بائی فوکل کلب – مشتاق احمد یوسفی


چار مہینے ہونے آئے تھے۔ شہر کا کوئی لائق ڈاکٹر بچا ہو گا جس نے ہماری مالی تکالیف میں حسب لیاقت اضافہ نہ کیا ہو۔ لیکن بائیں کہنی کا درد کسی طرح کم ہونے کا نام نہ لیتا تھا۔ علاج نے جب شدت پکڑی اور مرض نے پیچیدہ ہو کر مفلسی کی صورت اختیار کر لی تو لکھنؤ کے ایک حاذق طبیب سے رجوع کیا جو صرف مایوس اور لب گور مریضوں پر عمل مسیحائی کرتے تھے۔ مریض کے جانبر ہونے کا ذرا بھی امکان نظر آئے تو بگڑ جاتے اور اسے دھُتکار کر نکلوا دیتے کہ جاؤ، ابھی کچھ دن اور ڈاکٹر سے علاج کراؤ۔

اللہ نے ان کے ہاتھ میں کچھ ایسا اعجاز دیا تھا کہ ایک دفعہ ان سے رجوع کرنے کے بعد کوئی بیمار خواہ وہ بستر مرگ پر ہی کیوں نہ ہو، مرض سے نہیں مرسکتا تھا۔ دوا سے مرتا تھا۔ مرض کے جراثیم کے حق میں تو ان کی دوا گویا آب حیات کا حکم رکھتی تھی۔ غریبوں کا علاج مفت کرتے، مگر رؤسا کو فیس لیے بغیر نہیں مارتے تھے۔ حکیم صاحب اونچا سنتے ہی نہیں، اونچا سمجھتے بھی تھے۔ یعنی صرف مطلب کی بات۔ شاعری بھی کرتے تھے۔ ہم اس پر اعتراض کرنے والے کون؟

لیکن مصیبت یہ تھی کہ طبابت میں شاعری اور شاعری میں طبابت کے ہاتھ دکھا جاتے تھے۔ مطلب یہ کہ دونوں میں وزن کے پابند نہ تھے۔ حکیموں میں اپنے علاوہ، استاد ابراہیم ذوؔق کے قائل تھے۔ وہ بھی اس بناء پر کہ بقول آزؔاد، استاد نے موسیقی اور نجوم سیکھنے کی سعیِ نا مشکور کے بعد طب کو چند روز کیا۔ مگراس میں خون ناحق نظر آنے لگے۔ چنانچہ انہی صلاحیتوں کارخ اردو شاعری کی طرف موڑ دیا۔ حکیم صاحب موصوف اپنی ذات و بیاض پر کامل اعتماد رکھتے تھے۔ ہاں کبھی اپنی ہی ایجاد کردہ معجون فلک سیرکے زیر اثر طبیعت فراخدلی و فروتنی پر مائل ہو جائے تو سخن فہم مریض کے سامنے یہاں تک اعتراف کر لیتے کہ ایک لحاظ سے غالب ان سے بہتر تھا۔ خط اچھے خاصے لکھ لیتا تھا۔ مگر اب وہ مکتوب الیہ کہاں، جنھیں کوئی ایسے خط لکھے۔

خاندانی حکیم تھے۔ اور خاندان بھی ایسا ویسا! ان کے پردادا قصبہ سندیلہ کے جالینوس تھے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ حکیم جالینوس نابینا و کثیر الازدواج نہ تھا۔ یہ تھے۔ نباضی میں چار دانگ سندیلہ میں ان کا کوئی ثانی نہ تھا۔ راویان رنگیں بیاں گزارش کرتے ہیں کہ آبائی حویلی میں چار بیگمات (جن میں ہر ایک چوتھی تھی) اور درجنوں حرمیں اور لونڈیاں رلی پھرتی تھیں۔ تہجد کے وقت وضو کرانے کی ہر ایک کی باری مقرر تھی، مگر آدھی رات گئے آواز دے کرسب کی نیند خراب نہیں کرتے تھے۔ ہولے سے نبض چھو کر باری والی کو جگا دیتے تھے اور ایسا کبھی نہیں ہوا کہ غلط نبض پر ہاتھ ڈالا ہو۔

نبیرۂ جالینوس نے ہماری نبض، زبان، جگر، پیٹ، ناخن، قارورہ، پپوٹے۔ ۔ مختصر یہ کہ سوائے کہنی کے ہر چیز کا معائنہ فرمایا۔ فیس کا تعین کرنے سے پہلے ہماری کار کا انجن بھی اسٹارٹ کروا کے بچشمۂ خود ملاحظہ فرمایا اور فیس معاف کر دی۔ پھر بھی احتیاطاً پوچھ لیا کہ مہینے کی آخری تاریخوں میں آنکھوں کے سامنے ترمرے ناچتے ہیں؟ ہم نے سر ہلا کر اقرار کیا تو مرض اور اردو زبان کے مزے لوٹتے ہوئے فرمایا کہ دست بخیر! مقام ماؤف پر جو درد ہے، درد میں جو چپک ہے، چپک میں جو ٹیس ہے، اور ٹیس میں جو کسک رہ رہ کر محسوس ہوتی ہے، وہ ریاحی ہے! بقول مرزا، یہ تشخیص نہ تھی، ہمارے مرض کی توہین تھی۔ ہمارے اپنے جراثیم کے منہ پر طمانچہ تھا۔ چنانچہ یونانی طب سے رہا سہا اعتقاد چوبیس گھنٹوں کے لیے بالکل اٹھ گیا۔ ان چوبیس گھنٹوں میں ہم نے کہنی کا ہر زاویے سے ایکس رے کرایا۔ لیکن اس سے مایوسی اور بڑھی۔ اس لیے کہ کہنی میں کوئی خرابی نہیں نکلی!

پورے دو مہینے مرض میں ہندو یوگ آسن اور میتھی کے ساگ کا اضافہ کرنے کے بعد ہم نے مرزا سے جا کر کیفیت بیان کی۔ استماع حال کے بعد ہماری دائیں چپنی پر دو انگلیاں رکھ کر انہوں نے نبض دیکھی۔ ہم نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا تو بولے، چالیس سال بعد مرد کا دل نیچے اتر آتا ہے! پھر فرمایا، تمہارا علاج یہ ہے کہ فوراً بائی فوکل بنوا لو۔ ہم نے کہا مرزا! تم تو شراب بھی نہیں پیتے۔ کہنی کا آنکھ سے کیا تعلق؟ بولے، چار پانچ مہینے سے دیکھ رہا ہوں کہ تمہاری پاس کی نظر بھی خراب ہو گئی ہے۔ کتاب نزدیک ہو تو تم پڑھ نہیں سکتے۔ تقاضائے سن ہی کہنا چاہیے۔ تم اخبار اور کتاب کو آنکھ سے تین فٹ دور بائیں ہاتھ میں پکڑ کے پڑھتے ہو۔ اسی لیے ہاتھ کے پٹھے اکڑ گئے ہیں۔ چنانچہ کہنی میں جو درد ہے، درد میں جو۔ ۔ ۔ الخ۔

مانا کہ مرزا ہمارے مونس و غم خوار ہیں، لیکن ان کے سامنے افشائے مرض کرتے ہوئے ہمیں ہول آتا ہے۔ اس لیے کہ وہ اپنے فقیری چٹکلوں سے اصل مرض کو تو جڑ بنیاد سے اکھیڑ کر پھینک دیتے ہیں، لیکن تین چار نئے مرض گلے پڑ جاتے ہیں، جن کے لیے پھر انہی سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اور وہ ہر دفعہ اپنے علاج سے ہر مرض کوچارسے ضرب دیتے چلے جاتے ہیں۔ فائدہ اس طریق علاج کا یہ ہے کہ شفائے جزوی کے بعد جی پھر علالت اصلی کے رات دن ڈھونڈتا ہے۔

اور مریض کو اپنے مفرد مرض کے مرحوم جراثیم بے طرح یاد آتے ہیں اور وہ ان کی شفقتوں کو یاد کر کر کے روتا ہے۔ کچھ دنوں کی بات ہے۔ ہم نے کہا، مرزا! تین چار مہینے سے ہمیں تکیے پر صبح درجنوں سفید بال پڑے ملتے ہیں۔ فرمایا، اپنے تکیے پر؟ عرض کیا ہاں! شرلک ہومز کے مخصوص جاسوسی انداز میں چند منٹ گہرے غور و خوض کے بعد فرمایا، غالباً تمہارے ہوں گے۔ ہم نے کہا، ہمیں بھی یہی شبہ ہوا تھا۔ بولے، بھائی میرے!

تم نے تمام عمر ضبط و احتیاط سے کام لیا ہے۔ اپنے نجی جذبات کو ہمیشہ شرعی حدود میں رکھا ہے۔ اسی لیے تم 38 سال کی عمر میں گنجے ہو گئے ہو! اس تشخیص کے بعد انہوں نے ایک روغنی خضاب کا نام بتایا، جس سے بال کالے اور مضبوط ہو جاتے ہیں۔ چلتے وقت انہوں نے ہمیں سختی سے خبردار کیا کہ تیل برش سے لگایا جائے ورنہ ہتھیلی پر بھی بال نکل آئیں گے، جس کے وہ اور دوا ساز کمپنی ہرگز ہرگز ذمہ دار نہ ہوں گے۔ واپسی میں ہم نے انتہائی بے صبری کے عالم میں سب سے بڑے سائز کی شیشی خریدی اور دکاندار سے ریزگاری بھی واپس نہ لی کہ اس میں سراسر وقت کا ضیاع تھا۔ چالیس دن کے مسلسل استعمال سے یہ اثر ہوا کہ سر پر جتنے بھی کالے بال تھے، وہ تو ایک ایک کر کے جھڑ گئے۔ البتہ جتنے سفید بال تھے، وہ بالکل مضبوط ہو گئے۔ چنانچہ آج تک ایک سفید بال نہیں گرا، بلکہ جہاں پہلے ایک سفید بال تھا، وہاں اب تین نکل آئے ہیں۔

بائی فوکل کا نام آتے ہی ہم سنبھل کے بیٹھ گئے۔ ہم نے کہا، مرزا! مگر ہم تو ابھی چالیس سال کے نہیں ہوئے۔ بولے، مرض کے جراثیم پڑھے لکھے نہیں ہوتے کہ کیلنڈر دیکھ کر حملہ کریں۔ ذرا حال تو دیکھو اپنا۔ صحت ایسی کہ بیمہ کمپنیوں کے ایجنٹ نام سے بھاگتے ہیں۔ صورت ایسی جیسے، معاف کرنا، ریڈیو فوٹو۔ اور رنگ بھی اب گندمی نہیں رہا۔ خوف الٰہی و اہلیہ سے زرد ہو گیا ہے۔ اگر کبھی یاروں کی بات مان لیتے تو زندگی سنور جاتی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments