اردو افسانے کا بدلتا منظرنامہ


2020۔ ایک دنیا تبدیل ہو چکی ہے۔ عالمی ادبی منظر نامے میں بھی سیاست اور تبدیل شدہ معاشرے کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔ وقت بدلا۔ بدلتے ہوئے وقت کا عکس اردو کہانیوں میں بھی نظر آیا۔ مگر بدلتے وقت کے ساتھ یہ اردو کہانیاں اپنی زمین سے وابستہ بہت کم رہ سکیں۔

کچھ برس قبل مجھے ایک دلچسپ خط ملا۔ کہانی کار زیب اختر کا۔ اس نے اردو میں نہ لکھنے کی یہ وجہ بتائی:

”اردو کو میں نظر انداز نہیں کرتا۔ مگر ان کا مزاج میری سمجھ سے باہر ہے۔ ان کو رومانیت چاہیے۔ چاہے وہ الفاظ کی کیوں نہ ہو۔ موضوع کی ہو یا ٹریٹمنٹ کی۔ ایک خاص دائرہ ہے۔ بس یہیں تک محدود ہے اردو ادب۔ ان کے ادب کو ایک عام آدمی سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ بڑے صاف ستھرے لوگ ہیں۔ نماز پڑھتے ہیں۔ شراب پیتے ہیں اور تسلیمہ نسرین کو گالیاں دیتے ہیں۔ “

اسے محض ایک اردو تخلیق کار کی جھلاہٹ نہیں کہا جاسکتا۔ اردو کہانیاں ابھی بھی سمٹی اور سکڑی ہوئی ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ زیادہ تر اردو کہانیاں مسلم معاشرے اور مسلم کردار سے آگے نہیں بڑھی ہیں۔ اس لیے زیب اختر جیسے سمجھدار ادیب اس ٹوپی تہذیب سے منکر ہوتے ہوئے، فرار حاصل کرجاتے ہیں۔ ایک مثال اور بھی ہے جیسے بریلی شہر کی ایک مسلم خاتون قاری نے مجھے ایک خط میں لکھا تھا۔

”آپ ہندوؤں کو لے کر افسانے کیوں لکھتے ہیں؟ مسلمانوں کو لے کیوں نہیں؟ “

مجھے لگتا ہے آزادی کے آس پاس جو کہانیاں لکھی گئیں وہ بہت پرزور تھیں۔ آج پہلے کی بہ نسبت ہم لوگوں میں مذہبی تنگ نظری زیادہ آگئی ہے۔ ہم ایک خاص دائرے میں بندھ گئے ہیں۔ بس اس سے آگے نہیں۔ جیسے بابری مسجد، گودھرا، 2014 کے بعد کے حادثے، فرقہ وارانہ فسادات کو لے کر اردو میں کافی کچھ لکھا گیا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اردو کے تخلیق کار نے آنکھیں نہیں موند رکھی ہیں۔ جب جدیدیت عروج پر تھی، اس زمانے میں بھی علامتوں، استعاروں کا سہارا لے کر اچھا ادب پیش کیا گیا۔ اس کے باوجود کچھ سوالوں پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔

1۔ تقسیم ہند کے دوران جو کہانیاں لکھی گئیں، کیا ان میں مدہبی تنگ نظری شامل نہیں تھی؟
2۔ ہمارے یہاں مذہبی تنگ نظری کیا بابری مسجد، گودھرا اور پچھلے دس برسوں کی سیاسی مذہبی سماجی تبدیلی کے بعد ابھرکر سامنے آئی ہے؟
3۔ اردو مصنف، زمین سے مطلب، کیا محض اپنے مسائل سے لیتے ہیں؟

دیکھا جائے تو یہ بہت الجھے ہوئے سوالات ہیں اور یہ سوالات ایسے ہیں جن پر کم و بیش ایک ساتھ اتفاق کرنا یا انکار کرنے کی گنجائش بھی کم نظر آتی ہے۔ تقسیم ہند کے دوران لکھی جانے والی کہانیوں میں مذہبی تنگ نظری ضرورت سے زیادہ تھی۔ آپ مشہور ہندی افسانہ نگار بھیشم ساہنی کے بھائی اداکار بلراج ساہنی کا ”پاکستان کا سفرنامہ“ پڑھ لیجیے۔ کرشن چندر کی پشاور ایکسپریس، اور اس طرح کی بہت ساری کہانیاں ہیں، جن کو پڑھتے ہوئے ایک خاص طرح کا تعصب آپ کو صاف صاف نظر آجائے گا۔ کم و بیش یہی بات مسلم رائٹر کے ساتھ بھی تھی۔ وہاں ہندوؤں کے لیے تحریر میں ایک ظالمانہ تعصب برتا گیا۔ کیوں؟ وجہ بہت معمولی قسم کی سائیکی ہے۔

( 1 ) جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے رشتہ دار، عزیز مارے گئے تھے اور جنہوں نے نفرت کے ننگے کھیل کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، ان کا بد دل ہونا یا نفرت محسوس کرنا کوئی بڑی بات نہیں سمجھی جائے گی۔

( 2 ) ان ادیبوں نے وہی کیا۔ کہانی میں ایماندار بنتے بنتے بھی وہ رنگ غالب آگیا۔ یعنی جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ مثال کے لیے پشاور ایکس پریس۔

( 3 ) جو بہت ایماندار بنے۔ مثال کے لیے راما نند ساگر۔ ”اور انسان مر گیا۔ “ اپنی تحریر کو سیکولر رکھنے والا یہ آدمی آحری دنوں میں ’مذہبی‘ بن گیا۔ رامائن سیریل کی تعمیر کے دوران یہ ہندو سنستھاوں کے لیے کام بھی کرنے لگا۔

یہ میرا نظریہ ہے کہ تقسیم ہند کے بعد ہم آہستہ آہستہ پرانے زخموں کو بھولنے کی کوشش کرتے رہے۔ اور ایک حد تک ہم اس کوشش میں کامیاب بھی ہوئے۔ گودھرا سے قبل تک ہماری تحریروں میں کبھی مسلم رنگ غالب نہ تھا۔ لیکن اگر یہ رنگ دوبارہ واپس آیا ہے اور وہ بھی صرف مسلم رائٹر کے حصے میں تو یہ افسوس کا نہیں، سوچنے کا مقام ہے۔ کیونکہ یہ رائٹراسی بیس سے پچیس کروڑ کی آبادی کا ذمہ دار فرد ہے، جسے اتنی بڑی آبادی کی حصہ داری کے باوجود اقلیت کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اگر یہ اقلیتی مصنف صرف اپنے موضوعات کا انتخاب کرتا ہے تو یہ ایک تکلیف دہ بات یوں ہے کہ اس میں ایک پورے قوم کی بے بسی اور لاچاری شامل ہے۔ یعنی آزادی کے بہتر برسوں میں آپ نے اتنی بڑی آبادی کو اقلیت بنا دیا۔ آپ نے اس ایک قوم کو اتنے سارے مسائل دے دیے کہ وہ دوسرے، زمین سے وابستہ مسائل، پر لکھنا بھول گیا۔

ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ ہماری تہذیب کی زمین لچکیلی اور نرم ہے۔ ایک سچ ان سے الگ یہ بھی ہے کہ ہمارے اندر ہر دم، ہمیشہ سے اک سویا ہوا مذہب بھی موجود رہا ہے۔ جسے ہم حقیقت میں دوستوں کے درمیان نہ ماننے کی قسمیں بھی کھایا کرتے تھے۔ مگر اپنے گھر کے دروازے تک پہنچتے پہنچتے ہم ہندو بن جاتے تھے۔ مسلمان بن جاتے تھے۔

مارخیز، میلان کنڈیرا، ارہان پامک کے دور میں اب ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے فکشن میں بڑی تبدیلیاں نمودار ہوئی ہیں۔ اس کی ایک وجہ معیاری ادب پسند کرنے والا ہمارا قاری بھی ہے جو غیر سنجیدہ ادب سے کوسوں دور رہنا چاہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments