رسّے پر چلتا وزیر اعظم اور کورونا کا عفریت


حکومت نے سپریم کورٹ کو مطلع کیا ہے کہ رواں ماہ کے دوران ملک میں کورونا وائرس سے متاثرین کی تعداد 50 ہزار تک پہنچ سکتی ہے لیکن ا س کے ساتھ ہی وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفرمرز ا نے متنبہ کیا ہے کہ ان اندازوں کو حتمی نہ سمجھا جائے کیوں کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی درست معلومات دستیاب نہیں ہیں اور اس حوالے سے صرف اندازےقائم کئے جارہے ہیں۔ ملک میں جس رفتار سے کورونا وائرس کے مریضوں اور جاں بحق ہونے والے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، اس کی روشنی میں سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ حقیقت پسندانہ لگتی ہے۔ ملک میں یہ وائرس اس سے زیادہ تیزی سے بھی پھیل سکتا ہے۔

یہ مشکل وقت ہے اور حکومت کو بھی بظاہر اس کا ادراک ہے۔ وزیر اعظم نے آج لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے یہ  اعتراف کیا اور کورونا سے مقابلہ کو ’تنے ہوئے رسّے‘ پر چلنے کے مترادف قرار دیا۔ انہوں نے گورنر ہاؤس میں کی گئی تقریر اور اس کے بعد متعدد ٹوئٹ پیغامات میں کہا کہ ’یہ آزمائش کا وقت ہے اور آزمائش سے کامیاب نکلنے والی قوم ہی سرخرو ہوتی ہے اور ترقی کی منزلیں طے کرسکتی ہے‘۔ عمران خان نے ایک بار پھر اس یقین کا اظہار کیا کہ پاکستان ’ فلاحی ریاست‘ بنے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ملک فلاحی ریاست بننے کے لئے ہی قائم ہؤا تھا لیکن اس مقصد سے انحراف کیا گیا۔ اسی لئے پاکستان کو دنیا بھر میں ذلت کا سامنا کرنا پڑا۔

وزیر اعظم کی باتوں سے کوئی واضح نتیجہ اخذ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ جس وقت پوری دنیا کورونا وائرس کی مشکل سے بچنے اور اس سے ہونے والے اقتصادی نقصان کے ازالے کے بارے میں غور و فکر کررہی ہے، اس وقت عمران خان پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کا مژدہ سنا رہے ہیں۔ آج ہی عالمی بنک نے یہ دھماکہ خیز خبر دی ہے کہ کورونا وائرس کی وجہ سے پاکستان کی قومی پیداوار کم ہو کر ایک فیصد تک رہ جائے گی۔ عمران خان تقریر کے جوش میں زمینی صورت حال کا جائزہ جذبات سے اور ملک کو درپیش مسائل کا حل عقیدہ میں تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ طرز عمل عوام کے لئے حوصلہ افزا ہونے کی بجائے بے یقینی اور اضطرار کاسبب بنتا ہے۔ اس وقت ملک کو کورونا وائرس کی صورت میں سخت حالات کا سامنا ہے۔ وزیر اعظم کے علاہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے بھی کہا ہے کہ ’کورونا سے نمٹنے کے لئے قائم کئے گئے قومی کمانڈ و تعاون سنٹر کو حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق ملک زیادہ عرصہ تک لاک ڈاؤن کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ بنیادی سہولتوں کو جاری رکھنا ضروری ہو گا‘۔ یہ بیان بھی غیر واضح ہے اور کورونا سے درپیش چیلنج، سماجی فاصلہ کی ضرورت و حکمت اور حکومت کے طریقہ کار کی الجھی ہوئی اور نامکمل تصویر پیش کرتا ہے۔

ملک میں لاک ڈاؤن کا جزوی آغاز سندھ حکومت نے فروری میں کورونا کا پہلا کیس سامنے آنے کے بعد کیا تھا۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے فوری طور سے کابینہ کی ایک نگران کمیٹی بنائی جس کی قیادت وہ خود کر رہے ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر اس کے اجلاس منعقد ہو رہے ہیں اور سندھ میں کورونا کا پھیلاؤ روکنے کے لئے فوری فیصلے کر کے ان پر عمل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ بھی سب سے پہلے سندھ حکومت نے ہی کیا تھا۔ اس کے بعد تافتان کے راستے ایران سے آنے والے زائرین کے ٹیسٹ کرنے، ہر ضلع میں انہیں قرنطینہ میں رکھنے کا انتظام کرنے اور غریب متاثرین کے گھروں میں راشن پہنچانے کے لئے رضا کار گروپ منظم کئے گئے۔ جوں جوں کورونا کی شدت میں اضافہ ہؤا اور یہ اندازہ ہونے لگا کہ مکمل لاک ڈاؤن کے بغیر اس کی روک تھام ممکن نہیں ہے تو سندھ میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا گیا۔ حالانکہ اسی روز وزیر اعظم نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے لاک ڈاؤن کو غریب دشمن فیصلہ قرار دینے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کیا تھا۔ حالیہ دنوں میں تبلیغی جماعتوں کے ذریعے کورونا پھیلنے کی خبریں سامنے آنے کے بعد اب سندھ حکومت نے ہی صوبے میں 168 ایسے مراکز کو قرنطینہ میں تبدیل کیا ہے جہاں تبلیغی جماعتیں ٹھہری ہوئی تھیں۔

یہ اقدامات عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کے عین مطابق ہیں۔ ڈبلیو ایچ او نے وائرس کی چین توڑنے اور اس کا راستہ روکنے کے لئے زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ پاکستان میں ٹیسٹ کرنے کی رفتار بہت سست ہے۔ جزوی طور سے اس کی وجہ مناسب ٹیسٹنگ کٹ کی عدم دستیابی بھی ہے۔ اس لئے سماجی دوری کے طریقے پر عمل کرکے ہی پاکستان میں اس کے پھیلاؤ کو روکنے کی امید کی جاسکتی ہے۔ وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ یہی کام کررہے ہیں۔ ان کی حکومت نے کورونا کے خلاف مستعدی اور تندہی سے کام کیا ہے۔ انہوں نے بیان بازی اور دوسرے صوبوں پر نکتہ چینی کرنے یا اس معاملہ پر سیاست کرنے سے گریز کیا ہے۔ اسی لئے مراد علی شاہ کی خدمات کو ہر سطح پر سراہا بھی جارہا ہے اور ان کی پروفیشنل اور انتظامی صلاحیتوں کی توصیف بھی ہو رہی ہے۔

اس کے برعکس وزیر اعظم عمران خان کورونا کے معاملہ پر مسلسل سیاست کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے بجا طور سے مکمل لاک ڈاؤن کی مخالفت کی لیکن اس کا کوئی متبادل طریقہ سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ وہ تسلسل سے کورونا کے معاملہ پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ ان کی باتوں میں جذبات کی فراوانی اور غریبوں سے ہمدردی کے بلند بانگ دعوے تو سننے میں آتے ہیں لیکن معاملات کا حقیقت پسندانہ تجزیہ اور درست معلومات کی کمی شدت سے محسوس کی جا سکتی ہے۔ عمران خان کی بہت سی باتیں درست بھی ہوسکتی ہیں لیکن اگر وہ اپنے نقطہ نظر کے مطابق کوئی حکمت عملی بھی سامنے لا سکتے اور سندھ اور باقی ماندہ دنیا کے مقابلے میں متبادل انتظامات کا اہتمام کرتے تو ان کے دلائل  کا وزن محسوس کیا جاسکتا تھا۔ لیکن جب وہ ’عظیم قوم آزمائش سے سرخرو نکلتی ہے‘ جیسا بے بنیاد نعرہ بلند کرتے ہوں اور وفاقی حکومت کے کرنے کا کام فوج نے کمانڈ اینڈ تعاون سنٹر قائم کر کے شروع کیا ہو تو وزیر اعظم کے نعروں کی حیثیت سیاسی رہ جاتی ہے۔ زمینی حقائق اور عملی اقدامات سے ان کا تعلق قائم کرنا ممکن نہیں رہتا۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے مختلف حکمت عملی اختیار کرنے کی ایک مثال سویڈن میں دیکھنے میں آئی ہے۔ وہاں حکومت نے اسکول اور معمولات زندگی بند کرنے کی بجائے یہ فیصلہ کیا کہ کورونا کے متاثرین کو علاج کی سہولتیں فراہم کرنے پر پوری توجہ مبذول کی جائے۔ وہاں کے ماہرین کا خیال ہے کہ کورونا چونکہ ایک کمان کی صورت میں پھیلتا ہے یعنی کم سے زیادہ اور پھر کم ہوتا ہے، ا س لئے اس کے پھیلاؤ کا عروج آنے تک وائرس کے مقابلے میں عوام کی قوت مزاحمت میں اضافہ ہونے دیا جائے۔ اس دوران ملک کا نظام صحت مریضوں کو علاج فراہم کرنے کا انتظام کرتا رہے گا۔ سویڈن میں کئے جانے والے تجربے کو عالمی ادارہ صحت کی حمایت حاصل نہیں ہے اور نہ ہی دوسرے ممالک میں اس پر عمل کیا گیا ہے۔ سویڈن میں اس وقت اپنے ہمسایہ ملکوں کے مقابلے میں ہلاکتیں بھی زیادہ ہورہی ہیں۔ یہ اندازہ بعد از وقت ہی سامنے آسکے گا کہ دنیا کے سب ملکوں کی حکمت عملی درست تھی یا سویڈن نے کسی حد تک معیشت بحال رکھتے ہوئے کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے کی درست پالیسی اختیار کی تھی۔

عمران خان کی حکومت ایسا کوئی متبادل سامنے نہیں لائی۔ حالانکہ حقائق کی بنیاد پر یہ جائزے سامنے آرہے ہیں کہ خط استوا کےقریب ممالک میں کورونا کا پھیلاؤ ان ممالک کے مقابلے میں سست رو ہے جو خط استوا سے دوری پر واقع ہیں۔ اس کے علاوہ یہ خیال بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ پاکستان جیسے ممالک میں آلودگی، غربت، ناقص غذا اور ایسے ہی دیگر عوامل کی وجہ سے لوگوں میں قوت مزاحمت یورپی ملکوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس لئے شاید یہ وائرس ان ممالک میں زیادہ جانی نقصان نہ کر سکے۔ گرم موسم کا فیکٹر بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ عام خیال ہے کہ وائرس عام طور سے 27 یا 28 سنٹی گریڈ حدت پر باقی نہیں رہتا۔ لیکن کووڈ۔19 کے بارے میں کوئی بھی محقق یہ حتمی رائے دینے کے لئے تیار نہیں ہے کہ یہ گرم موسم میں نہیں پھیلے گا۔ تاہم یہ سارے عوامل مختلف جائزوں کی صورت میں موجود ہیں۔ یہ بات بھی پاکستان کے حق میں جاتی ہے کہ اس کی آبادی کی بڑی اکثریت پچاس سال سے کم ہے۔ اس عمر کے لوگوں میں کوئی طبی پیچدگی نہ ہونے کی صورت میں وائرس کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔

حکومت ان عوامل کی بنیاد پر کورونا وائرس کے مقابلے میں کوئی متبادل پالیسی تو سامنے نہیں لائی لیکن وزیر اعظم الفاظ کے کرتب دکھا کر کورونا کا مقابلہ کرنے کی کوشش ضرور کرتے رہتے ہیں۔ کووڈ۔19 کے پھیلاؤ کے بارے میں یہ بات تصدیق شدہ ہے کہ یہ انسان سے انسان کو منتقل ہوتا ہے۔ اگر ایک شخص کورونا وائرس کا شکار ہے تو وہ جس چیز کو چھوئے گا، ممکنہ طور پر اس پر وائرس منتقل کرنے کا سبب بنے گا۔ اگرچہ وائرس ناک یا منہ کے راستے ہی جسم میں داخل ہوتا ہے لیکن ایک عام شخص غیر ارادی طور پر دن میں سینکڑوں بار منہ یا ناک کو ہاتھ لگاتا ہے۔ اسی لئے بار بار ہاتھ دھونے کی ہدایت کی جا رہی ہے تاکہ اگر کسی ایسی چیز کو چھونے سے وائرس ہاتھوں پر آجائے تو منہ یا ناک تک پہنچنے سے پہلے صابن سے ہاتھ دھو کر اس کا خاتمہ کردیا جائے۔

مسلمہ سائنسی و طبی معلومات کی وجہ سے کورونا منتقل ہونے کے طریقے سے تو بحث نہیں کی جا سکتی لیکن اس سے نمٹنے کے طریقوں میں فرق ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے سماجی ڈھانچہ میں سماجی دوری کی اصطلاح بھی مکمل طور سے نافذ نہیں ہوسکتی۔ اگر کالونیوں اور باقاعدہ گھروں میں رہنے والے کسی طرح اس پر عمل کر بھی لیں تو غریب آبادیوں، جھونپڑیوں یا تنگ مکانوں میں رہنے والے لوگ سماجی دوری کے ان تقاضوں کو عملی طور سے پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے جو کورونا سے بچاؤ کے لئے ضروری سمجھے جا رہے ہیں۔

ایسے میں اگر قومی قیادت مسلسل غلط معلومات فراہم کرے اور جذباتی نعروں کی بنیاد پر کورونا کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی جائے تو اس سے اس عفریت کا مقابلہ ممکن نہیں ہوگا۔ کورونا کے مقابلے میں پاکستان کی حکمت عملی میں یکسوئی اور واضح اہداف کا تعین ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments