کیا کورونا پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا؟


پاکستان کے صحت کے کمزور نظام نے نئے کورونا وائرس کے وبائی مرض کے پھیلاؤ کے بارے میں خدشات بڑھا دیے ہیں۔ پاکستان میں صحت کا نگہداشت کا نظام نہ صرف پیچیدہ ہے بلکہ عدم مساوات اور محدود وسائل سے دوچار ہے۔ گلوبل ہیلتھ سیکیورٹی انڈیکس 2019 میں پاکستان کا شمار 195 ممالک میں سے 105 نمبر پر ہے، جس کے نتیجے میں ماہرین وائرس سے نمٹنے کے لئے پاکستان کی صلاحیت پر سوال اٹھارہے ہیں۔ لیکن انگریزی کا لفظ کمپلیسنسی (حال مست) شاید ہم پاکستانیوں کے لیے ہی بنا ہے۔

ہم ہرحال میں مطمئن رہتے ہیں۔ جیسے جیسے پاکستان میں کورونا وائرس پھیلنے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے، ملک کی قیادت خاص طور پر اس کے وزیراعظم اصرار کرتے نظر آتے ہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے کیونکہ ہم ایک مضبوط اور نوجوانوں پر مشتمل قوم ہیں۔ وہ لاک ڈاؤن کے حق میں بھی نہیں، معاملات کو مزید خراب کرنے والی بات یہ ہے کہ ان کے اس طرح کا بیان ملک میں ایک بھیانک بحران پیدا کرسکتا ہے۔ پاکستان میں کورونا ٹیسٹنگ کی سہولیات نہایت ناکافی ہونے کے باوجود روزانہ کی بنیاد پر انفیکٹڈ افراد کی تعداد میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔

جہاں پاکستان کا صحت سے متعلق نظام اس وبا سے نمٹنے کے لئے جدوجہد کر رہا ہے، وہیں اس کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ اگر پاکستان کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر قابو پانا چاہتا ہے تو لوگوں کی نقل و حرکت پر قابو پانا ہی واحد حل ہے اور اس کی وجہ سے اسے معاشی اخراجات برداشت کرنا پڑیں گے۔ اگر یہ وائرس پھیل گیا تو پہلے سے کمزور صحت کا نظام معیشت پر بری طرح اثر اندازہو گا۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے مطابق، موجودہ حالات کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو اپنے مجموعی جی ڈی پی میں 1.67 فیصد کا نقصان ہو سکتا ہے۔

دوسری طرف ڈاکٹر، نرسیں، اور دیگر طبی عملہ بڑھتے ہوئے اضطراب اور اپنی ختم نہ ہونے والی شفٹوں کی تھکن کے ساتھ ساتھ مریضوں سے انفیکٹ ہونے کے خطرے سے بھی نبرد آزما ہیں۔ وہ قوم کی خدمت کے لئے اپنے گھروں اور خاندان سے دور اس مشکل وقت میں فرنٹ لائن سولجرز کی طرح محاز جنگ پر ہیں۔ لیکن متعدد سرکاری اسپتالوں میں حفاظتی سامان کے فقدان نے ان کی حفاظت کے لئے خدشات پیدا کر دیے ہیں۔ حال ہی میں ایک نوجوان ڈاکٹراسامہ ریاض گلگت بلتستان کے علاقے میں ڈیوٹی کے دوران اسی وائرس کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گئے۔

یاد رہے ڈاکٹر اسامہ ایران سے واپس آئے کچھ زائرین کی اسکریننگ پر معمور تھے۔ لاہور اور سکھر ضلع کے سرکاری ہسپتال میں تعینات دو ینگ ڈاکٹرز اور ایک نرس کے بھی ٹیسٹ کے رزلٹ مثبت آئے ہیں۔ اس طرح کے کیسز کی بنیادی وجہ مشتبہ مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں کے لئے عدم اطمینان بخش حفاظتی تدابیر اور حفاظتی سامان کی عدم دستیابی ہے۔

علما مساجد کو بند کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ اور گھر پر رہنے کے احکامات کے باوجود، بچے کرکٹ کھیلنے کے لئے گلی کوچوں اور سڑکوں پر ہی نظر آتے ہیں اور ان کے والدین بھی ان کو گھروں میں رکھنے کے مشورے سے متفق نظر نہیں آتے۔

یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کورونا کی ٹیسٹنگ یا جانچ کی کمی کی وجہ سے ملک میں رپورٹڈ مریض کم ہیں لیکن مریضوں کی اصل تعداد بہت زیادہ ہے اور کچھ معاملات میں معلومات کو دبا بھی دیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے صحت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور صوبائی عہدیداروں کی طرف سے لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس سے معیشت تباہ ہوگی۔ اس کے بجائے انہوں نے شہریوں کو معاشرتی فاصلے پر عمل کرنے کی تاکید کی اور سب کو کام کرنے کا حکم دیا۔ آخر کار معاملے کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے، فوج نے اتوار کے روز صوبائی حکومتوں کے ساتھ مل کر ملک بھر میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے لئے کام کیا۔ انہوں نے کراچی جیسے شہرمیں فوجی چوکیاں کھڑی کیں اور پولیس افسران کو بھیڑ کو منتشر کرنے کے لئے تعینات کیا۔

اگر یہ وائرس مزید پھیل گیا تو پاکستان میں صحت کا نگہداشت کا پورا نظام مفلوج ہو سکتا ہے۔ کراچی (تقریبا دو کروڑ آبادی والا شہر) میں انتہائی نگہداشت کے وارڈز میں صرف 600 بستر ہیں۔ ملک بھر میں 1700 وینٹیلیٹر ہیں جن کے متعلق اندازہ لگایا گیا ہے کہ ان میں سے آدھے فعال ہیں، اور گزشتہ ہفتے ڈاکٹروں اور نرسوں کے لئے صرف 15000 این نائنٹی فائیوماسک تھے۔

جن ملکوں نے فوراً اور صحیح سمت میں اقدامات لئے، وہ کافی حد تک کامیاب نظر آرہے ہیں۔ جن ممالک نے فوری قدم اٹھانے میں تاخیر کی، وہ مشکلات کا شکار ہیں۔ ان ممالک کی فہرست میں اٹلی، امریکہ، اسپین اور برطانیہ سر فہرست ہیں۔ لاک ڈاون پر اس وقت عمومی اتفاق رائے کی اشد ضرورت ہے اور اس پر سختی سے عمل کرنا چاہیے۔ لیکن ہماری قیادت اب بھی بے یقینی کا شکار ہے۔ اس بے یقینی سے جلد نکلنا ضروری ہے ورنہ معاملات ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments