نمّی۔ جیا بے قرار ہے


بڑی بڑی خوبصورت آنکھوں والی نمّی رخصت ہوگئیں۔ نمّی 50 اور 60 کی دہائی کی بے حد مشہور ہندوستانی اداکارہ تھیں۔ پرانی فلموں کے شائق ان کے نام اور کام سے خوب واقف ہیں۔

نمّی کا حقیقی نام نواب بانو تھا۔ انہیں یہ فلمی نام ’نمّی‘ راج کپور نے دیا تھا۔ وہ 18 فروری 1933 کو آگرہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کے والد عبدالحاکم ایک ملٹری کانٹریکٹر تھے۔ جب وہ صرف 11 سال کی تھیں، ان کی ماں کا انتقال ہوگیا اور نمّی اپنی نانی کے ساتھ رہنے کے لیے ایبٹ آباد چلی گئی آئیں، لیکن 1947 میں ملک کی تقسیم کے بعد جب ایبٹ اباد پاکستان میں شامل ہوگیا تو نمّی اپنی نانی کے ساتھ بمبئی منتقل ہو گئیں اور یہیں فلمی دنیا کے ساتھ ان کا تعلق قائم ہوا۔

وہ کسی کے ساتھ فلم کی شوٹنگ دیکھنے اسٹوڈیو آئی تھیں، یہ راج کپور کی فلم ”انداز“ کی شوٹنگ تھی۔ راج کپور نے انھیں دیکھا تو ان کے جوہر قابل کو پہلی نظر میں ہی پہچان لیا اور اپنے اگلی فلم میں کام کرنے کی پیش کش کردی۔ یوں وہ 1949 میں فلم ’برسات‘ میں سیکنڈ ہیروئن بن گئیں۔ اس فلم کے تین گانے بے حد مقبول ہوئے تھے۔ ’برسات میں ہم سے ملے تم‘ ، ’ہوا میں اڑتا جائے میرا لال دوپٹہ ململ کا‘ اور ’پتلی کمر ہے، ترچھی نظر ہے‘ ۔ یہ تینوں ہی گانے نمّی پر فلمائے گئے تھے۔ اس فلم کی زبردست کامیابی کے بعد نمّی نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

نمّی اپنے دور کی فلموں میں عام طور پر سیکنڈ ہیروئن ہوتی تھیں۔ فلموں میں ان کی موجودگی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی تھی۔ اکثر ان کے کردار ایسے ہوتے تھے جس میں ان کا پیار انہیں مل نہیں پاتا تھا یا پھر وہ گاؤں کی بھولی بھالی لڑکی کا کردار نبھاتی تھیں۔

ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ فلم ’آن‘ میں ان کا ایک ”خواب کا منظر“ الگ سے ڈالا گیا تھا کیونکہ تقسیم کار کا خیال تھا کہ فلم میں ان کا کردار بہت جلدی ختم ہو جاتا ہے۔ ولیم شیکسپئیر کے ڈرامے The Taming of the Shrew پر مبنی اس فلم میں نادرہ اور دلیپ کمار مرکزی کرداروں میں تھے اور نمّی نے گاؤں کی خوبصورت دوشیزہ منگلا کا کردار نبھایا۔ یہ کردار فلم بینوں کو کافی پسند آیا تھا۔ انگلینڈ میں یہ فلم ’Savage Princess‘ اور فرانس میں ’Mangla، fille des Indes‘ (منگلا، بھارت کی بیٹی) کے نام سے ریلیز ہوئی تھی۔

نمّی نے اپنے دور کے مقبول ترین ہیروز کے ساتھ کام کیا۔ ’سزا‘ ، ’آن‘ ، ’اڑن کھٹولا‘ ، امر ’، بھائی بھائی‘ ، ’کندن‘ ، ’میرے محبوب‘ ، ’پوجا کے پھول‘ اور ’خدا اور محبت‘ ان کی مشہور فلمیں ہیں۔ انھوں نے سب سے زیادہ، پانچ فلمیں، دلیپ کمار کے ساتھ کیں۔ دلیپ کے ساتھ فلم ’امر‘ ( 1954 ) کے سیٹ پر کام کرتے وقت نمّی دلیپ کمار کو دل دے بیٹھیں۔ لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ ان کی پیاری سہیلی مدھوبالا جو اس فلم میں ان کے ساتھ کام کررہی ہے، دلیپ کو ٹوٹ کر چاہتی ہے اور دلیپ کمار بھی مدھوبالا سے پیار کرتے ہیں تو نمّی خاموش ہو گئیں اور ایسی خاموش ہوئیں کہ پھر کبھی اس معاملے پر کسی کے سامنے زبان نہیں کھولی۔

اس سے پہلے کوئی اور تھا جو نمّی پر دل وجان سے فدا ہوچکا تھا، یہ تھے فلم برسات کے مصنف علی رضا جو نمّی کو برسات کے سیٹ پر ہی دل دے چکے تھے۔ پھر علی رضا نے بڑی سمجھداری سے نمّی کے نزدیک آنے کی کوششیں شروع کیں۔ کچھ ہی عرصے میں ان کا نمّی کے گھر آنا جانا شروع ہو گیا۔ نمّی کو شاعری کا شوق تھا اور علی رضا کو سیکڑوں غزلیں اور ہزاروں شعر یاد تھے۔ نمّی کبھی کبھی خود بھی شعر کہتیں تھیں علی رضا ان کی شاعری پر نہایت سنجیدگی سے رائے دیا کرتے تھے۔

انھوں نے نمّی کو اردو ادب سے روشناس کرایا جس سے نمّی کو اپنے کرادر ادا کرنے میں بہت مدد ملی۔ آخر ایک دن علی رضا نے اپنے پیار کا اظہار کر ہی دیا۔ تب تک نمّی کے دل میں بھی ان کے لیے جگہ بن چکی تھی لیکن اس وقت نمّی فلموں میں بیحد مصروف تھیں۔ ادھر علی رضا کی تحریر کا بھی سکہ چل رہا تھا۔ تقریباً 10 سال تک دونوں کے بیچ پیار کا رشتہ چلتا رہا۔

اس دوران کے آصف صاحب کی فلم ”خدا اور محبت“ کی شوٹنگ راجستھان کے ریگستان میں ایک ایسی جگہ پر شروع ہوئی جہاں دوردور تک کوئی بستی نہیں تھی۔ نمّی اس فلم کی شوٹنگ کے لیے وہاں موجود تھیں، جبکہ علی رضا بمبئی میں بیٹھے فلم لکھ رہے تھے۔ دونوں دور دور تھے لیکن علی رضا نے کچھ ایسا کیا کہ ہر روز نمّی کے پاس ان کا ایک خط ضرور پہنچتا تھا۔

آخرکار سال 1966 میں دونوں نے شادی کر لی۔ تب تک نمّی کو احساس ہونے لگا تھا کہ اب انہیں پہلے جیسے رول نہیں مل رہے۔ وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ چکی تھیں۔ انہیں لگا کہ انہیں فلموں سے جو شہرت ملی اور وقار ملا ہے، اسی وقار کے ساتھ انھیں پردے سے رخصت ہوجانا چاہیے۔ نمّی نے اچانک فلموں سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کر کے سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ علی رضا نے انھیں سمجھایا بھی کہ وہ چاہے کم فلمیں کریں لیکن کام کرتی رہیں مگر نمّی نہیں چاہتی تھیں کہ اب وہ بہن، بھابھی یا ماں کا رول کریں۔

نمّی نے علی رضا کے ساتھ خوشگوار شادی شدہ زندگی گزاری اگرچہ وہ اولاد کی نعمت سے محروم رہیں۔ سال 2007 میں علی رضا کی وفات ہوگئی۔ ایک زمانے میں سینکڑوں دلوں میں اپنے حسن سے پیار کا جذبہ جگانے والی نمّی نے باقی وقت گوشہ نشینی میں گزارا اور 25 مارچ 2020 کو خاموشی سے دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ فلم ’خدا اور محبت‘ جو بنائی تو 60 کی دہائی میں گئی تھی لیکن 1982 میں سامنے آئی، ان کی آخری فلم تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments