنیشن کے حوالے سے خوف پیدا کرنے کا ذمہ دارایک امریکی ایڈووکیسی گروپ ”چلڈرن ہیلتھ ڈیفنس“ تھا جس کے فیس بک پیج سے مسلسل خسرے کی ویکسین ”ایم ایم آر“ کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا گیا تھا۔ یہ ایڈووکیسی گروپ ایک اینٹی ویکسین گروپ ہے جو ویکسین کو صحت کے لئے مضر قرار دیتا ہے۔

اس سے دو باتیں پتہ چلتی ہیں پہلی ویکسین کے خلاف پروپیگنڈہ کتنا خطرناک ہو سکتا ہے دوسرا یہ کہ ترقی پذیر ممالک کے ہم خیال لوگ یہ دلیل دیتے ہیں کہ دیکھیں آخر کوئی تو بات ہو گی کہ امریکہ جیسے ملک میں موجود لوگ ویکسین کے خلاف تحریک چلائے ہوئے ہیں۔ ملک عزیز پاکستان میں بھی ویکسینز کے خلاف بھرپور تحریک چل رہی ہے جس کے سر خیل تو طالبان جیسے شدت پسند لوگ ہیں مگر اسے عوامی سطح پر حمایت بھی ملتی ہے جس کی سب سے بڑی مثال پولیو کے خلاف مہم میں ناکام ہونا ہے۔

سب سے قریب ترین مثال کورونا وائرس کی ہے۔ پہلے یار لوگوں نے اسے امریکہ کی سازش قرار دیا پھر جب چین نے اس پر قابو پانے کا اعلان کیا تو لوگوں نے کہا بات تو اب سمجھ میں آئی ہے۔ یہ وائرس دراصل چین نے پھیلایا تھا اب اس کے حریف ممالک اس وباء کا شکار ہیں اور چین انہیں ادویات اور دیگر سامان بیچ کر زر مبادلہ بھی کمائے گا اور دشمن ممالک کی اکانومی بھی تباہ کر دے گا۔ پاکستان میں اس وقت اس وباء کے حوالے سے چہ مگوئیاں جاری ہیں، اگر کسی کی بات کوئی نہیں سن رہا تو وہ ہیں ڈاکٹرز اور سائنس دان۔ اس کے علاوہ مولوی سی لے کر منسٹر تک اور حکیم سے لے کر عامل بابا تک سب کے منہ سے گل افشانیاں جاری ہیں اور سب غور سے سن بھی رہے ہیں۔

بھلا ہو کورونا کا کہ کافی عرصے سے اینٹی ویکسین دلائل سننے کو نہیں مل رہے، شاید ان لوگوں کا اینٹی سائنس رویے پہ ایمان متزلذل ہو گیا ہے اب ساری دنیا خوف کے سائے تلے ہر وقت ویکسین بننے کے بارے میں ہی متفکر رہتی ہے امید ہے یہ لوگ بعد میں بھی اپنی اس کیفیت کو یاد رکھیں گے۔

میں جب پاکستان انڈیا اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے لوگوں کے رویے دیکھتا ہوں تو بے اختیا ر یہ سوچنے پہ مجبور ہوجاتا ہوں کہ جو رویے یہ آج اختیا ر کیے ہوئے ہیں وہی رویے آج سے لاکھوں سال قبل کا چمپینزی نما انسان اختیار کیے ہوئے تھا جو فطرت کی طاقتوں کے ہاتھوں بے بس تھا اس میں اور آج کے ان انسانوں میں بھلا کیا فرق رہ گیا ہوگا۔ کسی آفت یا پریشانی میں جیسے وہ منہ پھاڑے آسمان کی طرف دیکھتا رہتا تھا یہ بھی عین اسی طرح بے بس اور لا چار ہیں۔

کاش لوگ سائنس کو جانیں اور اس سے محبت کریں اور اسے انسانیت کی خدمت کے لئے استعمال کریں۔ کاش نظریہ ارتقاء کو سمجھیں اور عقلی بنیا د پہ اسے قبول کریں تاکہ انسان اپنے بہت سے مسائل کا حل تلاش کر سکے۔ اور ہمارے دل میں سا ئنس کے حوالے سے جو کینہ موجود ہے اسے نکال باہر کریں۔ اگر انسان اپنے دلوں میں موجود ذرا سا کینہ باہر نکال کر سائنس کے فائدوں کو مانتے ہوئے ہر ویکسین کاخیر مقدم کرے تو امید ہے انسان اور انسانیت دونوں محفوظ رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments