ٹرانسٹریا: وہ ملک جسے کوئی تسلیم نہیں کرتا


ٹرانسٹریا

سورج ابھی سویت دور کی اُن رہائشی عمارتوں سے بلند ہوا ہی تھا کہ تراسپول شہر کے مرکزی چوراہے میں رنگی برنگی کپڑوں میں ملبوس لوگ اپنے بیوی بچوں سمیت جمع ہو چکے تھے۔ حیران کن طور پر سمتبر کے مہینے میں یہ دن بڑا خوشگوار اور گرم تھا۔ لوگوں میں پائے جانے والے جوش و خروش سے لگتا تھا جیسے شاہی خاندان میں شادی کی کوئی تقریب منعقد ہو رہی ہو۔

مشرقی یورپ میں یوکرین اور مولڈوا کی سرحد کے ساتھ چار سو کلو میٹر طویل یہ قطع اراضی جو ٹرانیسٹریا کھلایا جاتا ہے وہاں ہر سال یوم آزادی بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔

ٹرانسٹریا جسے ماضی میں پرنڈسٹوی مولڈوین رپبلک کہا جاتا تھا اُس کا سرکاری طور پر کوئی وجود نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کے کسی بھی رکن ملک کی طرف سے ابھی تک اسے تسلیم نہیں کیا گیا جب کہ اس نے سنہ 1990 میں سویت یونین کے بکھرنے سے ایک سال قبل آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

کم جونگ ان کو جعلی پاسپورٹ کی ضرورت کیوں؟

پاسپورٹ کے بارے میں تیرہ دلچسپ حقائق

مختلف ممالک اپنا پاسپورٹ کیوں فروخت کر رہے ہیں؟

پاسپورٹ کے لیے کتنی قیمت ادا کی جائے؟

پاکستان کا پاسپورٹ 196 ویں نمبر پر

ٹرانسٹریا حیران کن طور پر ایک خصوصی علاقہ ہے۔ مولڈوا کے دارالحکومت کیشینو سے ستر کلو میٹر جنوب مشرق میں تیراسپول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ سویت یونین میں ہی پھنس کر رہا گیا ہے۔

ٹرانسیٹریا بروٹیلسٹ کی پارلیمان کی عمارت کے باہر لگے لینن کے پرشکوہ مجسمے سے لے کر شاہراہوں کے نام جو کمیونسٹ شخصیات پر رکھے گئے ہیں اور ملک کی اہم تاریخوں تک سویت دور کی یادگاریں ہر جگہ موجود ہیں۔

ٹرانسٹریا کی فوجی پریڈ

ٹرانسٹریا کی 29 ویویں یوم آزادی کی تقربیبات میں روائتی انداز کو بدلنے کی کوشش نہیں کی گئی اور وہی فوجی پریڈ اور سویت دور کی جیپوں میں اس کا معائنہ اس کی جھلکیوں میں شامل تھیں۔

اس کے بعد ‘راک’ موسیقی کے امریکی گروپ ‘سروائور’ کے 1982 میں مشہور ہونے والے گانے ‘آئی آف ٹائیگر’ کی دھن فوجی بینڈ نے بجانی شروع کی جس سے اس بات کا پہلا اشارہ ملا کہ عملاً مولڈوا کا حصہ ہونے کے باوجود اور روس کی مالی معاونت سے چلنے والا یہ چھوٹا سا خُددار ملک اپنے معاملات خود طے کرتا ہے۔

ایک سابق سرکاری اہلکار ویرا گلچنکو نے دوسری جنگ عظیم کے ایک عمر رسیدہ فوجی کو گاڑی میں بیٹھنے میں مدد دیتے ہوئے کہا کہ ‘یہ احساس کہ ہماری آزادی کو تسلیم نہیں کیا جاتا ہمیں غمزدہ کر دیتا ہے لیکن ہم اپنے آپ کو آزاد تصور کرتے ہیں۔’

انھوں نے کہا کہ ‘ہمارا اپنا آئین ہے، حکومت ہے، فوج ہے کرنسی ہے حتی کہ پاسپورٹ بھی ہے۔’

ٹرانیسٹریا کو تسلیم کرنے والے تین ملکوں ابخازیا، ناگورنو کارباخ اور ساوتھ اوسٹیا تک براہ راست پہنچ نہ ہونے کی وجہ سے یہ پاسپورٹ پانچ لاکھ شہریوں کے لیے عملاً بے کار ہیں۔

خاموش دیہات، سویت دور کے بند کارخانوں اور انگوروں کے باغات پر مشتمل اس چھوٹے سے خطے میں جو چاروں طرف سے خشکی سے گہرا ہوا ہے بسنے والے لوگوں کی اکثریت کے پاس دھہرای اور تھہری، یوکرین، مولڈوا اور روس کی شہریت ہے۔

تیس سال قبل جب ٹرانسٹریا نے آزادی کا اعلان کیا تھا ترایسپول کی آبادی درحقیقت کم ہو کر ایک تہائی رہ گئی ہے اور لوگ بڑی تعداد میں سویت یونین کے ٹوٹنے کی وجہ سے معاشی زبوں حالی کی وجہ سے روزگار کی تلاش میں روس منتقل ہو گئی ہے۔

ٹرانسٹریا کی پارلیمان کے باہر لینن کا مجسمہ

اس صدارتی جمہوریت میں اجرتوں کے کم ہونے اور دگرگوں معاشی حالات کی وجہ سے زندگی آسان نہیں ہے لیکن اس چھوٹے سے ملک میں گھوم کر مجھے یہ ہی احساس ہوا کہ یہاں لوگ مجموعی طور پر اپنی زندگیوں سے مطمئن ہیں۔

آپ شاید اس میں دلچسپی محسوس کریں۔

ٹرانسٹریا ٹور نامی ایک کمپنی کے مالک نے کہا ‘ہمارے ہاں موسم اچھا ہے، سبزیاں اور پھل بہت اچھے ہیں اور اس کے علاوہ بیرونی امداد بھی میسر ہے۔’ بیرونی امداد سے ان کا مطلب روس سے ملنے والی امداد ہے جس سے یہاں ہسپتال اور سکول تعمیر چلائے جاتے ہیں اور توانائی فراہم کی جاتی ہے اور اس کے علاوہ ریٹائرڈ لوگوں کو پینشن دی جاتی ہے۔

ٹرانسٹریا اپنے مادر وطن سے محبت کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے۔ ٹرانسٹریا کے تین لسانی گروہوں کے لوگوں کی تعداد تقریباً برابر ہونے کی وجہ سے روسی یہاں کی بڑی زبان ہے۔ روسی جھنڈے سرکاری عمارتوں اور قومی دنوں پر ٹرانسٹریا کے جھنڈے کے ساتھ ساتھ لہراتا ہے اور فوج پریڈ میں روسی فوجی بھی حصہ لیتے ہیں۔ ٹرانسٹریا کا جھنڈا دنیا بھر کے ملکوں میں اب واحد جھنڈا ہے جس پر ہتھوڑے اور درانتی کا نشان ہے۔

تراسپول سکول آف پولیٹکل سٹڈیز کے سپروائزر اناتولی دیرون کا کہا کہنا ہے کہ ٹرانسٹریا کے لوگ اپنے آپ کو تاریخی طور پر روس کے تقافتی ورثے کا حصہ سمجھتے ہیں۔

ٹرانسٹریا میں موجود ڈیڑھ ہزار فوجی جو سہ ملکی امن فوج کا حصہ ہے جسے آپریشنل گروپ آف رشین فورسز ہا جاتا ہے مولڈوا اور مغربی حکام کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔

یوکرین کی سرحد سے صرف دو کلو میٹر کے فاصلے پر سویت یونین کے دور سے یہاں یورپ کا سب سے بڑا اسلحہ ڈپو قائم ہے جس کی وجہ سے روس اقوام متحدہ کی طرف سے یوکرین سے فوجیں نکالنے کی متعدد اپیلوں کو اب تک نظر انداز کئے ہوئے ہے۔

ٹرانسٹریا کی ماسکو نواز حکومت آپریشنل گروپ آف رشین فورسز (او جی آر ایف) کو خطے میں استحکام کے لیے ایک اہم عنصر تصور کرتے ہیں۔

ٹرانسٹریا کا آزادی کا سفر کیوں اتنا کٹھن ہے اس کو سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ انیس سو اسی کی دہائی میں مولڈون سویت سوشلسٹ رپبلک میں بڑھتے ہوئے قوم پرستانہ جذبات نے ٹرانسٹریا میں روسی بولنے والی اقلیت میں تشویش پیدا کردی۔ روسی زبان پر پابندی عائد کرنے کا اقدام سے ٹرانسٹریا کے شہریوں کو اپنی تقافتی ورثے کے تحفظ کے لیے آزادی کا اعلان کرنے پر مجبور کر دیا اور دو ستمبر 1990 کو پرنڈسٹوی مولڈویں آف سویٹ سوشلسٹ رپبلک کے قیام کا اعلان کر دیا۔

اس وقت بکھرتے ہوئے سویت یونین کو یکجا رکھنے کی کوشش میں لگے سویت یونین کے صدر میخائل گورباچوف نے اس نئے رپبلک کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔جس کے بعد 1991 میں مولڈوا اپنے آزادی کا اعلان کر دیا جس میں ٹرانسٹریا بھی شامل تھا۔ اس کے پیدا ہونے والے کشیدگی کے باعت مارچ 1882 میں دونوں کے درمیان مسلح تصادم بھی ہوا اور چند ماہ بعد جب جولائی میں جنگ بندی کا اعلان کیا گیا اس وقت تک کم از کم ایک ہزار افراد جنگ کا ایندھن بن چکے تھے۔ اس وقت سے اب تک ٹرانسٹریا میں امن قائم ہے۔ اس کا آپ کو سفری ہدایات اور خبروں سے پتا چلتا ہے۔

دورن کا کہنا ہے کہ خطے میں کشیدہ صورت حال کی خبریں علاقے میں عدم استحکام کے بارے میں پائے جانے والی افواہوں کی وجہ بنتی ہیں۔ تراسپول میں سب جانے ہیں کہ یہاں کتنا سکون ہے۔

روس اور یورپ کے درمیان مولڈوا کے لیے جو رسہ کشی جاری ہے اس سے پیدا ہونے والی کشیدہ صورت حال سے کوئی انکار نہیں کر سکتا لیکن تراسپول میں سکون ہونا کوئی ایسی غلط بات بھی نہیں ہے۔ اس سنسان شہر میں گھومتے ہوئے سوائے اس کے مجھے اجنبیت کا احساس ہوا اس کے علاوہ مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور نہ ہی کسی دوسرے یورپی شہر میں گھومتے ہوئے میں نے اپنے آپ کو اتنا محفوظ سمجھا ہو۔ تنازع میں گھرے کسی بھی خطے میں بڑے ہجوم سے بچنے کی کوشش کروں گی لیکن یوم آزادی کی تقریب کے لیے جمع لوگوں میں ایک برادرانہ جذبہ تھا۔

جشن آزادی کی یہ تقریبات سر سبز پچیس اکتوبر سٹریٹ اور گہرے نیلے رنگ کے دریا نستر کے درمیان منعقد ہوئیں۔ یہ دریا مولڈوا کے ساتھ سرحد بھی ہے۔

شام کے سائے جب گہرے ہونے لگے اور شہر کے چرچ کا سنہری گند سورج کی کرن سے چمکنے لگا مقام گلوکاروں کے گروپ اس خصوصی سٹیج پر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگے جس اس دن کی مناسبت سے صدارتی خطاب کے لیے لگایا گیا تھا۔

اس امید کے ساتھ کے یہ جشن رات کو نو بجے ہونے والے آتش بازی کے مظاہرے کے بعد بھی چلتا رہے گا جب میں ایک ریستوانت سے نکلی تو شہر پر خاموشی طاری تھی اور مرکزی شاہراہ پر سویت دور کی ایک ٹرام کے چلنے کی آواز کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔

سیاحوں کی دلچسپی کے بہت کم مقامات ہونے سیاحت کا کوئی ڈھانچہ نہ ہونے کی وجہ سے ٹرانسٹریا میں اندازً ہر سال بیس ہزار افراد مولڈوا سے دن دن کی سیر کے لیے آتے ہیں۔ مولڈوا کے دارالحکومت سے تراسپول تک بس کے ذریعے لوگ آتے ہیں اور انھیں ٹرانسٹریا کی سرحد پر ویزا مل جاتا ہے۔ ایک دن سے زیادہ قیام کی صورت میں ہوٹل کی بکنگ پیش کرنا لازمی ہے۔ اس ملک میں روسی زبان نہ بولنے والوں کے لیے گھومنا آسان نہیں ہے لیکن یہاں پندرہویں صدی کا ایک قعلہ ہے جس کو جزوی طور پر بحال کیا گیا ہے اور انیسویں صدی کی ایک مونسٹری کے علاوہ شہر میں جا بجا پائے جانے والی سویت دور کی یادگاروں ہیں جن کی وجہ یہ ایک دن سے زیادہ قیام کرنے کے قابل ہے۔

گلچنکو نے مجھ سے کہا کہ سیاحت ایک ایسے شعبہ ہے جس کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں لوگوں کے یہاں آنے کے لیے آسانیاں پیدا کرنی چاہیں۔

ٹرانسٹریا کی ابتر معاشی صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے سیاحت بلاشبہ اہم ہے لیکن مشرقی یورپ کے اس سرحدی خطے کی جسے فراموش کر دیا گیا سیر میں بہت مزا آیا۔ ٹرانسٹریا جسے مولڈوا چھوڑنے کو تیار نہیں ہے اور روس یہاں سے نکلنے کو تیار نہیں اس میں رہنے والے لوگوں کے لیے آزادی شاید ایک خواب ہی رہے۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32472 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp