کورونا وائرس: لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والے مزدور وزیر اعظم کی جانب سے امدادا ی پیکیج کی رقم سے ناخوش


مزدور

’میں فرنیچر کے کارخانے میں کام کرتا تھا۔ لاک ڈاؤن ہوا تو کارخانہ بند ہو گیا۔ اب دو ہفتے ہو گئے کوئی کام نہیں ملا۔ چار دن سے یہاں بچوں کے ساتھ سڑک پر بیٹھا ہوں کہ کوئی مزدوری مل جائے یا کوئی مدد کر دے۔‘ یہ محمد شعیب ہیں جو بی بی سی کو اپنے حالات بتا رہے تھے۔

وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے تقریبا سبھی شہروں میں بند دکانوں اور کارخانوں کے ساتھ ساتھ ایک اور منظر مشترک ہے، اور وہ سڑک کنارے بیٹھے دیہاڑی دار مزدور۔ انھیں روزی کی تلاش ہے اور فی الحال وہ بند ہے۔

ان میں سے کئی مزدور پہلے بھی اسی طرح گاہک کے انتظار میں بیٹھتے مگر عام طور پر صبح سویرے ہی انھیں کام مل جاتا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

’پاکستان کو بڑے پیمانے پر ٹیسٹنگ کرنے کی ضرورت ہے‘

کورونا: پاکستان میں کیا صنعتی اداروں کے علاوہ مزدوروں کو بچانے کی بھی ضرورت ہے؟

’قومی سلامتی کا مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا تو فوری لاک ڈاؤن ہو جاتا‘

’کس کو شوق ہے مرنے کا، بچوں کے دودھ کے لیے نکلنا پڑتا ہے‘

’آج چار دن ہو گئے کوئی کام نہیں ملا۔ آج ایک بھلا آدمی آیا اور مجھے پانچ سو روپے دے گیا ہے کہ بچوں کے لیے دو دن کی روٹی لے سکوں۔‘

محمد شعیب جب یہ بات کر رہے تھے تو ان کے چار بچے بھی ان کے ارد گرد جمع ہو چکے تھے اور ان کی اہلیہ ان بچوں کو واپس اس جگہ جانے کو کہہ رہی تھیں جہاں ٹریفک سگنل پر انھیں مزدوری یا مدد کی امید تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ پانچ سو روپے میں وہ کوشش کریں گے کہ تین دن گزر سکیں۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پچپن ملین افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، جبکہ بیس فیصد اس خطِ غربت سے کچھ اوپر، ایسے میں لاک ڈاؤن نے پہلے سے مشکل کا شکار ان شہریوں کو شدید متاثر کیا ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ایسے مزدور اور غریب طبقے کے لیے ایک ریلیف پیکج کا اعلان کیا ہے۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم عمران خان مکمل لاک ڈاؤن کی مخالفت کرتے رہے ہیں اور اس کی وجہ وہ مزدور پیشہ طبقے کی مشکلات میں اضافے کا خطرہ بتاتے رہے ہیں۔

اسلام آباد

اسلام آباد کی پناہ گاہوں کے باہر اب ان مزدوروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو کھانا کھانے آتے ہیں، اسسٹنٹ کمشنر

حالیہ ہفتے سرکاری ٹی وی پر اپنے خطاب میں وزیر اعظم نے کہا کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ریلیف پیکج ہے۔

اس پیکج سے ملک کے دس ملین افراد مستفید ہوں گے۔ مزدور افراد کو فی خاندان چار ماہ کے لیے بارہ ہزار کی رقم یکمشت ادا کی جائے گی۔ یعنی ایک ماہ کے لیے صرف تین ہزار روپے۔

پاکستان میں کسی بھی پیشے سے منسلک افراد کی کم سے کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے مقرر ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پانچ افراد پر مشتمل ایک خاندان کو ایک ماہ کے صرف بنیادی راشن کے لیے اس رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔

پھر ایسی صورت میں کیا یہ ممکن ہے کہ تین ہزار میں گزارا کیا جا سکے؟

اسلام آباد کے اسسٹنٹ کمشنر گوہر وزیر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ یہ رقم کم ہے مگر وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ موجودہ مشکل حالات اور کورونا جیسی وبا کے دوران یہ کوشش قابلِ ستائش بھی ہے۔

اسسٹنٹ کمشنر گوہر وزیر

اسسٹنٹ کمشنر گوہر وزیر

’کچھ نہ ہونے سے کچھ مدد ہو جانا بہتر ہے۔ ہم ایک مشکل وقت سے گزر رہے ہیں۔ جو ہمارے وسائل ہیں اور جو وبا ہے اس میں بھی میرے خیال میں یہ ہماری پہلی حکومت ہے جو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اس غریب طبقے تک پہنچ رہی ہے۔ ہمارا احساس اور کفالت پروگرام اور راشن پیکجز اس رقم کے ساتھ ساتھ جاری ہیں۔ اور امید ہے کہ لاک ڈاؤن جاری رہنے کی صورت میں امداد میں اضافہ بھی ہوگا۔‘

لیکن ان سب باتوں کے باوجود عبدالستار جیسے کئی مزدور پریشانی کا شکار ہیں۔ ضلع مہمند سے تعلق رکھنے والے عبدالستار کے پاس اتنی رقم نہیں کہ اب وہ گھر خرچہ بھیج سکیں۔

’بس اللہ کا ہی آسرا ہے، کام تو نہیں ہے۔ ہم وزیر اعظم کے شکرگزار ہیں کہ اس مدد کا اعلان کیا، لیکن تین ہزار روپے میں کیسے گزارا ہوگا؟ کھانا چھوڑ بھی دیں تو غریب ترین مزدور بھی صبح ناشتہ اور دن میں ایک بار چائے کی پیالی پیتا ہے، سو، ڈیڑھ سو روپے تو یہیں پورے ہو جائیں گے۔ پھر تین ہزار میں ایک مہینہ کوئی خاندان کیسے گزارے گا؟ یہ رقم بہت کم ہے۔‘

محنت کش عبدالستار کہتے ہیں کہ انہیں یہ خبر نہیں کہ یہ رقم کب، کہاں اور کیسے ملےگی۔

بھکاریوں

دوسری جانب انہی دیہاڑی ڈھونڈنے والوں کے پاس اب کئی بھکاریوں کے بھی ڈیرے ہیں جو مزدور کے روپ میں گاڑیوں پر لپکتے ہیں اور پیسے مانگتے ہیں۔

تاہم گوہر وزیر نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے غریب افراد کے لیے پہلے سے جاری احساس اور کفالت پروگرام میں رجسٹر شدہ افراد کے ساتھ ساتھ اب پینتیس لاکھ ان مزدوروں کی فہرستیں مرتب کی جائیں گی، جس کے بعد نادرا کے ذریعے انہیں رقوم کی منتقلی کا مرحلہ طے کیا جائے گا۔

’ضلعی سطح پر سرکاری حکام (ڈپٹی اور اسسٹنٹ کمشنرز) کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ اپنے اپنے علاقے میں مستحق افراد کی فہرستیں تیار کریں۔‘

حکام کے مطابق مستحق افراد کو ان افسران کے دفاتر میں درخواستیں جمع کرانا ہوں گی جس کے بعد پراسسنگ کا آغاز ہوگا۔

وہ کہتے ہیں کہ اس تمام عمل میں مزید دو ہفتے لگ جائیں گے۔

تب تک یہ مزدور پیشہ افراد کیا کریں گے، اس کا جواب فی الحال نہیں۔

محمد شعیب نے بتایا کہ وہ اسلام آباد کی کچی آبادی میں مقیم ہیں اور دو دن پہلے انھوں نے پولیس سے پوچھا کہ یہ رقم کیسے ملے گی؟

’چوکی والوں نے بتایا کہ تھانے جاؤ اور وہاں شناختی کارڈ کی کاپی دے کر آؤ، وہاں گئے تو انھوں نے ایک ڈیرے پر بھیج دیا۔ ڈیرے پر پہنچے تو پتا چلا یہاں صرف مسلم لیگ ن والوں کو ملے گا، واپس پولیس چوکی پر آگیا۔ شناختی کارڈ کی کاپی ابھی تک جیب میں ہے اور یہ نہیں پتا کہ کہاں جمع کرانی ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp