کیا عمران خان قومی لیڈر بن سکتے ہیں؟


کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے بحران نے عمران خان کو یہ نادر موقع فراہم کیا تھا کہ وہ صرف تحریک انصاف کے وزیر اعظم بننے کی بجائے ملک بھر کے رہنما بن جاتے۔ متعدد وجوہ کی بنا پر وہ اس مقصد میں ناکام ہوئے ہیں۔ کووڈ۔19 سے پیدا ہونے والا بحران ابھی تک جاری ہے۔ خود وزیر اعظم عمران خان نے آج اقرار کیا ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ بحران دو تین ہفتے میں کیا صورت اختیار کرے گا اور ہمیں کیسے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اس کے باوجود عمران خان قومی لیڈر بننے کے اس موقع کو ضائع کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ بحران میں یک جان ہونے والی جس قوم کی بات کرتے ہیں، اس کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی کیوں کہ اس قوم کو درپیش بحران سے نکالنے اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات سے نمٹنے کے لئے اکٹھا کرنے والا کوئی قومی لیڈر سامنے نہیں ہے۔
کووڈ۔ 19 کے پھیلاؤ کو روکنے اور اس کی وجہ سے بیمار ہونے والے لوگوں کو مناسب طبی سہولتیں فراہم کرنے کا کام اس وقت کئی سطحوں پر ہورہا ہے ۔ بظاہر ان مختلف شعبوں میں کوئی رابطہ نہیں ہے۔ اب پاک فوج کی کوششوں سے ایک نیشنل کمانڈ اینڈ کوآپریشن سنٹر قائم کیا گیا ہے۔ اس کے چیف کو آرڈینیٹر لیفٹینٹ جنرل حمودالزمان خان ہوں گے۔ اگرچہ رسمی قیادت وزیر منصوبہ بندی اسد عمر کے حوالے کی گئی ہے۔ اس کمانڈ اینڈ کوآپریشن سنٹر کا کوئی واضح مینڈیٹ سامنے نہیں آیا تاہم کہا یہ جارہا ہے کہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لئے اسے ون ونڈو آپریشن کی حیثیت حاصل ہوگی۔ اس اصطلاح کا بھی کوئی واضح مقصد موجود نہیں ہے لیکن یہ سنٹر فوج کی نگرانی میں قائم ہؤا ہے اور گزشتہ روز آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اس کا باقاعدہ افتتاح کرتے ہوئے کورونا کے خلاف قومی کوششوں میں فوج کے مکمل تعاون کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے اس چیلنج سے بطور قوم نمٹنے کی ضرورت پر بھی زور دیا تھا۔ اس پس منظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہونا چاہئے کہ کورونا وائرس کے حوالے سے پاکستان کو جس بحران کا سامنا ہے، اس سے نمٹنے کے لئے فوج نے کمان سنبھالنے اور ’قائدانہ کردار‘ ادا کرنے کا عزم کیا ہے ۔ اسی مقصد سے یہ مرکز بھی قائم کیا گیاہے۔
اس سے پہلے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورت حال کا جائزہ لینے اور فوری فیصلے کرنے کے لئے قومی رابطہ کمیٹی (این سی سی )قائم کی گئی تھی جس کے اجلاس وزیر اعظم کی سربراہی میں منعقد ہوتے رہےہیں۔ اس کے علاوہ تمام صوبوں کی حکومتیں اپنے اپنے طور پر کورونا سے نمٹنے، اس کے پھیلاؤ کو روکنے اور وائرس کے متاثرین کے علاوہ لاک ڈاؤن سے متاثر ہونے والے غریب لوگوں کو امداد فراہم کرنے کے لئے اقدامات کررہی ہیں۔ وزیر اعظم ہر گفتگو میں صوبائی حکومتوں کے اقدامات پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ لاک ڈاؤن پاکستان کی صورت حال میں اس مسئلہ کا مناسب حل نہیں ہے۔ ان کے خیال میں اس طرح خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے لوگوں کے لئے گزر بسر مشکل ہوجائے گی اور وہ کورونا وائرس کی بجائے بھوک سے مرنے لگیں گے۔
ملک کے طول و عرض میں لاک ڈاؤن کسی نہ کسی صورت میں جاری ہے حتی کہ دارالحکومت اسلام آباد جو کسی صوبائی حکومت کی بجائے براہ راست وفاق کے زیر انتظام علاقہ ہے، وہاں بھی لاک ڈاؤن کیا گیا ہے اور زندگی کی مصروفیات محدود ہیں۔ اس کے باوجود عمران خان یہی کہتے ہیں کہ لاک ڈاؤن کا فیصلہ اٹھارویں ترمیم کے تحت ملنے والے اختیارات کی وجہ سے صوبائی حکومتوں نے کیا ہے۔ مرکزی حکومت کا ان اقدامات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسا کہتے ہوئے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ تین صوبوں میں ان ہی کی پارٹی کی حکومت ہے، لیکن وہاں پر بھی عملی طور سے وہی اقدامات کئے گئے ہیں جو سندھ میں پیپلزپارٹی کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے شروع کئے تھے۔ وہ اب بھی مکمل لاک ڈاؤن کو مسئلہ کا حقیقی حل سمجھتے ہیں اور انہوں نے واضح کیا ہے کہ اس وقت دوسرے ملکوں کے مقابلے میں پاکستان میں کورونا متاثرین کی کم تعداد کو دیکھنے کی بجائے اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد دیگر ملکوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ سندھ حکومت نے آج نماز جمعہ کے اجتماعات پر پابندی کو مؤثر بنانے کے لئے دن کے چند گھنٹوں کے دوران لاک ڈاؤن میں سختی کی اور تمام مساجد کی نگرانی سخت کردی گئی۔ اس موقع پر بعض مقامات سے ناراض نمازیوں کی طرف سے پولیس پر حملے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔
سرکاری انتظامات اور حکمت عملی کی طرح ملک کے دینی رہنما بھی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ہونے والے اقدمات کے بارے میں تقسیم ہیں۔ علما کا ایک طبقہ حکومت کی ہدایات کے مطابق مساجد میں جانے کی بجائے گھروں پر نماز پڑھنے کا مشورہ دیتا ہے جبکہ علما کا ہی دوسرا گروہ ہر قیمت پر مساجد کھولنے اور ’محدود‘ پیمانے پر نماز باجماعت اور نماز جمعہ کا اہتمام کرنے کی رائے دے رہا ہے۔ اس طرح لاک ڈاؤن کے حوالے سے صرف مرکزی حکومت اور صوبوں میں ہی اختلاف رائے موجود نہیں ہے دینی اور سماجی سطح پر بھی یہ تقسیم واضح طور سے دیکھی جاسکتی ہے۔ ملک میں جمہوری انتظام کی لاج رکھنے کے لئے فوج نے لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لئے صوبائی حکومتوں کو مکمل تعاون فراہم کیا ہے۔ اب لیفٹینٹ جنرل حمود الزمان کی نگرانی میں کنٹرول اینڈ کمانڈ سنٹر بنا کر دراصل صوبوں کے ساتھ براہ راست تعاون کا پلیٹ فارم فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس اقدام سے وزیر اعظم کے علاوہ قومی قائد کے طور پر عمران خان کی حیثیت متاثر ہوئی ہے۔
عمران خان صرف لاک ڈاؤن ہی کے حوالے سے صوبائی اقدامات کے مخالف نہیں ہیں بلکہ مساجد بند کرنے یا کورونا کو ایک وبا یا اللہ کی سزا سمجھنے کے سوال پر بھی وہ غیر واضح رائے رکھتے ہیں۔ جس وقت وبا سے نمٹنے کے لئے قائدانہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے اور قومی سطح پر ابہام دور کرنے کی ضرورت تھی، عمران خان لاک ڈاؤن کی مخالفت کے علاوہ وبا کا مقابلہ قوت ایمانی سے کرنے اور دعاؤں کی ضرورت پر زور دے رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں یہ اختلاف زیادہ شدید ہؤا کہ کورونا کی وجہ سے سماجی دوری کو کس حد تک عبادات پر اثرانداز ہونا چاہئے۔ مارچ کے دوران رائے ونڈ میں تبلیغی اجتماع کا انعقاد بھی اسی بے یقینی اور مرکزی سطح پر پائے جانے والے شبہات کا نتیجہ تھا۔
کووڈ۔19 ایک وبا ہے جس کا مقابلہ کرنے کے لئے ڈاکٹروں کی خدمات اور سائنسدانوں کی صلاحیتیں بروئے کار لائی جارہی ہیں۔ جبکہ عملی انتظامات کی ذمہ داری منتخب حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ عمران خان اگر بروقت اس وبا کی سنگینی کا ادارک کرتے ہوئے قومی سطح پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں کردار ادا کرتے تو کسی کو بھی ان کی قیادت سے انکار کا حوصلہ نہیں ہوسکتا تھا۔ تاہم عمران خان بوجوہ اس موقع سے فائدہ اٹھانے اور خود کو ایک پارٹی لیڈر اور سیاسی طالع آزما کی سطح سے بلند کرنے میں کامیاب نہیں ہوپائے۔ ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کو غیر مشروط تعاون کی پیش کش کی تھی۔ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلاکر کورونا وائرس کی حکمت عملی پر کام کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا۔
عمران خان یہ سمجھنے میں ناکام رہے کہ اگر وہ اس موقع پر اپوزیشن کے ساتھ ملاقات کرتے یا پارلیمنٹ کو اس جدوجہد کا مرکز بنادیتے تو انہیں جمہوری لیڈر کے طور پر وقار اور مرتبہ بھی حاصل ہوتا اور قومی سطح پر ان کے قد کاٹھ میں بھی اضافہ ہوتا۔ اپوزیشن اس بحران میں بہر صورت حکومت کا ساتھ دینے پر مجبور تھی۔ اپوزیشن پارٹیوں کو ساتھ ملاکر حکومت کی سیاسی یا اخلاقی پوزیشن کمزور نہ ہوتی بلکہ وہ اپوزیشن پارٹیوں کو غیر متعلق کرنے میں کامیاب ہوتی۔ عمران خان اگرچہ اپوزیشن کو غیر مؤثر اور غیر متعلق ہی کرنا چاہتے ہیں لیکن انہوں نے اپوزیشن لیڈروں کے ساتھ لاتعلقی کی جو حکمت عملی اختیار کی ہے اور جس طرح وہ اب بھی ان کا ذکر حقارت اور نفرت سے کرتے ہیں، ا س کی وجہ سے ان لیڈروں اور جماعتوں کو سیاسی اہمیت بھی حاصل ہورہی ہے اور حکومت کی ناکامیوں کی نشاندہی کرکے پوائنٹ اسکورنگ کا موقع بھی مل رہا ہے۔
کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں اس وقت فوج پہلی صف میں موجود ہے۔ وہ وزیر اعظم کی ناکامیوں سے پیدا ہونے والے خلا کو خود پورا کررہی ہے۔ قومی کمانڈ و رابطہ سنٹر ( این سی او سی) کے تحت کورونا وائرس کے خلاف اقدامات کی نگرانی اور صوبائی حکومتوں سے رابطہ و مشاورت کی ذمہ داری اب فوج نے خود سنبھالی ہوئی ہے۔ سندھ میں مراد علی شاہ قائدانہ صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے خود کو صاحب بصیرت اور وقت کے تقاضوں و ضرورتوں کے مطابق فیصلے کرنے والے لیڈر کے طور پر منوا چکے ہیں۔ باقی تینوں صوبوں کی حکومتیں بھی فوج کی ہدایت و نگرانی میں وہی اقدامات کررہی ہیں جن کا تجربہ سندھ میں کیا جاتا ہے۔ عمران خان اس دوران پسندیدہ صحافیوں سے طویل ملاقاتوں کے ذریعے یہ واضح کرنے کے مشن پر گامزن ہیں کہ صوبے کون سی غلطی کررہے ہیں۔ یا بدعنوان لیڈروں کو اس وبا سے پیدا ہونے والے بحران سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں دیاجائے گا۔
انتقام و نفرت کے جوش میں عمران خان یہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں قومی لیڈر بننے کا نادر روزگار موقع مل رہا ہے لیکن وہ وقت کی نزاکت کو سمجھنے اور پورے خلوص سے قومی قیادت کا فریضہ ادا کرنے میں ناکام ہورہےہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2768 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments