لاقو کے کاروبار قسمت لے ڈوبی


نام تو اُس کا لیاقت تھا مگر لوگوں کی اکثریت اُس کے اس اصل نام سے ناواقف تھی۔ سبھی اسے لاقو کے نام سے جانتے تھے۔ پڑھا تو شاید زیادہ نہیں تھا لیکن تھا نہایت محنتی۔ اس نے زندگی میں طب سے لے کر کتب فروشی تک اور مرغی بانی و مگس رانی سے لے کر شکرقندی کی فروخت تک غرض کہ کون سا پیشہ و کام تھا جس میں قسمت و طبع آزمائی نہ کی ہو۔ اب اُسکی طب کی کہنہ مشقی کو ہی لے لیجیے۔ اس کا علمِ طب اگرچہ منجن سازی تک محدود رہا مگر جب تک شعبہ طب سے منسلک رہا نہایت تن دہی اور مستقل مزاجی سے فرائض سرانجام دیے۔

منجن تیار کرتا ڈبیوں میں پیک کرکے ضرورت سے کہیں زیادہ ایک میلے بستے میں ڈالتا اور لاری اڈے جا کے بسوں بس گھومتا۔ اگرچہ اس نے منجن کی ہر ڈبیہ کے ساتھ ایک فری مسواک کی آفر دی ہوتی تھی۔ اس کے باوجود فروخت ہمیشہ کم رہی۔ شاید اس کی وجہ اس کے سامنے والے دانتوں پہ بوجہ کثرتِ سگریٹ نوشی ایک گہرے بھورے رنگ کی دبیز تہہ تھی۔ بسوں کی سواریوں کو وہ بہت سنجیدہ ہو کے منجن کے نہایت ارفع خصائص بیان کرتا مگر ہر گاہگ اس کے فروختِ منجن کو مذاق کی حد تک غیرسنجیدہ لیتا۔

مرغیاں پالنے کے لئے تین درجن چوُزے لئے تو پہلی ہی رات بلی پڑ گئی۔ کوئی نصف چوزوں کے گلے دبا کے مار گئی اور دو تین کو طعام بنایا۔ چوُزے جب بالغ ہو ئے تو سبھی مرغیاں تھیں۔ ایک بھی مرغا نہیں تھا۔ لہذا لاقو کی مرغیوں کی افزائشِ نسل اور حصولِ بیضہ کی خواہش نامکمل تھی۔ خواہش کی تکمیل کے لئے کہیں سے ایک عدد مرغے کا انتظام کیا۔ مگر وہ مرغا بیمار تھا اور اس کی آمد کے فوراً بعد ساری مرغیوں کو رانی کھیت کی بیماری لاحق ہوئی۔ دو تین دن بعد ایک ہی رات میں ماسوائے اس مرغے کے سبھی مرغیاں اللہ کو پیاری ہو گئیں۔ پنجابی میں مشہور ہے کہ غریب مرغا تب کھاتا ہے جب خود بیمار ہو یا مرغا بیمار ہو۔ ایک تو مرغا تھا بیمار اور اوپر سے وجۂ قضائے جھنڈ مرغیاں۔ لہذا اس نے اس مرغن دو رُخا بہانے کو عملی جامہ پہنا دیا۔

باقی کسب و پیشہ ہائے نمایاں میں بھی کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی لُکنت رہ جاتی تھی۔ المختصر ہزار جتن کے باوجود دیدِ لکشمی سے محروم رہا۔ دریں اثنا خُدا کی ذات نے اُسے دو رفقائے حیات اور مبلغ نو بچوں (نصف جن کے ساڑھے چار ہوتے ہیں ) سے نوازا۔ دو ازواج اس کی عیاش طبیعت کی غلط فہمی پیدا نہ کردے اس لئے صرف اتنا بیان کر دوں کہ یہ سراسر حالات کی ستم ظریفی کا نتیجہ تھا۔ ویسے تو یک زوجگی بھی حالات کی ستم ظریفی کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔

خیر اللہ کی ذات نے اس کی دن رات کی مشقت کا صلہ سات بیٹوں اور دو بیٹیوں کی صورت میں دیا۔ بیٹے بڑے ہوئے۔ کمانے کے لائق ہوئے تو شادیوں کے ساتھ ہی علیحدگیاں ہونے لگیں (باپ سے ) ۔ آج کل اس نے اپنے دومرلہ گھر کی بیٹھک میں ایک تین ٹانگوں والی میز پہ بچوں کو فروخت کرنے کے لئے ٹافیاں اور بسکٹ رکھے ہوئے ہیں۔ بیٹیوں کی شادیاں ابھی نہیں ہوئیں۔

اُسی محلے میں ایک دوسرا شخص مقبوُل المعروف بُولا رہتا ہے۔ کسی صفائی سُتھرائی کے سرکاری ادارے میں ملازم ہے۔ پرلے درجے کا شاطر اور تیز۔ خودغرض و مطلب پرست۔ ہے تو نچلے درجے کا ملازم لیکن دماغ کسی گزشتہ صدر والا۔ کئی ذیلی کاروبار شروع کیے ہوئے ہیں۔ مثلاً شام کو پان شاپ چلاتا ہے۔ دو ویگنیں چلتی ہیں۔ ایک پرائیویٹ کالج کی کنٹین کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔ دو سال بولی والی کمیٹیاں لے کر بھاگا ہے۔ نچلی سطح کے ”انتہائی نچلے“ علاقائی سیاستدانوں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ اسی وجہ سے بغیر سلامی دیے محلے کی شادیوں پر بمعہ اہل و ایال شکم سیری کرلیتا ہے۔ اپنی زوجہ کے نام پر گورنمنٹ کی انکم سپورٹ پروگرام کا کارڈ بھی بنوا رکھا ہے۔

حکومت نے ایک طرف مساکین و مستحقین کے لئے ”احساس“ پروگرام کا آغاز کیا ہے تو دوسری جانب کرونا کی وجہ سے لاک ڈاؤن ہونے پر غربا و مستحقین تک راشن پہنچانے کا اعلان کیا ہے۔ حکومت کا یہ اقدام نہایت قابلِ ستائش ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ یہ حکومت غربا کے لئے دردِ دل رکھتی ہے۔

مگر صاحبانِ اقتدار سے ہماری ایک ادنیٰ سی گزارش ہے کہ راشن کی اس تقسیم میں شفافیت کو یقینی بنایا جائے۔ ایسے افراد جن کی کوئی بہت زیادہ سیاسی وابستگیاں ہوں یا میلان براقرباپروری ہو تو خربوزوں کی نگرانی پہ گیدڑ نہ بٹھائے جائیں۔ بلکہ واقعی خُدا خوفی والے افراد کو یہ ذمہ داری سونپی جائے جو پوری ایمانداری سے غربا و مستحقین تک ان کا حق پہنچائیں۔ ورنہ بہت سارے لاقو ہمیشہ کی طرح بھوکے رہیں گے اور مقبولوں کے گھر میں راشن کے انبار لگ جائیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments