کورونا وائرس: کیا وبا کی روک تھام کے لیے پرائیویسی قربان کرنا ہو گی؟


corona

کیا عجیب دور آ گیا ہے۔ جرمنی جو کہ شاید دنیا میں پرائیویسی کے حوالے سے سب سے زیادہ باشعور ملک ہے، اب ایک ایسی موبائل ایپ بنانے کے متعلق سوچ رہا ہے جو کوویڈ 19 سے متاثرہ افراد کے عوامی رابطوں کا بھی سراغ لگا لے گی۔

رواں ہفتے کے آغاز پر برطانوی وزیرِ اعظم نے کابینہ کے آن لائن اجلاس کی ایک تصویر شیئر کی۔ اس تصویر میں آن لائن اجلاس کی ’آئی ڈی‘ اور وزرا کے ’یوزر نیمز‘ (یعنی وہ نام جو وہ آن لائن استعمال کرتے ہیں) بھی نظر آ رہے تھے۔

انگلینڈ میں نیشنل ہیلتھ سروس نے ایک دستاویز جاری کی ہے جسے دیکھ کر لگتا ہے کہ اس نے مریضوں کے ڈیٹا کے متعلق اپنی پالیسی بدل دی ہے، کیونکہ اس میں کورونا وائرس کے حوالے سے مریض کی معلومات کے متعلق عملے کو زیادہ آزادی دی گئی ہے۔

اس میں کہا گیا ہے کہ اس ڈیٹا سے رجحانات کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور وائرس کے اثر اور کوویڈ 19 کے مریضوں یا جن کو اس سے خطرہ ہے، ان کی دیکھ بھال کے لیے استعمال کیا جائے گا، یعنی کہ اس طرح کے مریضوں کو ڈھونڈنے، ان سے رابطہ کرنے، سکرین کرنے، اور مانیٹر کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔

بی بی سی

انڈیا میں کورونا وائرس کی پہلی ٹیسٹنگ کٹ بنانے والی خاتون

کیا آپ صحت یابی کے بعد دوبارہ کورونا کا شکار ہو سکتے ہیں؟

پانچ چیزیں جو فوج عالمی وبا سے مقابلے کے لیے کر سکتی ہے


دوسرے الفاظ میں، ہسپتال کا عملہ اور .اکٹر جو کہ اب تک ڈیٹا پروٹیکشن کے حوالے سے انتہا کی حد تک احتیاط برت رہے تھے، اب کچھ سکھ کا سانس لے سکتے ہیں۔

لیکن ان جیسے افراد کے لیے جن کو آنکھوں کے ڈاکٹر نے کچھ عرصہ پہلے کہا تھا کہ وہ اپنی آنکھوں کی تصویر اتار کر ہسپتال کے ڈاکٹر کے پاس لے کر جائیں کیونکہ انھیں یہ تصویر ای میل کے ذریعے بھیجنے کی اجازت نہیں ہے، ان کے لیے یہ نئی پالیسی کچھ عقلمندانہ لگتی ہے۔

تو کیا ہم اس وبا کی وجہ سے ڈیٹا پرائیویسی پالیسی کو نرم کر رہے ہیں یا پھر ہم حکومتوں اور کارپوریشنوں کو ہنگامی حالت کو عذر بنا کر کر اپنے حقوق غصب کرنے کی اجازت دے رہے ہیں۔

پرتگال کے سابق یورپ کے وزیر برونو مکائز نے، جو کہ اب لکھاری اور مبصر ہیں، اپنی ایک چونکا دینے والی ٹویٹ میں لکھا کہ’وائرس کے خلاف جنگ میں پرائیویسی کے متعلق تشویش کا یہ خیال نہ صرف بے محل ہے بلکہ اس سے نقصان بھی پہنچ سکتا ہے اور یہ اس بحث کی ‘ایک انتہائی حد بھی ہے۔

اس کی دوسری حد پر پرائیویسی کی حمایت کرنے والے کھڑے ہیں جو بظاہر سمجھتے ہیں کہ وائرس سے متاثرہ لوگوں کی کسی بھی طرح کی نگرانی سے جاسوس ریاست کے پیدا ہونے کا خطرہ ہو سکتا ہے۔

ہم اس جنگ کو کانیکٹ۔ٹریسنگ ایپ کی بحث میں بھی ملوث ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں۔ برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک اس کے متعلق سوچ رہے ہیں۔ یورپی سائنسدانوں کے کنسورشیم کی ایک پریس کانفرنس میں پرائیویسی کو اہم نکتہ رکھا گیا۔

جرمن چانسلر انگیلا مرکل کے مشیر اور آرٹیفشل انٹیلیجنس کے اینٹریپرینیور ہانز کرسچیئن بووس اس منصوبے کے بانیوں میں سے ایک ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس کو تحریک دینے والے عوامل میں سے ایک یہ سوال پوچھا جائے کہ کیا واقعی ہم مکمل طور پر پرائیویسی کا تحفظ کر کے کسی حد تک ٹریسنگ کر سکتے ہیں؟

لیکن کچھ ممالک زیادہ احتیاط سے کام نہیں لے رہے۔ روس کی سوشل مانیٹرنگ ایپ ان شہریوں سے جن میں کووڈ۔19 مثبت آیا ہے، درخواست کرے گی کہ وہ اپنی کالوں، لوکیشن، کیمرے، سٹوریج، نیٹ ورک کے متعلق معلومات اور دوسرا ڈیٹا فراہم کرے تاکہ یہ چیک کیا جا سکے وہ کہیں متاثر ہونے کے دوران اپنے گھر سے نہ نکلے ہوں۔

تائیوان کے قرنطینہ میں موجود شہریوں کو مانیٹر کرنے کے لیے حکام نیٹ ورک ڈیٹا دیکھ رہے ہیں۔ ایک ایسا واقعہ بھی ہوا کہ جب ایک شخص کے فون کی بیٹری ختم ہو گئی تو 45 منٹ کے اندر اندر اس کے گھر پر پولیس پہنچ گئی۔

پرائیویسی

لیکن شاید سب سے انتہائی آپشن ایک سافٹ ویئر ٹول ہے جو اسرائیل کی ایک جاسوسی کے آلات بنانے والی فرم این ایس او گروپ نے بنایا ہے۔ اس کے مطابق حکومتیں موبائل فون آپریٹرز کو کہہ رہی ہیں کہ وہ اپنے صارفین کی نقل و حرکت کے متعلق تمام ڈیٹا انھیں دے دیں۔

جب میں نے برطانیہ کے صحت عامہ کے ادارے نیشنل ہیلتھ سروس کے ایک اہلکار سے پوچھا کہ کیا ایسا کرنا یہاں ممکن ہو گا، تو مجھے فون پر ہی محسوس ہو گیا کہ ان کا رنگ سفید ہو رہا ہے۔ برطانیہ میں اس ایپ پر کام کرنے والی ٹیم کو اس بارے میں بہت احساس ہے کہ اگر اس نے تقریباً 60 فیصد آبادی کو بھی اسے انسٹال کرنے کے لیے آمادہ کرنا ہے تو اسے ان کا بھروسہ قائم رکھنا ہو گا۔

اور شہریوں کو یہ کہنا ہے کہ ان کی حکومت ان کی ہر حرکت پر نظر رکھ رہی ہے انھیں اس سے دور ہی لے کر جائے گا۔ لیکن یہاں ایک مسئلہ ہے۔ پرائیویسی کی کچھ تشویش کو نظر انداز کر کے تیزی سے ایپس اور دیگر ٹیکنالوجی والے حل لانے کا مطلب ہو سکتا ہے کہ شاید لاک ڈاؤن اور معمول کی روزانہ کی زندگی پر لگی ہوئی پابندیوں کو جلدی کم کر دیا جائے۔

برطانیہ جیسے ممالک کے متعلق، جو پرائیویسی کے متعلق زیادہ محتاط ہیں، یہ امکان زیادہ ہے کہ وہ کانٹیکٹ۔ٹریسنگ ٹیکنالوجی کو لانے میں سست روسی کا مظاہرہ کریں۔ اور اس کا مطلب ہے وہ زیادہ عرصے تک لاک ڈاؤن میں رہیں گے۔

سو کیا عوام پرائیویسی کے حق کی آزادی کی ایک قسم کو گھر سے نکلنے اور کام پر واپس جانے کے حق کی آزادی کی دوسری قسم کے ساتھ بدلنے کے لیے تیار ہے۔ ہماری زندگی کے کئی دوسرے حصوں کی طرح کورونا وائرس ہمیں یہاں بھی مجبور کر رہا ہے کہ ہم اپنی ترجیحات کے متعلق مشکل سوالات کا سامنا کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp