انڈیا میں کورونا وائرس کی پہلی ٹیسٹنگ کٹ بنانے والی خاتون


انڈیا کو کورونا وائرس پھیلنے کے بعد مناسب ٹیسٹنگ نہ کرنے اور لوگوں کا مکمل ریکارڈ نہ رکھنے کی وجہ سے تنقید کا سامنا ہے۔ لیکن یہ بدل سکتا ہے اور اس کے پیچھے ایک ایسی وائرالوجسٹ کی کوششیں سرفہرست ہیں جنھوں نے ملک کی پہلی ٹیسٹنگ کٹ بنائی ہے۔

انھوں نے اپنے بچے کی پیدائش سے صرف چند گھنٹے قبل یہ ٹیسٹنگ کٹ بھجوا دی تھی۔

جمعرات کو انڈیا نے کورونا وائرس کی تشخیص کرنے والی پہلی ٹیسٹنگ کٹ متعارف کرائی۔ اس سے یہ امید ظاہر کی جا رہی ہے کہ مزید ایسے لوگ، جن میں فلو کی علامات ظاہر ہو رہی ہیں، میں کووڈ19 کے انفیکشن کے ٹیسٹ مثبت یا منفی آ سکیں گے۔

مغربی شہر پونے میں واقع مائی لیب ڈسکوری وہ پہلی انڈین کمپنی ہے جسے ٹیسٹنگ کٹس بنانے اور بیچنے کی مکمل منظوری مل چکی ہے۔ اس نے رواں ہفتے پونے، ممبئی، گووا اور بنگلور کی لیبز میں 150 ٹیسٹنگ کٹس کا پہلا آرڈر بھیجا دیا ہے۔

اسی حوالے سے مزید پڑھیے

’انڈیا کو کورونا وائرس کی سونامی کے لیے تیار رہنا چاہیے‘

کورونا: انڈین پنجاب میں کورونا کا ’سپر سپریڈر‘ کون تھا؟

کیا بھیلواڑہ ’انڈیا کا اٹلی‘ ثابت ہو گا؟

مائی لیب میں طبی امور کے ڈائریکٹر گوتم وانکھیڑے نے کہا ہے کہ ٹیسٹنگ کٹس بنانے کا یونٹ ہفتے بھر چلتا رہے گا اور وہ اگلا آرڈر پیر کو بھجوا دیا جائے گا۔

یہ کمپنی ایچ آئی وی، ہیپاٹائٹس بی اور سی سمیت دوسری بیماریوں کی ٹیسٹنگ کٹس بھی بناتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک ہفتے میں ایک لاکھ ٹیسٹنگ کٹس بنا سکتے ہیں اور ضرورت پڑی تو اس کی تعداد دو لاکھ پر بھی لے جاسکتے ہیں۔

مائی لیب کی ہر کٹ 100 نمونوں کی جانچ کر سکتی ہے اور اس کی قیمت 16 ڈالرز یا 1200 انڈین روپے ہے۔ انڈیا کووڈ 19 کی درآمد شدہ کٹ 4500 میں خریدتا ہے۔

مائی لیب وائرالوجسٹ منال دکھاوے بھوسلے کہتی ہیں کہ یہ کٹ ڈھائی گھنٹے میں کورونا وائرس کی تشخیص کر لیتی ہے جبکہ درآمد شدہ کٹ کو اس عمل میں چھ سے سات گھنٹے لگتے ہیں۔

انھوں نے اس ٹیم کی سربراہی کی جس نے پیتھو ڈیٹیکٹ نامی کورونا ٹیسٹنگ کٹ بنائی۔ وہ کہتی ہیں کہ کام ریکارڈ چھ ہفتوں میں مکمل کیا گیا جبکہ عام طور پر اس میں تین سے چار ماہ لگ جاتے ہیں۔

یہ وہی سائنس دان ہیں جو خود کی بھی ایک ڈین لائن کا مقابلہ کر رہی تھیں۔ گذشتہ ہفتے ان کی بیٹی کی پیدائش ہوئی۔ انھوں نے فروری میں اس پروگرام میں کام شروع کیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب وہ حاملہ میں پیچیدگی کے بعد ہسپتال سے نکلی تھیں۔

انڈیا

وہ کہتی ہیں کہ یہ ان کے لیے ایک ایمرجنسی تھی اور انھوں نے یہ چیلینج قبول کیا تاکہ قوم کی خدمت کر سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 10 افراد کی اس ٹیم نے بہت محنت کی ہے تاکہ پراجیکٹ کو کامیابی بنایا جا سکے۔

آخر میں انھوں وائرالوجی کے قومی ادارے میں جانچ کے لیے اپنی کٹ 18 مارچ کو جمع کرائی۔ یہ ان کی بیٹی کی پیدائش سے صرف ایک دن پہلا ہوا۔

اسی شام اپنے سیزیرہئن آپریشن کے لیے ہسپتال جانے سے قبل انہوں نے انڈیا کے فوڈ اینڈ ڈرگز ایڈمنسٹریشن ادارے اور ڈرگز کنٹرول اٹھارٹی سی ڈی ایس سی او کے پاس کٹ سے متعلق تجویز بھیج دی۔

ڈاکٹر وانکھیڑے نے بتایا ‘ہماری وقت کے ساتھ جنگ تھی۔ ہماری ساکھ خطرے میں تھی۔ پہلی ہی مرتبہ سب کچھ صحیح ہونا تھا اور مینل اس مہم کی اگوائی کر رہی تھی۔’

ٹیسٹ کٹ کو تجزیے کے لیے جمع کرنے سے قبل اسے تمام معیاروں پر ٹیسٹ کرنا اور یہ یقینی بنانا ضروری تھا کہ کٹ کی کارکردگی اور نتائج درست ہیں۔

بھوسلے نے بتایا ‘ہم نے ایک ہی نمونے پر دس ٹیسٹ کیے۔ ضروری تھا کہ سبھی دس نتائج ایک جیسے ہوں۔ ایس اہی ہوا۔ ہماری کٹ صحیح طریقے سے کام کر رہی تھی۔’

سرکاری تنظیم انڈین کونسل فار میڈیکل ریسرچ کے زیر نگرانی کام کرنے والے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف وائیرالوجی نے کہا کہ ‘مائی لیب’ واحد ایسی کمپنی ہے جس کے نتائج سو فیصد درست ہیں۔

انڈین صحت کے نظام کی خرابیوں کو دور کرنے کی ضرورت

انڈیا میں بڑی تعداد میں ٹیسٹ نہ کیے جانے کی دنیا بھر میں مذمت ہو رہی ہے۔ دنیا میں سب سے سست رفتار سے انڈیا میں ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔ اگر کل آباری کے اعتبار سے دیکھا جائے تو دس لاکھ افراد میں صرف چھ اشاریہ آٹھ کے ٹیسٹ۔

ابتدائی دنوں میں انڈیا میں صرف ان لوگوں کے ٹیست کیے جانے پر زور تھا جو کورونا وائرس کے خطرے سے متاثرہ کسی بیرونے ملک سفر کر کے واپس لوٹ رہے تھے یا کسی متاثرہ شخص سے بابطے میں آئے ہوں۔ یا پھر ایسے افراد کے ٹیسٹ جو کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کے علاج میں شریک ہوں۔ بعد میں کہا گیا کہ سانس کے مسائل میں مبتلہ ہسپتال لائے جانے والے افارد کے بھی ٹیسٹ کیے جانے چاہئیں۔

تاہم روز مرہ کی بنیاد پر متاثرین کی تعداد میں ہونے والے معاملوں کی روشنی میں متاثرین کی تعداد میں زبردست اضافہ متوقع ہے۔

بعد میں ٹیسٹنگ کو بڑھانے کا اعلان کیا گیا۔ ابتدائی دنوں میں صرف سرکاری لیبز کو ہی کورونا وائرس کے ٹیسٹ کرنے کی اجازت تھی۔ اب چند نجی لیبز کو بھی ٹیسٹ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔

جمعرات کو پندرہ نجی کمنیوں کو ڈائگنوسٹک کٹ کی فروخت کی اجازت دے دی گئی۔ ان کمپنیوں کو یہ اختیار امریکہ، یوروپی یونین اور چند دیگر ممالک سے حاصل لائسینس کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔

ڈاکٹر وانکھیڑے نے بتایا کہ ٹیست کٹ بیچنے والوں اور لیبز میں ہونے والی جانچ کی بنیاد پر انڈیا میں سامنے آنے والے کورونا وائرس کے معماملوں کی تعداد میں بہت تیزی سے اضافہ ہونے جا رہا ہے۔

زیادہ ٹیسٹنگ بہتر ہے۔ تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا وائرس سے معثر انداز میں لڑنے کے لیے انڈیا کے صحت کے نظام میں موجود خرابیوں کو دور کیا جانا بہت ضروری ہے۔

انڈیا

سابق وفاقی سیکریٹری صحت سوجاتا راوٴ سوال کرتی ہیں کہ ‘جنوبی کوریا جو کہ اتنا چھوٹا سا ملک ہے، وہاں ساڑھے چھ سو لیبز میں ٹیسٹنگ جاری ہے۔ ہمارے پاس کتنی لیبز ہیں؟’

انڈیا کے پاس صرف ایک سو اٹھارہ سرکاری لیبز ہیں اور اہلکاروں کے مطابق ٹیسٹنگ کے لیے پچاس نجی لیبز کو شامل کیا جانا ہے۔

انڈیا جیسے ملک کے لیے یہ تعداد بہت کم ہے جہاں کی آبادی ایک ارب تیس کروڑ ہے۔

سوجاتا راوٴ کا کہنا ہے کہ ‘انڈیا کو بہت سی مزید لیبز کی تشخیص کرنی ہوگی۔ پھر وہاں ٹیسٹ کٹس پہنچانی ہوں گی اور ٹیکنیشینز کو بھی تربیت دینی ہوگی۔ اور اس ڈانچے کو ترتیب دینے میں وقت لگے گا۔’

ایک بار جب نتائج سامنے آنے شروع ہو جائیں گے، اور بڑی تعداد میں متاثرین سمانے آنے لگٰں گے، تو ہسپتالوں کی ضرورت ہوگی۔ انڈیا کے لیے اس ممکنہ بحران سے نمٹنا مشکل ثابت ہونے والا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ‘اس ملک کے صحت کے نظام کے بارے میں آپ کو کتنا پتا ہے؟ زیادہ تر ہسپتال شہری علاقوں میں موجود ہیں، دیہی علاقوں میں بہت کم انتظامات ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا چیلنج ثابت ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32289 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp