ہم اور ہمارا کمفرٹ زون


ہمیں اپنے طور پر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرنا ہوگی کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمان موجود ہیں وہ اپنے ارد گرد ”بستی نظام الدین اولیاء“ کیوں بسا لیتے ہیں اور کیوں ان کے لیے پسماندگی، غربت اور جہالت ایک کمفرٹ زون کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ بھی کہ یہ سلسلہ کہاں تک چلے گا؟

بستی نظام الدین اولیا پرانی دہلی میں مسلمانوں کی غالب اکثریت پر مشتمل علاقہ ہے جو ایک طرح سے ”گھیٹو“ اور ”سلم“ کا منظر پیش کرتا ہے۔ جس عظیم شخصیت سے یہ بستی منسوب ہے وہ برصغیر میں مذہبی تنگ نظری، جہالت اور ہر طرح کی پسماندگی کو مسترد کرکے ایسے روشن افق تراشتی رہی تھی جو انسانی ایکتا، سماجی ذمہ داری، انسانی مساوات اور روشن فکری سے عبارت تھے۔

یہی وہ درگاہ ہے جس نے کٹر عقیدہ پرستی کے خلاف تخلیقی ردعمل پیش کیا تھا۔ یہاں ہندوستانی موسیقی کی عظیم روایت نے جنم لیا تھا جس کی سب سے توانا صورت قوالی کی صورت میں آج بھی موجود ہے۔ یہی وہ درگاہ ہے جس نے فارسی کے ساتھ ساتھ ہندوی زبان میں شاعری کی روایت کو جنم دیا جو مقامی بول چال کی زبان تھی۔ خود خواجہ غریب نواز نے امیر خسرو سے فرمائش کی تھی کہ ہندوی زبان میں بھی شاعری کیا کرو تاکہ تمہاری بات عام لوگوں تک پہنچ سکے۔ یہی وہ انسانیت کی مثبت اقدار کا گہوارہ تھا جہاں بلالحاظ مذہب ہر خاک نشین اپنے درد کی دوا پاتا تھا۔

یہ وہ زمانہ تھا جب دہلی کی سلطنت اپنے کروفر کے ساتھ موجود تھی، ایک دربار وہ تھا جہاں ترک نسل کے سلاطین اور اس کے امراء عوام کے انبوہ کے افلاس اور پسماندگی سے بے گانہ تھے اور جبر کے زور پر ان کی محنت کو لوٹ کر اپنے خزانے بھر رہے تھے اور ایک دربار وہ تھا جو ہر کس و ناکس کے لیے کشادہ تھا۔ اس دربار کا بادشاہ حقیقی معنوں میں دلوں کا بادشاہ تھا۔

اس عظیم صوفی کی درگاہ میں دو اور عظیم ہستیاں آسودہ خاک ہیں : ایک ان کے مرید حضرت امیر خسرو جن کے بارے میں میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ ہندوستان کی سرزمین میں ان سے بڑی اور ہمہ پہلو شخصیت پیدا نہیں ہوئی اور دوسری تاج مغلیہ کا دمکتا ہیرا جہاں آرا بیگم جو اپنے دیگر غیر معمولی اوصاف اور خدمات کے علاوہ برصغیر میں عورت کی آزادی کی پہلی بڑی علامت تھی۔

اس مقدس مقام سے کئی نادر روزگار ہستیوں نے روشنی اور ذہنی بالیدگی پائی اور ہندوستان کے گوشے گوشے میں فیض کا سلسلہ جاری کیا۔ ان میں ایک حضرت نظام الدین اولیا کے چہیتے خلیفہ شاہ چراغ دہلوی بھی شامل ہیں جو یہاں سے کچھ فاصلے پر ابدی راحت کی نیند سو رہے ہیں۔

اور پھر اسی دلی میں قطب الدین بختیار کاکی بھی آسودہ خاک ہیں جو محبت اور انسان دوستی کی روشن ترین علامتوں میں سے ایک ہیں۔ ان میں سے ہر ہستی تہذیب، آشتی اور فکر و فن کا روشن چراغ ہے ان ہستیوں کی ایک ہی جگہ موجودگی ہندوستانی مسلمانوں کے درخشاں ماضی کی گواہ ہے۔

یہاں ایک اور ہستی کا ذکر تو رہا جاتا ہے جو یہیں کہیں محلہ بلی ماراں میں ایک کرائے کی حویلی میں زندگی بسر کیا کرتی تھی اور وہیں ایک چھوٹے سے مزار کی صورت ہندوستانی مسلمانوں کی فکری سطوت کی درخشاں ترین علامت بن کر اردو شاعری کے ہر رسیاء کے دل و دماغ کو اپنی جانب کھینچتی ہے ؛ نام ہے اس ہستی کا مرزا اسداللہ غالب جو زمانی فاصلے کے باوجود مذکورہ بالا ہستیوں کے ساتھ ایک معنوی نسبت رکھتی ہے۔

بستی نظام الدین اولیا جہاں سے کبھی مسلم ہندوستان کی تہذیب نے جنم لیا تھا اور جہاں کبھی ہندوستان کے گوشے گوشے سے ہر مذہب کے لوگ روشنی پانے کے لیے آتے تھے، اس بستی کی پر پیچ گلیاں پسماندگی، غربت اور جہالت کا گڑھ سمجھی جاتی ہیں اور وہ مزار جہاں سے پھوٹتی فکری روشنی پورے ہندوستان کو جگمگایا کرتی تھی آج وہ لالچ، جھوٹ اور فریب کا مرکز بن چکا ہے۔

یہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر تبلیغی جماعت کا مرکز بھی ہے جہاں سے اس تبلیغی تحریک نے جنم لیا جو آج اپنے وجود کے جواز سے محروم ہونے کے باوجود پاکستان کی ریاستی سرپرستی میں پھل پھول رہی ہے اور اس ریاست پر قابض حکمرانوں کے مقاصد کو خضوع و خشوع کے ساتھ آگے بڑھا رہی ہے۔

مارچ کے مہینے میں جبکہ کرونا وائرس کی وبا ایک خیال رفتہ کی بجائے سامنے کی خوفناک حقیقیت میں بدل چکی تھی اور دیگر دنیا کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں بھی سماجی تنہائی اور لاک ڈاؤن ناگزیر قرار پاچکا تھا، ان دونوں جگہوں میں مسلمانوں کے بھاری اجتماعات انسانیت کو درپیش عظیم ترین چیلنج کو سنگین تر بنانے کا باعث بن رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان میں اس پر سخت ردعمل آنا ناگزیر تھا اور پھر رام راجیہ والے سیاہ باطن جن سنگھی اور راشٹریہ سیوک کہاں چوکنے والے تھے۔ انہوں نے ان عاقبت نا اندیش مسلمانوں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ پورے ہندوستانی میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف طوفان اٹھ کھڑا ہوا جو یکسر بلا جواز نہیں تھا۔

سوال یہ ہے کہ آخر کیوں دنیا کے بیشتر حصوں میں مسلمان پسماندگی، غربت اور جہالت کو اپنا کمفرٹ زون بنائے رکھنے پر تلے ہوئے ہیں اور کیوں یہ دیگر دنیا سے الگ اپنا منڈپ سجائے بیٹھے ہیں۔ ان مسلمانوں کی حرکتوں کو اسلام کے ساتھ منسوب کردیا جاتا ہے جبکہ ہر گز ایسا نہیں ہے۔ اسلام روشن خیالی کا دین ہے۔ اس کا جہالت اور پسماندگی سے ہرگز کوئی علاقہ نہیں ہے۔ تو پھر یہ تاریک کونوں میں منہ چھپائے عقیدہ پرست مسلمان کون ہیں اور انہوں نے کہاں سے اپنی مخصوص ذہنی ساخت کا جواز پایا ہے اور ان کا یہ کمفرٹ زون کب اور کیسے تشکیل پایا ہے؟

اب وقت آگیا ہے کہ ہم ان بنیادی سوالوں کا جواب تلاش کریں اور اس شعور کو عام کریں کہ مسلمان ہونے کا لازمی پسماندہ ہونا نہیں ہے کیونکہ وہ بھی مسلمان ہی تھے جو کبھی سائنس، فلسفہ اور شاعری کے افق پر تابندگی کا باعث تھے اور وہ بھی جنہوں نے اس دنیا کے زلف گرہ گیر کی علمی گتھیاں سلجھانے میں عمریں بسر کردیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments