مذہبی استدلال سائنسی تحقیق کا متبادل نہیں


سائنس کوئی مذہب نہیں نہ عقیدہ ہے اور نہ ہی وہم جس کو ثابت کرنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت ہو یا تاویل گڑھی جائے۔ سائنس حقائق جاننے، پرکھنے اور ثابت کرنے کے لئے مشاہدے اور تجربے سے نتائج اخذ کرنے کا ایک نظم ہے۔ اس نظم کی کسوٹی پر دستیاب شواہد کی بنیاد پر آج جو علم ہمارے پاس ہے مستقبل میں نئے شواہد اس میں مزید وسعت لاسکتے ہیں لہذا سائنس میں امکانات کی گنجائش موجود ہوتی ہے اس لئے سائنسی علم کبھی جامد نہیں رہتا۔
سائنس کی کسوٹی پر جو مفروضہ پرکھ کر آیا وہی علم کہلاتا ہے۔ یہ علم کسی ایک مذہب، تہذیب، ملک،علاقے یا قبیلے کی ملکیت نہیں بلکہ روئے زمین پر انسانوں کی مشترکہ میراث ہے اس پر سب کا یکساں حق ہے۔ جتنا علم آج ہے یہ جامد اور حتمی نہیں وقت کے ساتھ نئے شواہد، مشاہدات اور تجربات سے نئے حقائق سامنے آتے ہیں اس میں وسعت آجاتی ہےاور مشترکہ انسانی میراث میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔
سائنس کی بنیاد تشکیک (شک) اور تحقیق پر ہے ۔ تشکیک سوال سے شروع ہوتا ہے اور تحقیق کی پیچیدگیوں میں جواب کو کھوجتا ہے۔ جواب میں مزید سوال پیدا ہوتے ہیں جو علم کو وسعت دیتے ہیں ۔ سوالوں کے جواب کی کھوج انسانی عقل کے بند تالوں کو کھول کر علم کی اگلی منزلوں تک رسائی ممکن بنادیتی ہے۔
مذہبی عقائد کی بنیاد یقین اور ایمان پرہوتی ہے۔ جس بات کو حقانیت کے درجے پر رکھا گیا ہے اس پر شک اور سوال اٹھانا تقصیر ٹھہرتا ہے اور قابل تعزیر جرم گردانا جاتا ہے۔ عقیدہ ارتقائی عمل پر یقین نہیں رکھتا اور نہ ہی علم کی وسعت پر۔ عقائد جتنے جامد ہوں اتنے مضبوط ہوتے ہیں اور لوگوں کا ایمان ان پر جتنا زیادہ ہو اتنا راسخ ہوجاتا ہے۔
سورج کے بارے میں یہ عقیدہ سب سے پرانا تھا کہ وہی سب سے بڑی طاقت ہے جو رات کے اندھیروں کو ہٹا کر نہ صرف دنیا روشن کردیتا ہے بلکہ پھل، پھول اور فصلیں بھی وہی اگاتا ہے لہذا وہی سب سے بڑا معبود ہے۔
سورج کے بارے میں عقائد کے مفروضات جب مشاہدات اور تجربات کی کسوٹی سے گزرے تو زمین کا سورج کے مدار میں گردش، چاند کا زمین کے گرد چکر اور زمین کا اپنے مدار میں گھومنا معلوم ہونے کے بعد دن رات، ماہ و سال کا تعین ہوا۔ مگر بات یہاں رکی نہیں ، سورج کے بارے میں جوں جوں علم میں اضافہ ہوتا رہا دنیا ترقی کی منازل طے کرتی رہی۔ اب بات سورج چاند ستاروں سے آگے بڑھ کر بلیک ہول کے مفروضے پر تحقیق تک جا پہنچی ہے۔ بلیک ہول کے مفروضات اگر ثابت ہوئے تو سائنسی ترقی کی رفتار کئی سو گنا بڑھ سکتی ہے۔
مگر بات اتنی سادہ نہیں تھی ۔ سورج کے بارے میں عقائد رکھنے والے پروہتوں اور ان کے پروردہ عناصر نے شک کرنے والوں کو کبھی اپنے ایمان اور یقین پر سوال اٹھانے کی اجازت نہیں دی۔ جب تشکیک کو تحقیق سے تقویت مل گئی جس کو انسانی عقل نے بھی تسلیم کیا تو سورج سے بڑے غیر مرئی دیوتاؤں اور معبودوں کا تصور پیش کیا گیا۔ اب سورج سے بھی بڑے معبودوں کے تصور کے خالق زمین پر ان کی نیابت کرنے لگے۔ زمینی بادشاہوں کے آسمانی معبودوں کی نیابت کے تصور کو تقویت دینے کے لئے انفرادی نظریات اورعقائد کے بجائے منظم اجتماعی مذہب کی ضرورت پڑی جس میں معبود کے ساتھ بادشاہ کی پیروی عقیدے کا بنیادی جزو بن گیا اور حکم عدولی قابل تعزیر جرم۔ منظم مذہبی تصورات پر شک اور سوال اٹھانے کی اجازت اس لئےبھی نہیں کہ اس سے جو معاشرہ متشکل ہوتا ہے اس کے نظم میں انتشارپیدا ہونے کا خطرہ پیدا ہوتا ہے۔
دور حاضر میں سائنس اور مذہب میں بحث کا آغاز چارلس ڈارون کے نظریہ یارتقا کے بعد ہوا جو انھوں نے انیسویں صدی میں پیش کیا۔ ڈارون نے جانداروں بشمول انسانوں کی تخلیق کے بارے میں نظریہ ارتقا پیش کیا جو ہزاروں سال سے رائج منظم مذہبی عقائد اور نظریات کے بر عکس تھا۔ انسان کی تخلیق کے بارے میں بھی ڈارون نے کہا کہ موجودہ نسل انسانی مختلف جانوروں کے ارتقائی عمل میں تبدیلی سے گزر کر وجود میں آئی ہے۔ ڈارون کا یہ نظریہ تخلیق آدم کے عقیدے کے برعکس تھا جس کی وجہ سے اس کو چرچ کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا اور ایک بحث کا آغاز ہوا۔
جب سکولوں میں ڈارون کے نظریہ ارتقا بطور سائنس پڑھایا جانے لگا تو اس کا تخلیق کے روایتی تصورات کے ساتھ براہ راست تصادم کھل کر سامنے آگیا۔ ڈارون کے نظریہ ارتقا کو سکولوں میں بطور سائنس پڑھانے کے خلاف روایت پسندوں کی طرف سے عدالتوں میں بڑے عرصے تک مقدمے چلتے رہے۔ روایت پسندوں کا کہنا تھا کہ ڈارون کے نظریہ ارتقا ان کے مذہبی عقائد کے برعکس ہے لہذا ایک ایسے ملک میں جہاں مذہبی عقائد کی آزادی ہے وہاں ایسے تصورات نہیں پڑھائے جانے چاہئیں ۔
امریکی عدالت نے طے کیا کہ مذہبی عقائد کی آزادی کے نام پر ایسا مواد نہ پڑھایا جائے جس کو تجربات کی کسوٹی پر پرکھا نہ جاسکے۔ اس دوران مختلف عدالتوں میں بڑا دلچسپ مکالمہ ہوتا رہا مثلاً ایک عدالت میں جب پوچھا گیا کہ اگر سورج کی تخلیق چوتھے دن ہوئی تو چار دنوں تک دن رات کا حساب کیسے رکھا گیا تھا؟ اس کیس میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کی مختلف عدالتوں کی کاروائی اورریاستوں میں قانون سازی کے لئے ہوئی بحث و تمحیص بڑی دلچسپ اور از خود دستاویزی اہمیت کی حامل ہے۔
عدالتوں میں ڈارون کے نظریہ یارتقا کو بطور حیاتیات پڑھانے سے روکنے میں ناکامی کے بعد روایت پسندوں نے نظریہ تخلیق سامنے لایا اور اس کو پڑھانے کی کوشش کی۔ 2005میں ایک عدالت نے کہا کہ نظریہ تخلیق ایک مذہبی استدلال تو ہو سکتا ہے مگر سائنس نہیں۔ امریکی عدالت کے اس فیصلے میں سائنسی حقائق اور مذہبی استدلال میں فرق بھی واضح ہو چکا تھا اور مزید اس پر بحث کی گنجائش نہ رہی۔
مذہب میں استدلال، تشریح اور توضیح سے مفروضے کو مزید تقویت دینے کی کوشش کی جاتی ہے مگر اس کو سائنس کے درجے پر سچ تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ سائنسی اعتبارسے کسی مفروضے یا دعویٰ کی سچائی شواہد، ثبوت اور حقائق کے بغیر ممکن نہیں۔ سائنس کو مذہب کے بالمقابل لاکر سائنس کو بھی مذہب کی طرح ایک عقیدہ کے طور پر دکھانے کی یا عقائد کوسائنس کے متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ایک اور دلیل عموماً پیش کی جاتی ہے کہ سائنس مذہب کی پیداوار ہے۔ اس بات کو بھی سورج کی مثال سے ہی سمجھنے کی کوشش کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سورج کو بطور ستارہ شناخت کرنے والے ابتدائی لوگ مستند سائنس دان نہیں بلکہ مذہبی پروہت تھے جنھوں نے مشاہدہ کیا تھا۔ انسانی تہذیب کے ابتدائی ادوار میں علم کا حصول مذہبی طور پر کیا جاتا تھا جس میں وقت کے ساتھ تفریق پیدا ہوئی اور سائنسی علم مذہبی تعلیمات سے جدا ہوگئی جن میں اب کوئی قدر مشترک نہیں۔
آج کے دور میں طبیعات، کیمیا اور حیاتیات کی مزید جزویات میں ہر گزرتے دن کے ساتھ نئے حقائق اور نتائج سامنے آرہے ہیں جو انسانی علم میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں ۔ مذہبی عقائد ہزاروں سال پرانے توہمات اور قیاسیات پر مبنی سطحی اور عمومی رائے کے حامل ہیں جو سائنسی تحقیق کے متبادل نہیں ہوسکتے۔ بہتر ہے کہ ہم مادی علوم کے لئے مذہبی استدلال کو حجت کرنے کے بجائے سائنسی نتائج پر انحصارکریں ۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments