کرونا وائرس: سازشی تھیوری اور بنیادی سائنسی معلومات


سوال: لیکن اس وائرس کے خلاف مزاحمت کی بات ابھی تک مکمل نہیں ہوئی۔

جواب: وائرس یا بیکٹریا کے خلاف مزاحمت کرنے والے جسم کے مادوں کو ”اینٹی باڈی“ کہتے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے مادے ہوتے ہیں۔ اصلی بات یہ ہے کہ جسمانی مدافعتی اور مزاحمتی مادے وائرس کو اس کے بیرونی خول سے پہچان کر اسے تباہ کرتے ہیں۔

بنی نوع انسان کا مدافعتی نظام اب سے پہلے کبھی اس وائرس کو جانتا تک نہیں تھا، اس وجہ سے انسانوں میں اس کے خلاف مدافعت بھی نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ بہت تیزی سے پھیل کر پوری دنیا میں وباء کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ عالمی وباء بننے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ یہ وائرس نہایت آسانی کے ساتھ ایک انسان سے یا اردگرد کی مادی چیزوں کو چھونے سے دوسرے انسانوں تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ انسان کا اس وائرس کو پہچاننا اور پھر اپنے اندر تبدیلی لے کر آنا تا کہ وائرس کے خلاف اپنے جسم میں مدافعتی مادے پیدا کر سکے، ایک ارتقائی عمل ہے۔

ہمارا تجربہ یہ بھی ہے کہ وائرس بھی اپنے اندر تبدیلی پیدا کرتا ہے جس سے انسانی جسم اسے آسانی سے پہچان نہیں پاتا اور اس وجہ سے بیماری کی شکل بدل جاتی ہے۔ یہ دونوں مشاہدات حیاتیاتی ارتقاء کی دلیل ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ڈارون والا ارتقاء کا نظریہ اگر حقیقت ہے تو اس زمانے میں ارتقاء نظر کیوں نہیں آتا یا وہ دوست جو ڈارون والے ارتقائی نظریے کو سرے سے نہیں مانتے، انہیں اس کرونا وائرس، ایڈز وائرس یا ملیریا کے جراثیم پر غور کرنا چاہیے، انہیں حیاتیاتی ارتقاء کی دلیلیں بہت آسانی سے میسر آ جائیں گی۔

سوال: کیا کرونا وائرس کا ارتقاء چین یا امریکہ کی ایک دوسرے کے خلاف اقتصادی جنگ کا بائی پراڈکٹ ہے؟ کہتے ہیں یہ وائرس چین نے پیدا کیا ہے؟

جواب: اقتصادی جنگ کی بات ہم کسی اور دن کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ وائرس کے موجودہ ارتقائی عمل کو اقتصادیات کے ساتھ جوڑنے کے واسطے بنیادی ثبوت کی ضرورت ہے جو ابھی تک کسی نے مہیا نہیں کیا۔ سازشی تھیوری میں لفظ ”تھیوری“ یہاں مجبوری سے استعمال کر رہا ہوں۔ کسی خیال کے تھیوری بننے کی راہ میں پہاڑ پر چڑھنے جیسا کام اور ثبوت چاہیے ہوتا ہے جو اس وقت تک ناپید ہے۔

ان وائرس کی جانب واپس آتے ہیں۔ موجودہ کرونا وائرس فیملی پہلے سے چین میں بعض جانوروں میں موجود تھی، بغیر کوئی بیماری پیدا کیے۔ چین میں ایسے بعض جانور ہیں جن کو پر تکلف کھانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان میں کرونا فیملی کے وائرس کی نارمل رہائش تھی۔ ایک مفروضہ ہے کہ ایسی ہی کسی ضیافت میں کرونا وائرس انسان تک پہنچا اور معمولی سی جنیٹک تبدیلی کے نتیجے میں انسانوں میں وبائی ہلاکت کا سبب بن گیا۔ یوں کہیے کہ اسی ارتقاء کے نتیجے میں جس کی ہم نے ابھی بات کی ہے۔

جہاں تک اقتصادی جنگ اور وائرس کو ہتھیار کی طرح استعمال کرنے کی بات ہے، یہ ایک سازشی تھیوری کی بات ہے جو مجھے یقین ہے کہ بہت عرصے تک چلتی رہے گی۔ سسپنس مووی کو پسند کرنے والوں اور سازشی تھیوری کو پسند کرنے والوں کی شخصی نفسیات کے محرکات ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ سو ہماری گفتگو بھی گھروں میں اور ملاقاتوں میں چلتی رہے گی۔ مجھے یقین ہے کہ انٹر نیٹ پر بھی یہ گفتگو بمقدار وافر ملے گی۔

سوال: کرونا کے علاج میں کلونجی، زیتون کا تیل اور شہد کی اہمیت کیا ہے؟

جواب: شہد کا ذکر قرآن میں ہے، زیتون کا بھی ہے۔ مگر زیتون کے تیل کا اور کلونجی کا ذکر قرآن میں کہیں نہیں۔ کلونجی کا ذکر حدیث کی ایک کتاب میں ہے، جسے نسبتاً کمزور کتاب سمجھا جا تا ہے۔ تاہم میں کسی بھی آیت مبارکہ سے یا حدیث سے ناواقف ہوں، جس میں ان چیزوں کو کرونا کا علاج بتلایا گیا ہو۔ میرا خیال ہے کہ قرآن روحانی معاملات سے متعلق ہے، اسے میڈیکل ٹکنالوجی کی کتاب سمجھنا تھوڑی زیادتی کی بات ہے۔

سوال: کرونا کے علاج میں جسم کے اپنے مدافعتی اور مزاحمتی مادوں کی اوپر جو بات ہوئی تھی میڈیکل علم اس وقت کہاں کھڑا ہے اور کیا کوئی ویکسین جلد عام آدمی تک پہنچ سکتا ہے؟

جواب: ابھی کل ہی ایک ریسرچ شائع ہوئی ہے جس میں نوٹ کیا گیا ہے کہ جن ملکوں میں بچپن سے ٹی بی بیماری سے بچاو، کا ویکسین ”بی سی جی“ لگایا جاتا رہا ہے ان میں کرونا 19 وائرس سے شرح اموات توقع سے کم ہے۔ جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ لیکن وہ ممالک جن میں بی سی جی کو صحت عامہ کے لئے ماضی میں ضروری سمجھا نہیں گیا ان میں شرح اموات زیادہ ہے، مثال کے طور پر اٹلی، امریکہ، ایران اور لبنان۔ ایران میں بی سی جی لگانا 1984 میں شروع ہوا تھا۔

اس لئے ہو سکتا ہے کہ ایران کی 84 کے بعد کی آبادی میں شرح اموات کم ہو مگر ابھی تک اس سوال کا جواب دینے کے لئے کوئی ریسرچ سامنے نہیں آئی۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں بھی سماجی اور میڈیکل کا سسٹم کمزور ہونے کے باوجود شرح اموات کم ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کرونا 19 کے خلاف دفاعی طاقت اور بی سی جی کا آپس میں کوئی تعلق ہو۔ ان باتوں کو واضح کرنے کے لئے مزید ریسرچ کی ضرورت ہے۔ اس پہلی ریسرچ کے نتائج اگر مزید تحقیق سے نکھر کر سامنے آ جاتے ہیں تو یہ بہت خوش آئند بات ہو گی۔

اسی طرح ملیریا کی دوا کلوروکئین پر تحقیق جاری ہے۔ اور وہ مریض جو اس موذی مرض سے صحت یاب ہو ئے ہیں ان کے جسم میں سے مزاحمتی مادے کشید کر کے نئے مریضوں کو علاج کے طور پر دینے کے تجربات بھی جاری ہوئے ہیں۔ امید ہے کہ اس تحقیق کے نتائج بہت عرصے تک شائع ہوتے رہیں گے اور ان پر ماہرین کے مابین مباحثات چلتے رہیں گے۔ پرانے مقولے کے مصداق یہ کہنا ضروری ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ اور اسی مقولے کے مصداق، آخری بات کے طور پر اس وقت حفاطتی تدابیر ہی سب سے بہتر تدارک ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments