تبلیغی جماعت کی حمایت میں چوہدری پرویز الہٰی کا دندناتا بیان اور کچھ ملحقہ قصے


ملک میں جنرل پرویز مشرف کا اقتدار بھی عروج پر تھا اور ”وار آن ٹیرر“ یعنی افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف نیٹو فورسز کی جنگ بھی، اور دونوں چیزیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں کہ اس جنگ میں پڑوسی ملک پاکستان کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کے لئے امریکہ کو ایک باوردی آرمی چیف ڈکٹیٹر کی صورت میں فرد واحد کی حکومت ہی suit کرتی تھی جبکہ چور دروازے سے اقتدار پر قابض ہونے والا آمر کسی بھی قیمت پر امریکہ جیسی واحد سوپر پاور کی حمایت کا محتاج تھا۔

پنجاب پر ”کنگز پارٹی“ سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی کا راج تھا کہ انہی دنوں افغانستان میں طالبان نے ایک امریکی فوجی ہیلی کاپٹر مار گرایا۔ جب امریکی فوجی ملبہ اٹھانے ”جائے وقوعہ“ پر پہنچے تو تباہ شدہ ہیلی کاپٹر کا کیمرہ ابھی تک درست حالت میں تھا اور کام کر رہا تھا۔ کیمرے کی ریکارڈنگ میں ہیلی کاپٹر زمین بوس ہونے کے بعد ایک طالب ہیلی کاپٹر کے پاس کھڑا اس پر نفرت سے تھوک رہا تھا۔

امریکی فوجیوں نے اس واضح فوٹیج کی مدد سے کسی نہ کسی طرح اس طالب جنگجو کو ڈھونڈ نکالا جس نے دوران تفتیش یہ بھی انکشاف کیا کہ افغان طالبان کے روپوشی کے ٹھکانے پنجاب کے شہر گجرات میں بھی ہیں اور انہیں وہاں کرائے پر مکان لے کر دینے میں چیف منسٹر کے چھوٹے صاحب زادے راسخ الٰہی کی بھر پور مدد اور ”تعاون“ حاصلِ رہا ہے۔

ذرائع کے مطابق یہ اس قدر سنگین معاملہ تھا کہ خدشہ تھا کہ ایف بی آئی ایک ”حاضر سروس“ وزیر اعلیٰ کو نہیں تو کم از کم ان کے صاحبزادے کو اٹھا کر امریکہ یا گوانتا نامو بے کے کیمپ لے جا سکتی ہے۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھاگم بھاگ خاموشی سے واشنگٹن پہنچے اور بتایا جاتا ہے کہ وہا‍ں ہفتہ بھر قیام کے باوجود امریکی حکام سے ملاقات کا وقت (appointment) تک حاصل نہ کرپائے بلکہ انہیں کہہ دیا گیا کہ واپس جا کر پاکستان میں متعین امریکی سفیر کے ذریعے یہ کوشش کریں۔

اس وقت چوہدری برادران بڑی مشکل میں تھے کہ انہی دنوں چوہدری شجاعت حسین کے ایک صاحب زادے کا لاہور کینٹ کے علاقے میں غالباً خاتون اول صہبا مشرف کے بھانجے کی گاڑی سے گاڑی ٹکرا جانے کا ”سانحہ“ پیش آ گیا تھا اور ایوان صدر بھی چوہدریوں کی بات سننے کو تیار نہ تھا کہ گاڑی کی ٹکر دراصل چوہدراہٹ کے ٹکراؤ کا شاخسانہ تھا۔

یہ واقعہ مجھے کرونا وائرس کے حوالے سے سپیکر پنجاب اسمبلی کے تبلیغی جماعت کی حمایت میں دھڑلے سے سامنے آجانے کے حوالے سے حالیہ بیان سے یاد آیا۔ اس دور میں تخت لاہور پر چونکہ چوہدری پرویز الٰہی براجمان تھے اس لئے ایشیا کا سب سے بڑا ہسپتال کہلوانے والے لاہور کے میو ہسپتال کو بطور ایم ایس ایک جونیئر اور خاصے نااہل ڈاکٹر کے حوالے کردیا گیا تھا، محض اس لئے کہ یہ باریش جونیئر اور نااہل  ڈاکٹر وزیر اعلیٰ کے چھوٹے باریش صاحب زادے کا ”پیر بھائی“ تھا مطلب۔ دونوں ”خیر المدارس“ ملتان کے مہتمم اور وفاق المدارس العربیہ کے روح رواں قاری حنیف جالندھری کے شاگرد تھے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب کے چھوٹے صاحبزادے جنہوں نے نوعمری ہی میں پوری داڑھی رکھ لی تھی، اگرچہ شروع ہی سے ”غیر سیاسی“ شخصیت تھے البتہ مذہبی بنیادوں پر اپنے ہم خیال دوستوں کو اچھی پوسٹنگز ضرور دلاتے رہتے تھے، جو کہ سیاسی بنیادوں پر بھرتی یا تعیناتی ہی کا پہلا قدم ہے۔

خود چوہدری برادران بھی بھرپور دنیا داری کے ساتھ ساتھ دینی حلقوں سے قریبی تعلق رکھتے ہیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ دینی حلقے، بالخصُوص دیو بندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے دینی حلقے اسی طرح ان کا حلقہ انتخاب ہیں جس طرح تاجروں کو شریف فیملی کا حلقہ انتخاب مانا جاتا ہے۔ بڑے چوہدری صاحب نے تو جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں آخری وقت تک جامعہ حفصہ کے خلاف ملٹری آپریشن رکوانے کی کوشش بھی کی تھی۔

لہٰذا کرونا وائرس کے حوالے سے صورتحال کی سنگینی، معاملے کی نزاکت اور عقل و شعور کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ”چھوٹے“ چوہدری کا تبلیغی جماعت کی حمایت میں میدان میں آجانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں، البتّہ تشویش کی بات ضرور ہے کہ ایک اعلیٰ سطحی انٹیلیجنس رپورٹ کے مطابق تبلیغی مرکز سے مجموعی طور پر 41 ہزار افراد کو ملک بھر میں تبلیغ کے لئے روانہ کیا گیا تھا۔ 8 / 8 افراد کی جماعت کی صورت میں روانہ کی جانے والی تبلیغی ٹولیوں کے 8 ہزار ارکان پنجاب میں بھیجے گئے جنہیں انتظامیہ تلاش کرتی پھر رہی ہے، حالانکہ باور کیا جاتا ہے کہ تبلیغ پر روانہ ہونے والی ہر جماعت کے امیر کا فون نمبر تبلیغی جماعت کے مرکزی امیر کے پاس ہے جو کرونا وائرس سے پیدا شدہ سنگین ایمرجینسی کی صورتحال میں ہر جماعت کو واپس بلا سکتے ہیں۔

انٹیلیجنس رپورٹ کے مطابق تبلیغی جماعت کے جن ارکان کو انتظامیہ ”قابو“ کر کے قرنطینہ میں رکھ پائی ہے، ان میں سے بیشتر کے ٹیسٹ پازیٹو آئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments