کورونا وائرس: عالمی وبا کے پھیلاؤ کو سمجھنے کے لیے گوگل لوگوں کی نقل و حرکت کی نگرانی کرے گا


گوگل

کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران گوگل عوامی سطح پر لوگوں کی نقل و حرکت کی نگرانی کرے گا تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ کورونا وائرس کی وبا کیسے پھیلتی ہے۔

ٹیکنالوجی کمپنی گوگل برطانیہ کے ایک ایک دیہی علاقے کے مختلف مقامات اور افراد کی نقل و حرکت سمیت دیگر 130 ممالک کے افراد کا ایسا ہی ڈیٹا شائع کرے گی۔

اس منصوبے کا مقصد لوگوں کی گذشتہ دو سے تین روز کی سرگرمی کا مسلسل جائزہ لینا اور باقاعدگی سے ان کے اعداد و شمار جاری کرنا ہے تاکہ بہتر طور پر لوگوں کی نقل و حرکت کے بارے میں جانا جاسکے۔

تاہم کمپنی نے یہ وعدہ کیا ہے کہ صارفین کی پرائیویسی کا خیال رکھا جائے گا۔ یہ اعداد و شمار گوگل میپس ایپ یا کسی فرم کی دوسری موبائل سروسز کے ذریعے جمع کردہ لوکیشن ڈیٹا پر مبنی ہیں۔

بی بی سی

کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟

نرس اریما نسرین بھی کورونا وائرس سے جان کی بازی ہار گئیں

آخر کورونا وائرس شروع کہاں سے ہوا؟

کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں


گوگل عام طور پر ایسا ڈیٹا اس وقت استعمال کرتی ہے جب مخصوص عجائب گھروں، دکانوں اور دیگر مقامات پر زیادہ رش ہونے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹریفک جام کے صورت میں متبادل راستے بتانے ہو تاکہ ڈرائیورز کو ٹریفک سے بچنے میں مدد مل سکے۔

تاہم اس صورت میں گوگل اس ڈیٹا کو توڑ کر یہ جائزہ لے گی اور یہ جاننے کی کوشش کرے گی کہ درج ذیل مقامات پر لوگوں کی نقل حرکت اب کے مقابلے میں اس برس کے آغاز میں جب لاک ڈاؤن نافذ نہیں کیے گئے تھے کتنی تھی۔

  • خریداری اور تفریحی مقامات
  • سودا سلف اور میڈیکل سٹورز
  • پارکس، ساحل اور پلازے
  • بسوں، ٹرینوں اور سب وے سٹیشنوں پر
  • دفتری عمارات اور دیگر کام کی جگہوں پر
  • رہائشی مقامات پر

گوگل کا کہنا ہے کہ امید ہے کہ اس معلومات کو صحت عامہ کے سربراہان اور دیگر حکام کورونا کی وبا کو محدود کرنے میں مدد کے لیے استعمال کر سکیں گے۔

گوگل کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ‘یہ معلومات حکام کو عوام کے ضروری دوروں میں ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے جو کاروباری اوقات میں تبدیلی یا ڈیلیوری سروس کی پیش کشوں کے متعلق آگاہی فراہم کر سکتی ہے۔'”

‘اسی طرح لوگوں کی جانب سے بس اڈوں، ٹرین سٹیشنوں یا دیگر ٹرانسپورٹ کے مقامات پر متواتر دوروں کی صورت میں سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے لیے مزید بسوں اور ٹرینوں کی نشاندہی کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔’

کورونا

کمپنی کا کہنا ہے کہ اس نے بہت سے انفرادی صارفین کی پرائیویسی برقرار رکھنے کے لیے ان کی ڈیٹا ریکارڈ کو بے نام کر دیا ہے اور اس کو بے ترتیبانہ طور پر تیار کردہ اعداد و شمار میں ملا دیا ہے۔ تاہم صارفین خود بھی ان اعداد و شمار کی فراہمی نہ کرنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔

بی بی سی کے ٹیکنالوجی کے نامہ نگار روری سیلن جونز نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ‘یہ اعداد و شمار ان لوگوں کے لیے حیران کن ثابت ہوسکتے ہیں جو اس بات سے بے خبر ہیں کہ گوگل کتنی معلومات اکھٹی کرتا ہے۔'”

ان کا کہنا تھا کہ ‘اس سے یہ دلچسپ معلومات بھی ملے گی کہ لاک ڈاؤن پر کس طرح عمل ہو رہا ہے ،یا گذشتہ 48 گھنٹوں میں کس طرح عمل ہوا۔’

‘اور اس کے کچھ غیر ارادی نتائج بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ لوگ مصروف مقامات پر نہ جانے کا فیصلہ کرسکتے ہیں یا انھیں یہ حیرت ہوسکتی ہے کہ کتنے لوگ باہر جارہے ہیں اور ان میں شامل ہونے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔’

اس ضمن میں گوگل کی جانب سے جاری 29 مارچ کو جاری کی گئی پہلی رپورٹ میں تین جنوری سے 6 فروری تک ہونے والی سرگرمی کے اعداد و شمار کا احاطہ کرتے ہوئے جائزہ لیا گیا ہے۔

یہ اعداد وشمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مجموعی طور پر برطانیہ میں عوام کے دوروں کی تفصیل کچھ یوں رہی:

  • خریداری اور تفریحی مقامات پر 85 فیصد کمی آئی۔
  • سودا سلف کی دکانوں اور میڈیکل سٹورز کے دوروں میں 46 فیصد کمی آئی۔
  • پارکوں میں 52 فیصد کمی۔
  • بس اور ٹرین اڈوں پر 75 فیصد کمی۔
  • دفتروں میں 55 فیصد کمی۔
  • جبکہ رہائشی مقامات پر پندرہ فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

جبکہ اس کے مقابلے میں فرانس میں کیے گئے جائزے کے اعداد و شمار کے مطابق

  • خریداری اور تفریحی مقامات پر 88 فیصد کمی آئی۔
  • سودا سلف کی دکانوں اور میڈیکل سٹورزپر 72 فیصد کمی آئی۔
  • پارکوں میں 82 فیصد کمی ہوئی
  • بسوں اور ٹرینوں کے اڈوں پر 87 فیصد کمی ہوئی
  • دفتروں میں 56 فیصد کمی
  • جبکہ رہائشی علاقوں میں 18 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔

گوگل نے اپنی یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں پیش کی ہے جب اس سے ایک دن قبل یورپی یونین کے ادارہ برائے انصاف کی سربراہ ویرا جورووا نے ٹیکنالوجی کی کمپنیوں سے وائرس سے نمٹنے کی کوشش کرنے والے سائنسدانوں کے ساتھ مزید ڈیٹا شیئر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

انھوں نے ان ٹیکنالوجی کمپنیوں کو جھوٹی اور غلط معلومات پہنچانے والے کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اب بھی دیکھ رہے ہیں کہ ٹیکنالوجی کی بڑی کپمنیاں ابھی بھی کورونا وائرس کے بارے میں غلط معلومات اور نقصان دہ مواد دینے والے آن لائن اشتہارات کے ذریعے پیسا کمانے میں مصروف ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے اور کلک کے ذریعے پیسا کمانے اور غلط معلومات اور فائدہ پہنچانے والے فراڈ کے سلسلے کو اب ختم ہونا چاہیے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32297 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp