کورونا سے بچو تو کرلی ڈرائے


اب تو سیاسی طور پر فعال خیر کیا ہونا؟ ویسے بھی عمر بڑھنے کے ساتھ انسان انقلاب، جو عقلی سے زیادہ ایک جذباتی خواہش ہوتی ہے، کسی بھی طرح پوری کر بھی لی جائے تب بھی کچھ عرصہ بعد، حالات کو دیکھتے ہوئے، حساس اور سمجھدار انقلابی رہنما باوجود تمام تحفظات اور خدشات کے اپنا لائحہ عمل بدل لیتا ہے، جیسے روس کے اکتوبر انقلاب کے رہنما ولادیمیر لیننن نے تبدیل کرکے نئی معاشی پالیسی لاگو کی تھی، کی بجائے ارتقا کی طرف رخ کرنا پڑ جاتا ہے۔

مگر جب میں انقلابی ہوا کرتا تھا تب جیل میں بنے میرے انقلابی دوست، جو بعد میں انقلابی رہنما بنا پھر پیپلز پارٹی کا مددگار اور آخر میں قریب قریب صوفی، یعنی جام ساقی نے میری کراہت اور خوف کا ذکر سن کے جن میں چھپکلی پنجابی میں جسے کرلی اور سرائیکی میں لہجہ بدل کے کرڑی کہا جاتا ہے، چپچپاہٹ اور کتے کا ذکر تھا، مجھے مشورہ دیا تھا کہ اپنے ایسے معاملات کا عام ذکر نہ کیا کرو کیونکہ پکڑے جانے کی صورت میں، قانون لاگو کرنے والے یہی کچھ تمہارے خلاف برت سکتے ہیں۔ بات تو سچ تھی کہ مجھ پر چھپکلی چھوڑنے کی محض دھمکی دے کر مجھ سے ڈونلڈ ٹرمپ، بورس جانس اور عمران خان تینوں کا ہی قتل کرنا تسلیم کروایا جا سکتا ہے، بھلے وہ تینوں زندہ ہوں اور اپنے عہدوں پہ برقرار۔

میں لاکھوں لوگوں کی طرح وائرس کی صنف کورونا کی ایک نئی نوع کی ہلاکت خیزی سے بچاؤ کی خاطر کئی روز سے گھر تک محدود ہوا بیٹھا ہوں۔ کچھ روز پہلے ہی خود سے میری خدمت پر مامور میری بھتیجی نے کہا تھا کہ اس بار تو چاچاجی پھنس گئے، چھپکلیاں اور نوع بہ نوع کے حشرات سب دیکھنے پڑیں گے۔ یہی ہوا کہ کل رات جب میں سونے کے لیے بلب بجھانے کو مڑا تو ایک موٹی اور انتہائی بدشکل چھپکلی سامنے دیوار پر اس جانب جا رہی تھی جہاں میرے نماز پڑھنے کے مخصوص کپڑے اور تولیہ لٹکے ہوئے تھے، میں چیخ کر بھتیجی کرن کو پکارتے پکارتے رہ گیا کہ وہ بھی کیا کر لے گی۔ بس لپک کر اس دشمن جاں کے وہاں تک پہنچنے سے پہلے، کپڑوں کو اپنی جان میں اس سے محفوظ بنا لیا۔ یہ کریہہ جاندار تو اپنی عادت کے مطابق کہیں جا چھپا مگر بتی گل کرکے بھی مجھے ایسے لگتا رہا کہ کہیں سے یہ مجھ پر چھلانگ لگا دے گی۔ چھپکلی سے مجھے خوف کی حد تک کراہت محسوس ہوتی ہے۔

صبح میرے بچپن سے دوست اور ہم جماعت خادم حسین خادم کا فون آیا، ہنس کے پوچھا یار یہ تمہاری ویرس ( وائرس ) فون کرنے سے بھی لگ جاتی ہے کیا؟ میں نے جھنجھلا کے کہا کہ یہ کیا بجلی ہے؟ اس سے کہا کہ دوست میں ڈاکٹر ہوں، جانتا ہوں یہ وائرس بے حد خطرناک ہے، بہت سرعت سے منتقل ہونے والی اور مہلک۔ وہ بولا ڈاکٹرں کا بھی دماغ خراب ہو گیا ہے۔ کیا پہلے لوگ نہیں مرا کرتے تھے؟ ایک بار پھر اسے کورونا وائرس بارے سمجھانا شروع کیا کہ بھائی لوگ تو مرتے ہی رہتے ہیں لیکن ایک علاقے میں تھوڑے ہی وقت میں اتنے زیادہ نہیں مرا کرتے کہ ملکوں ملکوں کے صحت برقرار رکھنے کے بہترین شعبے بیٹھ جائیں۔

سوشل میڈیا دیکھنا شروع کیا تو ایک دوست نے پیش گوئی کرنے والوں کے حوالے سے لکھا ہوا تھا کہ 15 اپریل سے پاکستان میں وائرس کے پھیلاؤ کا زور ٹوٹنا شروع ہو جائے گا۔ رات ایک پروگرام میں امریکہ میں متعدی امراض کے ایک بہت ہی مناسب ماہر فہیم یونس سے سوالات کیے جا رہے تھے۔ پاکستان میں اتنی تیزی سے وائرس نہیں پھیلا، کہا جاتا ہے کہ یہاں نہیں پھیلنے کا اور یہ بھی پوچھا کہ کہتے ہیں گرمی بڑھے گی تو وائرس بھی اگر بے جان نہیں تو نیم جان ہو کر غیر مستعد اور بے ضرر ہو جائے گا۔

پہلی بات کا تو انہوں نے جواب دیا کیونکہ یہ 1 سے 2، 2 سے 4، 4 سے 8، 8 سے 16، 16 سے 32 اور یونہی پھیلتا ہے اس لیے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ بڑھنے کا نہیں ہے، اگر ایسا ہوا تو مجھے خوشی ہوگی۔ دوسری بات کا جواب یوں دیا کہ برازیل، میکسیکو اور تاحتٰی امریکہ کی ریاست فلوریڈا اور دیگر کئی ریاستوں میں موسم گرم ہے مگر وہاں بھی یہ پھیل رہا ہے۔ یہ نہیں پھیلے گا یہ امید رکھی جا سکتی ہے مگر امید کی بنیاد پر نہ تو حکمت عملی مرتب کی جا سکتی ہے اور نہ لائحہ عمل تیار کیا جا سکتا ہے۔

پہلے پاکستان میں شہروں میں کم کم مگر قصبات اور دیہاتوں میں عام طور پر کسی بھی طرح سے ہوئی اموات کا مساجد میں اعلان کرکے لوگوں کو نماز جنازہ میں شرکت کو کہا جاتا ہے لیکن اب مساجد سے صرف اذان سنائی دیتی ہے ایسا کوئی اعلان نہیں کیا جا رہا۔ پھر سننے میں آیا ہے کہ چاہے کوئی کسی بھی وجہ سے کیوں نہ مر جائے حفاظتی ٹیم ہی آ کر مردے کو دفناتی ہے تاکہ جنازے میں لوگ شامل نہ ہوں۔

ویسے تو مرنے کے بعد انسان لاش ہی ہوتا ہے اسے جو جہاں بھی اور جیسے دفنا دے اس سے کیا فرق پڑتا ہے لیکن ایک غیر روایتی تدفین کا تصور مرنے سے پہلے ہی خائف ضرور کر دیتا ہے۔ مرنے کا تو کسی کو معلوم نہیں کہ ہسپتال کے بستر پر اکیلا مرے گا یا گھر میں بھائی بند لوگوں کے بیچ مگر ڈر لگا رہتا ہے لو بھئی چلے۔ کھانا ہضم نہ ہونے سے سینے پہ بوجھ ہو تو لگتا ہے کہ دل کا دورہ پڑنے والا ہے۔ بازو یا جبڑے میں کوئی ٹیس اٹھے تو ہارٹ اٹیک کا خدشہ سر اٹھا لیتا ہے۔ جب ایک ہی جگہ محدود رہیں گے تو وہم گھیریں گے یا جھنجھلاہٹ طاری ہوگی۔ کورونا سے بچیں گے تو کرلی کی کراہت جان پہ بن آئے گی۔ جائیں تو جائیں کہاں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments