ٹائیگر فورس اور اوئے عمران


وزیراعظم عمران خان اور ان کے حمایتی جیسے ہیں وہ تو ہیں، لیکن ان پر اعتراض کرنے والے بھی ان سے کچھ کم نہیں ہیں۔ پہلے ہمیں یہ اعتراض تھا کہ خان صاحب قوم کو اعتماد میں کیوں نہیں لے رہے۔ اب خان صاحب ہر تیسرے دن خطاب کرتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ یہ خان صاحب فرما کیا رہے ہیں۔

خان صاحب کہتے ہیں کہ انہیں لاک ڈاؤن کے آئیڈیا سے اتفاق نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ پوری قوم کو مروائے گا۔ پھر کچھ گھنٹوں کے بعد لاک ڈاؤن ہو جاتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ دیکھیں خان صاحب کو تو پتہ ہی نہیں ہے کہ ہو کیا رہا ہے۔

میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ یہ ”اوئے عمران اوئے عمران“ کرنے کا وقت نہیں ہے۔ میرا خیال ہے کہ الیکٹڈ اور سیلیکٹڈ کی بحث بھی ختم ہو چکی۔ خان صاحب جس سسٹم کی پیداوار ہیں، یہ سسٹم انہوں نے نہیں بنایا، ان کے آنے سے پہلے موجود تھا اور یہ سسٹم ہی ان کو لے کے آیا۔

اب کچھ لوگوں کو یہ فکر ہے کہ کرونا یہ سسٹم کھا جائے گا۔ کچھ لوگ یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ جو انقلاب وہ ساری زندگی خود نہیں لا سکے وہ کرونا لے کے آئے گا۔ یعنی تخت گرائے جائیں گے اور تاج اچھالے جائیں گے اور یہ کام اب کرونا وائرس کرے گا۔

کسی کو خان صاحب کی ٹائیگر فورس کا نام پسند نہیں ہے۔ کسی کو اس ٹائیگر فورس کی شرٹ کا ڈیزائن پسند نہیں۔ اور کوئی خان صاحب کے مرحوم کتوں کا ذکر لے کر بیٹھا ہے۔

کوئی کہتا ہے کہ یہ کیسا ملک ہے جس میں ایف سکسٹین تو ہیں لیکن وینٹی لیٹر نہیں۔ بھائیو اور بہنو۔ ایف سکسٹین پی ٹی آئی والوں نے نہیں خریدے۔ اور ویسے بھی اس وقت دنیا میں کون سا شاپنگ مال کھلا ہے جہاں پر خان صاحب ایف سکسٹین لے کر جائیں اور کہیں کہ اس کے بدلے میں مجھے وینٹی لیٹر دے دو۔

کوئی کہتا ہے کہ شہباز شریف سے بات کر لو، بلاول بھٹو سے مشورہ کر لو، کاش مراد علی شاہ ہمارا وزیراعظم ہوتا۔ آپ کی یہ نیک خواہشات بجا لیکن کپتان تو کپتان ہے۔ وہ اپنی دھن کا پکا ہے، جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔ لیکن اگر آج کل آپ کو یہ لگتا ہے کہ خان صاحب کو خود نہیں پتہ کہ وہ کیا کر رہے ہیں تو یہ آپ کا مسئلہ ہے۔

لیکن بہرحال ہم حالت جنگ میں ہیں اور اگر آپ کا خیال ہے کہ خان صاحب اپنا کام نہیں کر رہے تو آپ کو اپنا کام کرنے سے کس نے روکا ہے؟

ہمارا سارا بچپن پی ٹی وی پر جنرل ضیا الحق کی تقریریں سنتے گزرا ہے۔ اس زمانے میں یہی واحد اور بڑی اینٹرٹینمنٹ ہوتی تھی۔ وہ پورا ایک گھنٹہ کسی ایک موضوع پر بھاشن دیتے تھے لیکن آخر میں یہ شعر ضرور پڑھتے تھے

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

جس کا پنجابی ترجمہ کچھ یوں بنتا تھا کہ جاگدے رہنا، ساڈے تے نا رہنا۔ تو اگر آپ کو خان صاحب والی تبدیلی پسند نہیں ہے تو ”اوئے عمران اوئے عمران“ کرنے کی بجائے آپ خود ہی کوئی چھوٹی موٹی تبدیلی لے آئیں کیونکہ خدا نے آج تک اس قوم کی۔
خدا حافظ۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments