ناقابلِ فراموش سنگدلی


اچھے اور بُرے دن تو انسانوں اور قوموں پر آتے رہتے ہیں مگر سفاکی اور سنگدلی کے بعض واقعات کچھ اس انداز سے وقوع پذیر ہوتے ہیں کہ وہ انسانیت کی پستی کا قابلِ نفریں حوالہ بن جاتے ہیں۔

کربلا میں امام حسینؓ اور اُن کے خاندان پر جو مظالم ڈھائے گئے اُن کا تصور کرتے ہی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے اور یہ بھی محسوس ہونے لگتا ہے کہ ہمارے اردگرد بھی ایسے کردار موجود ہیں جو شمر کی طرح بےرحم اور سفاک ہیں اور اُن کی ستائش کرنے والے بھی دندناتے پھرتے ہیں۔

یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ کی آخری کتاب میں آیا ہے کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد مت پھیلائو تو وہ کہتے ہیں کہ ہم تو ’مصلحین‘ ہیں۔ چند سال پہلے پاکستان میں انسان دشمنی کا ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جو یہ احساس دلاتا رہے گا کہ ہمارے اجتماعی نظام کے اندر مسولینی کی فسطائیت کارفرما ہے۔ ہر عہد میں ظلم کے طور طریق اور ہتھیار مختلف رہے ہیں۔

ہمارے عہد میں بدقسمتی سے قومی احتساب بیورو (نیب) مختلف حکمرانوں کے آلۂ استبداد کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ ادارہ آرڈیننس کے ذریعے جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں وجود میں آیا۔ اس کی ماہیت اور اس کے درپردہ مقاصد کا سراغ لگانے کے لیے پاکستان کے تھنک ٹینک ’پائنا‘ نے قومی سیمینار کا انعقاد کیا جس میں قانون کے ماہرین کے علاوہ منجھے ہوئے سیاستدان، میڈیا کے تجربہ کار نمائندے اور اقتدار کے آزمودہ کھلاڑی مدعو کیے گئے تھے۔

طویل بحث و تمحیص کے بعد یہ سفارش کی گئی کہ اس ادارے کی کارکردگی سے یہ تاثر ہرگز نہیں ملنا چاہئے کہ اس کے ذریعے فوجی حکمران سویلین کو انتقام کا نشانہ بنا رہے ہیں اور اپنے اقتدار کو طول دینا چاہتے ہیں۔

بدقسمتی سے سیمینار کی سفارش کے برعکس نیب سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہوتا رہا۔ جنرل پرویز مشرف نے اس کے ذریعے مسلم لیگ(ن) میں سے (ق)لیگ برآمد کی اور اقتدار پر گرفت مضبوط رکھی۔ اس دوران جناب نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو نے میثاقِ جمہوریت پر دستخط کیے جس میں نیب کا ادارہ ختم کر کے ایک غیرجانبدار اور بااختیار احتساب کمیشن قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

بعدازاں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی اقتدار میں آئیں لیکن یہ مطلوبہ احتساب کمیشن قائم کرنے میں ناکام رہیں، تاہم پارلیمانی مدت کی تکمیل اور پُرامن انتقالِ اقتدار کا اہتمام کر سکیں۔ ہماری سیاسی تاریخ میں یہ ایک بڑی کامیابی تھی اگرچہ جناب عمران خان نے 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگا کر اسلام آباد کا چار ماہ تک محاصرہ کیا۔ اس گھیراو ٔکے خلاف تمام سیاسی جماعتیں متحد ہو گئیں اور نواز شریف حکومت یہ حملہ برداشت کرنے میں کامیاب رہی۔

پھر کچھ عرصے بعد وزیراعظم نوازشریف کو ایک پاناما چیلنج نے آلیا اور وہ عدالتِ عظمیٰ سے نا اہل قرار پائے، چنانچہ وزیراعظم ہاؤس کو الوداع کہہ کر جی ٹی روڈ کے ذریعے لاہور آگئے۔ قومی احتساب کی عدالتوں میں جناب نواز شریف اور محترمہ مریم نواز کے خلاف مقدمات دائر ہوئے۔ انہی دنوں بیگم کلثوم نواز کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور انہیں علاج کیلئے لندن لے جانا پڑا۔ وہ سرطان کے مرض میں مبتلا تھیں۔ ان کی حالت جب زیادہ بگڑ گئی تو نواز شریف اور مریم نواز ان کی عیادت کے لیے لندن گئے۔ مریضہ آخری دموں پر تھی کہ قومی احتساب عدالت نے باپ اور بیٹی کے خلاف سزائیں سنا دیں۔ عدالت کے احترام اور قانون کی پاسداری میں بیگم کلثوم نواز کو بستر مرگ پر چھوڑ کر باپ بیٹی سزا بھگتنے کیلئے پاکستان چلے آئے۔ یہ واقعہ ہماری سیاسی تاریخ میں مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ جس جج نے سزا سنائی اس نے ایک وڈیو میں اعتراف کیا کہ فیصلہ دباو ٔ کا نتیجہ تھا۔

ایک ایسا ہی واقعہ جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کے ساتھ مارچ2020 کی آخری تاریخوں میں پیش آیا۔ انہیں آزادیٔ صحافت کی جنگ لڑنے کی سزا دینے کے لیے نیب نے 12مارچ کو 34 برس پہلے خریدی گئی زمین کے من گھڑت الزام پر گرفتار کر لیا۔ اس گرفتاری کے خلاف قومی اور بین الاقوامی سطح پر آوازیں بلند ہوتی رہیں۔

میر شکیل الرحمٰن کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ میں ضمانت کے لئے درخواست دائر کی گئی۔ اسی وقت یہ تشویشناک خبر آئی کہ ان کے بڑے بھائی میر جاوید رحمٰن کی اسپتال میں حالت بہت غیر ہوتی جا رہی ہے۔

انسانی حقوق کی وزیر محترمہ ڈاکٹر شیریں مزاری نے نیب کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کو خط لکھا کہ انسانی بنیاد پر میر شکیل الرحمٰن کو فوری طور رہا کردیا جائے۔ چیئرمین صاحب نے یہ جانتے ہوئے کہ کراچی جانے کے فضائی راستے بند ہیں، صرف ایک دن کی رہائی کا حکم سنایا مگر ضابطے پورے نہ ہونے کی وجہ سے وہ جیل سے باہر نہ آ سکے۔ دوسرے روز میر جاوید رحمٰن کی زندگی کا چراغ گل ہو گیا اور چھوٹا بھائی اپنے بڑے بھائی سے زندگی میں آخری ملاقات نہ کر سکا۔

اگرچہ اب انہیں سات روز کے لیے رہائی مل گئی ہے مگر یہ انسانی شقاوتِ قلبی کا ایک ایسا واقعہ وقوع پذیر ہوا ہے جس نے لاتعداد لوگوں کے دل چھلنی کر دیے ہیں۔ یہ ایک ایسا دکھ ہے جو ہماری تاریخ کی رگوں میں دوڑتا اور آنے والی نسلوں کو بھی اداس کرتا رہے گا۔

میر جاوید رحمٰن جو میر خلیل الرحمٰن کے بڑے صاحبزادے تھے انہوں نے اپنے والد محترم کی تابندہ روایات قائم رکھیں اور اردو صحافت کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں سےنئی وسعتیں اور جدتیں عطا کی ہیں۔ وہ جنگ گروپ کے چیئرمین، پبلشر اور ہفت روزہ اخبارِ جہاں کے چیف ایڈیٹر تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان پر اپنی رحمتوں کی بارش کرتا رہے۔ وہ بلاشبہ بے پایاں خوبیوں کے مالک اور غیرمعمولی جرأت، راست بازی اور شائستگی کا حسین پیکر تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments