کرونا سے نجات کب؟


کرونا کی وبا نے پاکستان ہی نہیں دُنیا بھر میں جو ہمہ جہتی بحران پیدا کیا ہے اسے سنبھالنے کے لئے نجانے کتنے برس درکار ہوں گے۔ گھروں میں بند ہوئے لوگوں کو ذاتی حوالوں سے چند سوالات پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ٹھوس سوالات پر مرکوز ہوئی توجہ ہی بالآخر ایسے امکانات دریافت کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے جو روزمرہّ زندگی بحال ہوجانے کے بعد ہمیں بھرپور توانائی سے ان کے حصول کی جانب راغب کرسکے۔

طبی ماہرین کے لئے فی الوقت اہم ترین سوال کرونا وائرس کا علاج ڈھونڈنا ہے۔ کوئی ایسی ویکسین جو چیچک، خسرہ اور پولیو جیسے امراض کے تدارک کی طرح کرونا کی مدافعت بھی یقین بناسکے۔ موثر اور یقینی علاج کی دریافت تک خلقِ خدا کو محفوظ بنانے کے لئے کرفیو نما لاک ڈاؤن کے علاوہ کوئی اور راستہ ہی باقی نہیں رہا۔ امریکی صدر نے مجوزہ لاک ڈاؤن کی شدت سے مخالفت کی۔ کرونا کو ”نزلہ زکام“ ہی کی ایک قسم قرار دیتا رہا۔

ان لوگوں کو اس ضمن میں مسلسل حقارت سے اپنی زد میں لیتا رہا جو اس کی دانست میں کرونا کے نام پر لوگوں کو ”خوفزدہ“ بنارہے تھے۔ اس کی رعونت بالآخر امریکہ میں کرونا کے باعث ہوئی ہلاکتوں کی تعداد میں ہولناک اضافے کا باعث ہوئی۔ وہ بضد تھا کہ ایسٹر کا تہوار گزرجانے کے بعد امریکی شہروں کو 13 اپریل سے ”کھول“ دیا جائے گا۔ موذی وبا نے لیکن اسے بے بس بنادیا۔ ٹی وی کیمروں کے روبرو مگر وہ اب بھی شرمسار ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

وائٹ ہاؤ س میں قائم بریفنگ روم میں بیٹھ کر روزانہ میڈیا سے گفتگو کرتا ہے اور اس امر پر شاداں کہ اس کی میڈیا اپیرنس ریٹنگز کے نئے ریکارڈ قائم کررہی ہے۔ وطنِ عزیز میں عمران خان صاحب کسی حد تک ٹرمپ جیسا رویہ اپنائے رہے۔ اندھی نفرت وعقید ت سے بالاتر ہوکر سوچیں تو لاک ڈاؤن کی وجہ سے پاکستان کے لاکھوں نہیں ایک کروڑ سے زیادہ افراد روزگار نہ ہونے کے سبب فاقہ کشی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ان کی پریشانی کی فکر بھی ضروری ہے۔

وزیر اعظم اس کے بارے میں متفکر ہیں۔ میں ان کی فکر کو ”رعونت“ یا ”لاعلمی“ پکارنے کو ہرگز تیار نہیں ہوں۔ وزیر اعظم کی تشویش کے باوجود وفاقی حکومت پاکستان میں لاگو ہوئے لاک ڈاؤن کو 14 اپریل تک بڑھانے کو مجبور ہوئی۔ ہمارے چسکہ فروش اب یہ کھوج لگانے میں مصروف ہیں کہ لاک ڈاؤن کی مدت بڑھانے اور اسے سختی سے لاگو کرنے کا فیصلہ ”کس“ نے کیا ہے۔ عام حالات میں شاید یہ سوال اٹھانا ضروری تھا۔ ہم ان دنوں مگر ایک سنگین بحران کا سامنا کررہے ہیں۔

اس بحران کی شدت کا عالمی تناظر میں جائزہ لیتے ہوئے یہ اصرار کرنا لازمی ہے کہ فی الوقت لاک ڈاؤن کی مدت بڑھانے اور اسے سختی سے لاگو کرنے کے علاوہ کوئی راستہ ہی موجود نہیں تھا۔ لاک ڈاؤن کی اہمیت سمجھنے کے لئے نیویارک ٹائمز میں چھپی ایک خبر کا ذکر ضروری ہے۔ اس خبر کے مطابق امریکہ میں بخار کی پیمائش کرنے والے ایک جدید تھرمامیٹر بیچنے والی کمپنی نے جو آلہ مارکیٹ کیا ہے اس کے ذریعے حاصل ہوئی معلومات ایک ماسٹر کمپیوٹر میں ازخود جمع ہوجاتی ہیں۔

حال ہی میں ابھرے اعداد و شمار نے واضح انداز میں یہ ثابت کردیا ہے کہ کامل لاک ڈاؤن کی زد میں آئے امریکی شہروں میں سماجی دوری کی وجہ سے لوگوں میں عمومی بخار کی تعداد میں حیران کن حد تک کمی ہورہی ہے۔ ان اعدادشمار کی بدولت ہم یہ فرض کرسکتے ہیں کہ سماجی دوری افراد میں فقط کرونا ہی نہیں دیگر بیماریوں کے خلاف بھی فطری طورپر موجود مدافعانہ نظام کو توانائی کے ساتھ برقرار رکھنے میں مددگارثابت ہورہی ہے۔ پریشان کن حقیقت مگر یہ بھی ہے کہ اداسی اور پریشانی انسانوں میں موجود فطری مدافعت کو کمزور تر بناتی ہے۔

دیہاڑی اور تنخواہ سے محروم ہوئے لاکھوں پاکستانی راشن کی عدم دستیابی کی بدولت حواس باختہ ہورہے ہوں گے۔ خدانخواستہ ان کی پریشان کے مداوے کے ٹھوس ذرائع میسر نہ ہوئے تو کرونا سے محفوظ رہنے کے باوجود وہ فطری مدافعتی نظام کمزور ہوجانے کے باعث دیگر بیماریوں کاشکار بھی ہوسکتے ہیں۔ گھروں میں بیٹھ کر اپنے ٹیلی فونوں پر میسر فیس بک یا ٹویٹر کے ذریعے سیاسی مخالفین کی بھد اُڑانے کے بجائے ہم سب کو یکسو ہوکر ایسی راہیں تلاش کرنا ہوں گی جو حکومت کو لاک ڈاؤن کے باعث بے بس ولاچار محسوس کرتے دیہاڑی داروں اور کم آمدنی والوں کو تشفی پہنچانے میں مددگارثابت ہوں۔

محض ایک رپورٹر ہوتے ہوئے میں شدت سے محسوس کرتا ہوں کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کی فہرست میں موجود گھرانوں کو جلدازجلد 12 ہزار روپے نقد رقم کی صورت فراہم کردیے جائیں تو کم از کم 50 لاکھ گھرانوں کی فوری مدد ہوجائے گی۔ وہ حکومت کی فراہم کردہ رقوم سے اپنے محلوں یا قصبات میں قائم کریانے اور سبزی کی مقامی دکانوں سے خریداری کریں گے تو یہ دھندے چلانے والوں کی آمدنی بھی جاری رہے گی۔ نقد رقم کے علاوہ کم از کم تین ماہ تک ان گھرانوں کو بجلی اور گیس کے بل بھی نہ بھیجے جائیں جو عموماً ہر ماہ ان مدوں میں تین سے پانچ ہزار روپے ادا کرتے ہیں۔

بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹر ہوئے گھرانوں کو فوری ریلیف فراہم کرنے کے ساتھ ہی ساتھ دیگر گھرانوں کی نشان دہی کا عمل بھی آج کے ڈیجیٹل دور میں تیز رفتاری سے مکمل کیا جاسکتا ہے۔ انہیں بھی کیش ٹرانسفر کے ذریعے گھر گھر راشن پہنچانے والے تقریباً ناممکن نظر آتے نظام کی ممکنہ قباحتوں سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔ کرونا کی وجہ سے نازل ہوا کڑا وقت ”فروعات“ کو نظرانداز کرنے کا تقاضا کرتا ہے۔ وبا کے موسم میں بھی لیکن پاکستان ہی نہیں دُنیا بھر کے بے تحاشا لوگ اپنے دلوں میں موجود تعصبات کو سفاکانہ بے رحمی سے اجاگر کرتے نظر آرہے ہیں۔

ہمارے ہاں کئی ہفتوں تک ایران سے آئے ”زائرین“ کو کرونا کا واحد کیرئیر بناکر ان افراد کی ”نشان دہی“ کا تقاضا ہوتا رہا جنہوں نے انہیں تفتان تک محدود رکھنے کے بجائے ملک بھر میں پھیل جانے کی ”سہولت“ فراہم کی۔ زائرین کی آمد سے جڑے سوالات اپنی جگہ برقرار تھے تو تبلیغی جماعت کو بھی غصے کا نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ان دونوں موضوعات کے ضمن میں سوشل میڈیا پر جاری بحث نے محض فرقہ وارانہ منافرت ہی بھڑکائی۔

کرونا وائرس سے متعلق ٹھوس معلومات تعصب بھرے شوروغوغامیں لیکن گم ہوگئیں۔ لاک ڈاؤن کی اہمیت اور اس کے دوران دیہاڑی داروں اور کم آمدنی والوں کی مشکلات پر توجہ مرکوز نہ رہی۔ پاکستان کے برعکس بھارت کا سوشل میڈیا ہی نہیں بلکہ ریگولر میڈیا اور اس کے کئی جغادری صحافی ان دنوں تبلیغی جماعت کو کئی حوالوں سے اپنے ملک میں کرونا پھیلانے کا حقیقی ذمہ دار ٹھہرانا شروع ہوگئے ہیں۔ دل میں نظام الدین اولیا کے مزار سے ملحق بستی میں اس جماعت کا مرکز ”کرونا کا گڑھ“ بناکر دکھایا گیا جس کے خلاف سرکار سے ویسے ہی حملے کا تقاضا ہوا جو ”دشمن“ کی بستیوں کو نیست ونابود کرنے کے لئے اختیار کیاجاتا ہے۔

تبلیغی جماعت کے خلاف نفرت بھڑکانے کے لئے یہ الزام بھی تواتر سے لگایا جارہا ہے کہ القاعدہ جیسی تنظیموں کو مبینہ طورپر ”رضا کار“ اسی جماعت کی صفوں سے دستیاب ہوئے۔ ٹھوس اعداد و شمار اس الزام کو صراحت سے جھٹلاتے ہیں۔ اسلام اور مسلم دشمنی مگر تبلیغی جماعت کو نفرت کا نشانہ بنانے میں کلیدی کردار ادا کررہی ہے۔ تبلیغی جماعت کا ذکر ہوتا ہے تو کئی جغادری صحافی یہ حقیقت فراموش کردیتے ہیں کہ یہودیوں میں بھی بنیاد پرستی کے حوالے سے معروف ایک Haredi فرقہ ہے۔

اس فرقے کے لوگ جدید ریاست کے ”سیکولر“ نظام کو تسلیم نہیں کرتے۔ کرونا کی وجہ سے لاگو ہوئے لاک ڈاؤن کو انہوں نے مسترد کردیا۔ یہودی مذہب کو ”تحفظ“ دینے پر قائم ہوئے اسرائیل میں لیکن ان کی مخصوص بستیوں میں کرونا کی زد میں آئے لوگوں کی تعداد اس ملک میں اُبھری اوسط سے چار سے آٹھ گنا زیادہ نظر آئی۔ کٹر اور متعصب نیتن یاہو کی حکومت بالآخرمجبور ہوگئی کہ ریاستی تشدد کے جارحانہ انداز میں استعمال کے ذریعے انہیں لاک ڈاؤن کا احترام کرنے کو مجبور کرے۔

امریکہ میں ایوینجلی فرقہ بھی بہت متعصب ہے۔ اس کے رہ نما جیری فالویل نے بہت رعونت سے اعلان کیا کہ ٹرمپ کے سیاسی مخالفین کرونا کے بہانے لوگوں کو خوفزدہ بنارہے ہیں۔ ان لوگوں کی یونیورسٹیاں اور کالجز بھی ہیں۔ جیری نے انہیں کھولے رکھنے پر اصرار کیا۔ امریکی انتظامیہ ابھی تک اس کے آگے سرنگوں نظر آرہی ہے۔ غالباً اس فرقے کی جانب سے پھیلائے تعصب کی بنا پر امریکہ میں وبائی امراض کے مستند ماہر ڈاکٹر انتھونی فوچی کو اب سکیورٹی مہیا کرنا پڑی ہے۔

یہ ماہر ٹرمپ کے پیچھے کھڑا نظر آتا تھا۔ امریکی صدر جب کرونا کو ”بہادری“ سے نظرانداز کرنے پر زور دیتا تو فوچی کے چہرے پر اُکتاہٹ اور بیزاری والی مسکراہٹ نمودار ہوجاتی۔ Fauci کے چہرے پر نمایاں ہوئے تاثرات کو امریکی میڈیا نے ڈرامائی انداز میں اپنی سکرینوں پر دکھایا۔ بعدازاں وہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے التجا کرتا رہا کہ کرونا کی وبا کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے۔ امریکہ کے مسیحی انتہاپسندوں نے مگر حقائق بیان کرنے والے اس ماہر کو ”واجب القتل“ بنادیا ہے۔
بشکریہ نوائے وقت۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments