شوگر ایک موذی شے ہے


شوگر ایک موذی شے ہے۔ اردو میں اس کا لفظی ترجمہ چینی بنتا ہے۔ اس بیماری میں مبتلا شخص کا جسم آہستہ آہستہ گھلنے لگتا ہے، وزن کم ہوتا رہتا ہے۔ بھوک غیر معمولی طور پر زیادہ ہو جاتی ہے۔ جسم کی توانائی کی ضرورت پوری کرنے کی خاطر جسم چربی کے علاوہ عضلات بھی کھانے لگتا ہے۔ بیرونی حملہ آوروں کے خلاف دفاعی نظام موثر نہیں رہتا۔ کوئی زخم لگ جائے تو ناسور بن سکتا ہے۔ بلکہ زخم لگے بغیر جسم میں خود بخود پھوڑے پھنسیاں بنتے رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ زیادہ بگاڑ پیدا ہونے کی صورت میں جان بچانے کی خاطر شوگر کی علت میں مبتلا جسمانی عناصر کو کاٹ کر پھینکنا بھی پڑ جاتا ہے۔

زمانہ قدیم میں اس کا ذکر سب سے پہلے چھٹی صدی قبل از مسیح کے ہندی طبیب سشرت کے ہاں ملتا ہے۔ اس نے شوگر کو شناخت کیا اور اس کا نام مدھومیہا رکھا۔ مدھو یعنی شہد اور میہا یعنی پیشاب۔ شوگر کا ٹیسٹ کرنے کے لیے چیونٹیاں استعمال کی جاتی تھیں۔ مرض کا پتہ لگانے کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ مریض کے پیشاب کے گرد چیونٹیاں اکٹھی ہوتی ہیں یا نہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ شوگر کو ڈائبیٹیز یا ذیابیطس کا نام ڈھائی سو قبل از مسیح میں گزرے یونانی طبیب اپولونیس نے دیا۔ قدیم ہندی، یونانی، چینی اور مصری اطبا بھی اسے میٹھے پیشاب کی وجہ سے شناخت کرتے تھے۔

قدیم اطبا میں شوگر پر سب سے زیادہ اہم کام دسویں صدی عیسوی کے مشہور طبیب ابن سینا نے کیا تھا۔ ابن سینا نے القانون میں شوگر کی علامات، اس سے پیدا ہونے والی پیچیدیگیوں، بھوک کی زیادتی، اس کے ناسور بننے وغیرہ کا مفصل ذکر کیا تھا۔ اس کا کام زمانے سے اتنا آگے تھا کہ آٹھ صدیوں بعد جوہان پیٹر فرینک ویسا کچھ کر سکا۔ بہرحال ابن سینا کے ساتھ حکومت نے اچھا سلوک نہیں کیا۔ کبھی قید رکھا گیا، کبھی حکومت کے ڈر سے چھپا رہا۔ کبھی کوئی اور عذاب نازل ہوا۔ گمان ہے کہ اس کے پیچھے شوگر مافیا کا ہاتھ ہو گا۔

یہ شوگر، یعنی مدھومیہا وغیرہ اچھے بھلے مضبوط نظام کا بیڑہ غرق کر دیتے ہیں۔ اگر کسی نظام میں شوگر کی شکایت پیدا ہونے لگے، اور اس کے اعضائے رئیسہ شوگر کے چکر میں پڑ جائیں یا کھانے یا پینے کی چیزوں کو شہد بنا ڈالیں تو بہت پریشانی ہو جاتی ہے۔ مریض کی کارکردگی صرف زیادہ پینے اور زیادہ چینی زدہ پانی نکالنے تک ہی محدود ہو جاتی ہے اور دیگر کام کرنا دشوار ہو جاتا ہے۔

جسم اگر ناسور زدہ ہو جائے، بیماریوں میں گھر جائے، نظام کے اعضائے رئیسہ کو شوگر کھوکھلا کر دے، تو بچارا سر کیا کرے گا؟ دماغ تو جسم کا محتاج ہوتا ہے۔ جب جسم ہی شوگر کے سکینڈل کے باعث کسی کام کا نہ رہے تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ بندہ دماغ رکھتا ہے یا نہیں۔ پھر چینی سارا نظام اپنی مرضی سے چلاتی ہے، ساری سرداری چوپٹ ہو جاتی ہے۔ انجام کار سارا نظام گھل گھل کر ختم ہو جاتا ہے۔ سیانے لوگ شوگر کا بحران پیدا کرنے والے عناصر سے بچ کر رہتے ہیں۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments