وہ پاکستانی ڈاکٹرز جو چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر ہیں!


کورونا وائرس سے متاثرہ یا اس وائرس کے مشتبہ مریضوں کا علاج کرنے والے بہت سے ڈاکٹر اور دیگر طبی عملہ ان دنوں تقریباً چوبیس گھنٹے ڈیوٹی پر رہتے ہیں اور اپنے گھر والوں سے نہیں مل سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں اب فرنٹ لائن ہیروز کہا جاتا ہے۔

پاکستان میں اس طرح کے متعدد ڈاکٹر اور ان کے ساتھ دیگر طبی عملے کے لوگ ہیں جو ان دنوں انسانیت کی خدمت کر رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک ڈاکٹر ضیا اللہ خان ہیں جو خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں صبح اپنی ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں اور شام کو سوات کے مقامی ریڈیو پر جاری پروگرام ریڈیو کلینک میں لوگوں کو مشورے اور علاج تجویز کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ان دنوں ڈاکٹروں کے اوقات کار نہیں ہیں بس چوبیس گھنٹے ڈیوٹی ہے۔

کورونا وائرس کی وبا پھوٹنے کے بعد طبی عملے کی مثال اب اس فوجی کی طرح ہے جو جنگ کے دنوں میں فرنٹ لائن پر موجود ہوتا ہے۔

کورونا

جب وینٹی لیٹر کے لیے مریض کا چناؤ کرنا پڑے

اب آپ گھر بیٹھے خون کا عطیہ دے سکتے ہیں

پشاور میں پہلےعلاقائی بلڈ سینٹر کا افتتاح


ڈاکٹرز کیا کرتے ہیں؟

سوات میں شروع کیے گئے ریڈیو کلینک پر ڈاکٹر ضیا اللہ ِخان لوگوں کو سماجی دوری کے دوران اپنے گھروں تک محدود رہنے اور محفوظ رہنے کے آسان طریقے سمجھاتے رہتے ہیں۔

ڈاکٹر ضیا اللہ ایک فیملی فزیشن ہیں اور ان دنوں ان کی ڈیوٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفس میں ایمرجنسی ریسپانس یونٹ میں ہے۔

کورونا

صبح کے اوقات میں ضلع میں کورونا وائرس کے بارے میں کوئی کال موصول ہو تو وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں سے ان کی ٹیم وائرس سے مبینہ طور پر متاثر افراد کے نمونے حاصل کرتی ہے اور یہ ان سے ان کی صحت کے بارے میں سوالات کرتے ہیں۔

اس سارے عمل میں وہ خود کو اور اپنی ٹیم کو محفوظ رکھنے کے لیے ذاتی تحفظ کے تمام اقدامات کرتے ہیں اور مبینہ مریضوں کو بھی محفوظ رہنے اور دیگر افراد کو وائرس سے محفوظ رکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔

ڈاکٹر ضیا اللہ خان مینگورہ کے رہائشی ہیں اور شام کے وقت وہ ریڈیو پختونخوا سوات میں ریڈیو کلینک پر لوگوں کو مشورے دیتے ہیں اور انھیں معمولی بیماریوں کے بارے میں ادویات بھی تجویز کرتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جب سے یہ وبا پھیلی ہے اکثر ڈاکٹر جو اس وائرس سے متاثرہ مریضوں کا علاج کرتے ہیں یا ان سے وابستہ ہیں، وہ اپنے گھروں کو نہیں جا سکتے بلکہ ان کے لیے سوات میں ایک مقامی ہوٹل میں قرنطینہ قائم کر دیا گیا ہے اور وہ ڈیوٹی کے بعد اس ہوٹل میں چلے جاتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ان دنوں ڈاکٹر 24 گھٹے ڈیوٹی پر رہتے ہیں اور اس کی مثال انھوں نے یوں دی کہ پہلے وہ چھ گھنٹے ڈیوٹی کرتے تھے، صبح وہ ضلعی ہیلتھ آفس میں ہوتے ہیں، شام کو ریڈیو کلینک اور اس کے بعد بھی اگر ضرورت ہو تو وہ رات دیر تک ڈیوٹی سر انجام دیتے ہیں۔

کورونا

ریڈیو کلینک کیا ہے؟

یہ ایک ایسا کلینک ہے جو ایک ریڈیو سٹیشن میں ہے اور جہاں کسی کا جانا نہیں پڑتا بلکہ ایک فون کال کے ذریعے ہی ماہر ڈاکٹر تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے۔ آپ کی کال ریڈیو سٹیشن میں موجود ڈاکٹر سنتے ہیں، آپ کو مشورہ دیتے ہیں اور اپ کو ادویات بھی تجویز کرتے ہیں۔

کورونا

سوات میں ریڈیو خیبر پختونخوا کے ایف ایم چینل نے ریڈیو کلنیک کی سروس وسط مارچ سے شروع کی گئی ہے اور یہ خصوصی سروس لوگوں کی صحت کے مسائل کے بارے میں ہے۔

ریڈیو خیبر پختونخوا سوات کے سٹیشن ڈائریکٹر ابن امین نے بی بی سی کو بتایا کہ ابتدائی طور پر دن میں صبح شام دو وقت یہ ریڈیو کلینک پروگرام نشر کیا جاتا ہے۔ صبح کے وقت دس بجے سے دوپہر ایک بجے تک تین گھنٹے کا پروگرام ہوتا ہے جس میں ایک ڈاکٹر بچوں کی بیماریوں کا ماہر اور ایک ڈاکٹر جنرل فزیشن ہوتے ہیں جو لوگوں کو ان کی بیماریوں کے بارے میں مشورے اور ادویات بھی تجویز کرتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ صبح کے اوقات میں لگ بھگ ڈیڑھ سو تک ٹیلیفون کالز موصول ہوتی ہیں جنھیں طبی مشورے فراہم کیے جاتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ شام کے وقت ایک گھنٹے کی نشریات ہوتی ہیں جس میں ایک ماہر ڈاکٹر موجود ہوتے ہیں جو لگ بھگ چالیس کالز وصول کر پاتے ہیں اور طبی مشورے فراہم کرتے ہیں۔ ان پروگراموں کے دوران غیر ضروری کالز بھی ہوتی ہیں۔ اور بعض لوگ اپنے رشتہ داروں سے سنتے ہیں تو خلیجی ممالک سے بھی بعض اوقات کالز موصول ہوتی ہیں اور انھیں واٹس ایپ پر مشورے دیے جاتے ہیں۔

ابن امین نے بتایا کہ بعض غریب لوگ ٹیلیفون کا خرچہ بھی برداشت نہیں کر سکتے تو وہ مس کال دیتے ہیں جس پر ریڈیو سے انھیں کال کی جاتی ہے اور انھیں طبی مشورے یا انھیں ادویات تجویز کر دی جاتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کی صبح کی نشریات رات کو دوبارہ بھی نشر کیا جاتا ہے تاکہ دیگر لوگ بھی اس سے مستفید ہو سکیں۔

ڈاکٹر ضیا اللہ نے بتایا کہ وہ بنیادی طور پر لوگوں کو صحت کے بارے میں مشورے دیتے ہیں اور اگر بہت ضروری ہو تو بنیادی امراض کے لیے ادویات بھی تجویز کرتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں لوگ گھروں میں محدود ہیں اس لیے اس ذریعے سے وہ لوگوں تک خود پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ وہ جذبہ ہے جس کے تحت وہ کام کر رہے ہیں۔ یہ انسانیت کی خدمت ہے جس سے انھیں تسکین ملتی ہے۔

یہ ریڈیو کہاں کہاں سنا جاتا ہے

ریڈیو خیبر پختونخوا سوات کی نشریات اپر ملاکنڈ، چکدرہ، اپر دیر، گبرال اور شانگلہ میں سنی جاتی ہیں اور یہ علاقوں کی بڑی آبادی کے لیے اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔

ابن امین نے بتایا کہ موجودہ صورتحال میں اخبارات نہیں آرہے جبکہ مقامی اخبارات بھی شائع نہیں ہو رہے اور زیادہ تر لوگ جو گھروں میں محدود ہیں تو وہ ریڈیو کی نشریات سنتے ہیں اور ان نشریات سے انھیں فائدہ ہوتا ہے۔

سوات میں ماضی میں طالبان اپنے عروج پر تھے تو ان دنوں طالبان رہنما بھی لوگوں تک اپنے پیغامات پہنچانے کے لیے ریڈیو کا استعمال کرتے تھے۔ طالبان رہنماؤں نے سال 2005 اور سال 2006 میں سوات میں غیر قانونی ایف ایم ریڈیو چینل شروع کیا تھا جس کی وجہ سے انہیں بہت کم عرصے میں لوگوں میں کافی مقبولیت حاصل ہوگئی تھی۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں اب بھی ریڈیو کے شوقین لوگ موجود ہیں۔

کورونا وائرس کی وجہ سے خیبر پختونخوا کے بیشتر ہسپتالوں میں او پی ڈی بند ہیں اور صرف ایمرجنسی سروس فراہم کی جا رہی ہیں۔ اس لیے زئادہ تر لوگ اپنے طبی مسئلوں کے لیے ٹیلیفون کالز کرتے ہیں۔

اس ریڈیو سٹیشن میں عملے کی کمی ہے اس لیے مقامی صحافی بھی معاونت کرتے ہیں جبکہ ضلعی محکمہِ صحت کے افسران پروگرامز کے لیے ڈاکٹروں کی دستیابی کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp