ہمارے لڑکپن کا نواں شہر


اس کے جگری دوست کندن خان کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ داستان ادھوری رہ جائے گی۔ خالص دودھ۔ دہی اور سوہن حلوہ۔ مگر اس دکان کی سب سے بڑی سوغات کیوڑے میں بسا ہوا کھویا تھی۔ ویسا کھویا زندگی میں صرف ایک دفعہ اور چکھنے کو ملا۔

چاندنی چوک دہلی میں فوارے کے ساتھ ایک بڑا گوردوارہ ہے۔ اس کے سامنے سڑک کے دوسری طرف ایک مارکیٹ ہے جس میں شروع ہی میں ایک سکھ کی مٹھائی کی دکان ہے۔ اصل میں ہم اس کی جلیبیاں دیکھ کر رکے تھے جنہیں وہ بجا طور سے جلیب کہنے پر مصر تھا، اس لئے کہ ایک ایک جلیبی کا وزن بلا مبالغہ ایک پاؤ سے زیادہ تھا۔

اس کے شو کیس میں بالکل اسی شکل کا کھویا نظر آیا۔ چکھ کے دیکھا تو وہی ذائقہ۔ کندن خان مرحوم کا سراپا نظروں کے سامنے آ گیا۔ اصل میں سکھ حضرات کے ہاں ڈیری آئٹم ہمیشہ خالص دودھ سے تیار کیے جاتے ہیں۔ اپنی قیام دہلی کے دوران ہم دہی اور مختلف ورائٹی کی پکوڑے ہمیشہ لاجپت نگر سے سکھ حضرات کی دکان سے ہی لیتے تھے۔ واقعی اس جیسے لذیذ اور منفرد پکوڑے بھی پھر کبھی نصیب نہیں ہوئے۔

کہا جاتا کہ دنیا کی تیز ترین چیز خیال ہے جو سیکنڈ کے بھی ہزارویں حصہ میں لاکھوں میل کا فاصلہ طے کر لیتا ہے۔ یہاں تو صرف سینکڑوں میل کی دوری ہے۔ اس لئے اگر ہم ایک ہی جست میں ملتان سے دہلی پہنچ گئے تو ہمارا کوئی قصور نہ سمجھا جائے۔ کندن خان کی دکان کے بعد پھر ایک موچی محمد حسین کی دکان تھی۔ ان کے ہاں آرڈر پر نئے جوتے بھی بنائے جاتے تھے جبکہ اللہ بخش کے ہاں صرف جوتوں کی مرمت ہی ہوتی تھی۔

اس دکان کے ساتھ ہی ایک بہت بڑا احاطہ تھا جس میں جالندھر آٹوز کے نام سے کاروں کی ورکشاپ قائم کی گئی تھی۔ اس کے مالک کا نام تو معلوم نہیں مگر ان کے بیٹے کی شکل ابھی تک ذہن پر نقش ہے۔ بلی آنکھوں والا نوجوان اپنے کام میں ماہرتھا اور ہر گاہک کی کوشش ہوتی تھی کہ اس کی کار وہی چیک کرے۔ ہم کبھی کبھی اپنے دوست کے ساتھ اینٹوں پر کھڑی پرانی کاروں کے سٹئیرنگ گھما گھما کے ڈرائیونگ کا شوق پورا کر لیتے۔ حا لانکہ مئی جون کی تپش میں کار تندور بنی ہوئی ہوتی، مگر ”شوق دا کوئی مل نئیں“ کے مصداق ہم بھی باز نہ آتے۔

ورکشاپ کے ساتھ نواں شہر کا اکلوتا فلتھ ڈپو تھا جس میں آس پاس کے سب علاقوں کا کچرا پھینک دیا جاتا اور کئی کئی روز تک نہ اٹھایا جاتا، جس کے سبب اس کے سامنے سے گزرنا محال ہو جاتا۔ یہاں سے ہم بستی باغبان کی گلی میں مڑتے ہیں۔

کونے والی دکان دھوبی غلام رسول کی تھی۔ ہمارے گھر کے کپڑے ان کے ہاں ہی دھلتے تھے۔ یہ دو بھائی تھے۔ ان کے بیٹوں سے اب بھی کبھی راہ چلتے ملاقات ہو جائے تو ان کے والد کا ذکر ضرور ہوتا ہے۔ دھوبی اور فلتھ ڈپو کی دیوار کی پیچھے ایم، بی، پرائمری سکول کی عمارت ہے جہاں سے راقم الحروف نے مبلغ ایک آنہ، جی ہاں صرف ایک آنہ چندہ دے کر پہلی سے پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔
قارئین محترم۔ اگر آپ کی دل چسپی برقرار رہی تو دوسری قسط میں آپ کو اسی سڑک کے دوسری طرف کے لوگوں سے ملوایا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments