کورونا اور ذاتی انا کے ٹائیگر پر سوار قیادت


کورونا وبا کے اس زمانے میں دنیا کی بدقستمی ہے کہ اس کی قیادت ڈونلڈ ٹرمپ اور بوریس جانسن جیسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ دونوں نے انتہائی احمقانہ رویّہ اپنا اور شروع میں اس بلا کو صرف چین کا مسئلہ قرار دے کر اس سے پہلوتہی کی۔ اپنی ناک کے اگے سوچ نہیں سکے۔

پاکستان کی بدقسمتی یہ کہ اس بلا نے عمرانی زمانے میں ہی انا تھا۔ عمرانی انا بنی گالہ سے بڑی ہے جو اس وبا سے لڑنے کو صرف پارٹی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ موصوف لاک ڈاؤن کے سخت مخالف ہیں لیکن انہی کی علامتی صدارت کے تحت لاک ڈاؤن کے فیصلے کرائے جاتے ہیں اور موصوف وہاں سے اٹھ کر میڈیا پر اس لاک ڈاؤن کی مخالفت شروع کردیتے ہیں۔ اسی طرح لوگوں کو ابہام میں ڈالا جاتا ہے اور لاک ڈاؤن ایک مذاق بن کر رہ جاتا ہے۔ ان کے زیر سایہ کمیٹی وہی کام کرتی ہے جو سندھ حکومت پہلے کرچکی ہے۔ دوسرے صوبے بھی سندھ حکومت کے اقدامات کو من و عن اپنا رہے ہیں۔ ایسا اگر یہ صوبے سندھ حکومت کے ساتھ ہی کرتے تو شاید پھیلاؤ اتنا نہ ہوتا۔

وبا ایک انسانی مسئلہ ہے۔ یہ کسی ایک پارٹی یا ملک کا مسئلہ نہیں۔ یہ عالمگیر ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک اس سے اپنی طرح سے نمٹ رہے ہیں۔ یہ ہر ملک کا قومی مسئلہ ہے۔ مگر پاکستان میں اس مسئلے سے نمٹنے کو بھی ایک پارٹی کا مسئلہ بنایا گیا ہے۔ ایک ریلیف فورس کا اعلان اپنے ایک پیارے مگر خون خوار جانور کے نام سے کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر اس فورس کے لیے یونیفارم کی تصویریں اتی ہیں جہاں پی ٹی ائی کا رنگ نمایاں ہے۔ اب صرف یہ ایک پارٹی کا مسئلہ بن کر رہ گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس پارٹی نے صرف دیڑھ کروڑ ووٹ لیے تھے اور پاکستان کی آبادی 23 کروڑ تک ہے۔ گویا یہ مسئلہ 21 کروڑ پچاس لاکھ پاکستانیوں کا نہیں ہے۔

ہم ہر تقریر میں ٹائیگرز ٹائیگرز سنتے ائے ہیں۔ یہ عمران خان کا پسندیدہ لفظ ہوسکتا ہے اور ان کا فلسفہ بھی کہ وہ اپنے ان ٹائیگرز کو بہ یک وقت مخالفین پر چھوڑتے ہیں جو سوشل میڈیا پر لوگوں کو گالیوں اور الزامات سے پچھاڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ اب شاید کورونا کو گالیوں سے دھو ڈالنے کا منصوبہ ہے ان کا۔

جہاں پورے ملک میں ایک ہی دن میں ریاستی اداروں جیسے محکمہ تعلیم، عدلیہ اور فوج و پولیس کی مدد سے الیکشن ہو سکتا ہے کیا اس ملک میں ان ہی انسانی وسائل کو اس ریلیف فنڈ ز کی تقسیم نہیں سونپی جاسکتی؟ اور کیا ان کے ساتھ مقامی حکومتوں کے نمائندوں اور مساجد کے اماموں کو شامل نہیں کیا جاسکتا؟ مگر مارگلہ سے بڑی انا کے سامنے کون ٹھر سکتا ہے!

سوات میں جب سیلاب ایا تو یہاں موجود فوج نے اس سے نمنٹے کے لیے انہی مقامی حکومتوں کے نمائندوں سے کام لیا جو اگرچہ اس وقت میعاد پوری کر کے گھر بیٹھے تھے۔ 2005 ء کے زلزلے میں انہی آساتذہ، فوجیوں اور مقامی پٹواریوں سے کام لیا گیا۔ کوئی دوسرا فورس کسی نے نہیں بنایا او ر وہ بھی ایسا کہ ایک ہی پارٹی کا ہو۔

اب یہ ٹائیگرز فورس دو مسئلے پیدا کرے گا۔ پہلا، وبا اور طب سے ناواقف ہونے کی وجہ سے یہ اس وبا کے نشانہ بھی بن سکتے ہیں اور اس کو پھیلا بھی سکتے ہیں۔ دوسرا، مقامی تحصیل اور ضلعی انتظامیہ کے کام میں مداخلت کریں گے کیوں ٹائیگرز جو ٹھہرے۔ یوں یہ مقامی انتظامیہ بھی اپنے کام سے جائے گی۔ ظاہر ہے اس فورس میں زیادہ تر بلکہ سب پی ٹی ائی والے ہوں گے اس لیے اپنے ورکرز اور ووٹرز کو نوازا جائے گا۔

اگر ایسا کوئی فورس بنانا تھا تو کوئی ڈھنگ کا قومی نام رکھتے اور پورے اپوزیشن، سول سوسائٹی او ر میڈیا کو شامل کیا جاتا۔ کیوں نہ کوئی ایسا نام رکھا جاتا جیسے ”پاکستان مسیحا فورس“، ”پاکستان رضاکار فورس“ یا ”پاکستان ریلیف فورس“۔

مگر کیا کیا جائے۔

ہماری بدقسمتی ہے کہ اوپر ایک ایسے شخص کو لایا گیا ہے جو ابہام اور تقسیم کے علاوہ کچھ بھی ڈھنگ کا نہیں کرسکتا۔ اب پوری قوم مشکل میں ہے۔ لہذا مشکل کی اس گھڑی میں قوم کو ایک شخص کی انا کی بھینٹ چڑھایا نہیں جاسکتا۔ کچھ اور نہیں کیا جاسکتا۔ ایک مخمصہ ہے ختم نہیں ہوتا۔ ایک انا ہے کہ ٹوٹ نہیں جاتی۔ بس پاکستانیوں کو اب سیاست سے بلند ہوکر اس بلا سے نمٹنا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments