پہلی اُڑان: دبئی ایئرپورٹ



تقریبا تین گھنٹے کی پرواز کے بعد ہم دبئی ایئرپورٹ پر لینڈ کرنے والے تھے۔ لینڈنگ کے دوران میرے ساتھ والی نشست پر بیٹھے ہوئے شخص نے کھڑکی سے دور کہیں اشارہ کر کے مجھے برج خلیفہ دکھایا۔ ریت کے سوا مجھے کچھ دکھائی نہیں دیا مگر میں نے دل کو سمجھا دیا تھا کہ ہاں میں نے برج خلیفہ بھی دیکھ لیا ہے۔ دبئی لینڈ کرنے والی اس پرواز میں زیادہ تر لوگ لمبی لمبی داڑھیوں والے پٹھان تھے۔ ان کے ساتھ ٹوپی والے برقعے میں ملبوس یقیناً ان کی بیگمات تھیں۔ ایک لمحے کے لئے تو مجھے لگا میں دبئی کی بجائے افغانستان جانے والی پرواز میں بیٹھ گئی ہوں۔

آخر کار ہم دبئی ایئرپورٹ پہنچ گئے۔ دبئی ایئرپورٹ دنیا کا تیسرا بڑا ایئرپورٹ تصور کیا جاتا ہے۔ بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ایک انتہائی خوبصورت ایئرپورٹ بھی ہے۔ چیکنگ کے مراحل سے گزرنے کے بعد میں نے پل بھر کے لئے ٹھہر کر کن اکھیوں سے ایئرپورٹ کا جائزہ لیا تھا۔ ایک لمحے کے لئے مجھے لگا پوری دنیا سفر میں ہے۔ وہاں ہر طرح کے لوگ تھے گورے، کالے، عربی، چینی، پاکستانی، یورپین۔ ایئرپورٹ پر لوگوں کی گہما گہمی دیکھ کر ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے پہاڑوں میں بہتی آبشار کا شور سکوت توڑ رہا ہو، جیسے کسی سڑک پر تیز رفتار چلتی گاڑیاں ہوں، اور میں سڑک کے اس پار کھڑی ہوؤں۔ کچھ ہی دیر میں میں بھی اس گہما گہمی کا حصہ بن چکی تھی اور اس سڑک پر چلتی ہارن بجاتی تیز رفتار گاڑیوں میں میری گاڑی بھی شامل ہو چکی تھی۔

میری اگلی پرواز تقریبا دس گھنٹے بعد تھی۔ اس لحاظ سے ہمارے پاس پورا دن موجود تھا۔ ہم تینوں نے اپنے اپنے بیگ اٹھائے اور تازہ دم ہونے کے لیے ریسٹ روم کا رخ کیا۔ ریسٹ روم سے واپسی پر میں اس بات سے قطعی طور پر نا واقف تھی کہ میں بِنا بیگ کے واپس آئی ہوں۔ جب باتیں ختم ہو گئیں، اور موبائل کی گیلری تصویروں سے کھچا کھچ بھر گئی اور مزید چلنے کی ہمت بھی نہ رہی تب کہیں جا کر مجھے بیگ کا خیال آیا۔ حواس باختہ ہوکر ہم تینوں نے بیگ کی تلاش شروع کر دی۔

ذہن پر خوب زور دیا مگر بالکل یاد نہیں آیا کہ کس جگہ میرے اور بیگ کے راستے جدا ہوئے۔ جس جگہ بیٹھے تھے ان کرسیوں کے دائیں بائیں دیکھا، جہاں کھانا کھایا تھا وہاں بھی دیکھا، مگر بیگ نہیں ملا۔ آخر کار ہماری تلاش ریسٹ روم میں ختم ہوئی۔ خدا کی پناہ میری سانسیں بحال ہوئیں، میرا بیگ جوں کا توں اسی جگہ پڑا تھا جہاں میں نے آخری بار رکھا تھا۔ پھر خود کڑیاں ملی اور مجھے یاد آیا کہ بال بنانے کی غرض سے میں نے بیگ اتار کر پانی والے نل کے ساتھ اور شیشے کے بالکل سامنے رکھا تھا۔ اور پھر یوں ہوا کہ دوبئی پہنچ جانے کے خمار میں اور دوستوں سے خوش گپیوں میں مصروف میں بیگ اٹھانا ہی بھول گئی اور باہر نکل گئی۔ اس واقعے کے بعد میں نے ہر لمحہ دل و جان سے آپ اپنے بیگ کی حفاظت کی۔

چونکہ دبئی ایئرپورٹ پہنچتے ہی ہمارے موبائل کے نیٹ ورک بند ہوچکے تھے، وائی فائی کا کنکشن تھا مگر واٹس ایپ کال ممکن نہیں تھی۔ سو ہم نے فقط واٹس ایپ پیغامات بھیج کر دوست احباب کو اپنے دبئی پہنچنے کی اطلاع دے دی تھی۔ یاد رہے کہ دبئی اور پاکستانی اوقات میں فقط ایک گھنٹے کا فرق ہے اس لیے ابھی تک گھر والوں کو اگلی پرواز کے اوقات سمجھانے میں کوئی دقت پیش نہیں آئی تھی۔ یہ دس گھنٹے جو ہم نے دبئی ایئرپورٹ پر گزارے اس میں ہم ایئرپورٹ کا ہر وہ کو نا دیکھ چکے تھے جہاں تک ہماری رسائی تھی۔ اور تو اور سن گلاسز سے لے کر میک اپ تک اور میک اپ سے لے کر بسکٹ کے پیکٹ تک تمام اشیاء کے دام ہم حفظ کرچکے تھے۔ اور حد یہ کہ ہم یہ بھی بتا سکتے تھے کہ ایک درہم میں کتنے پاکستانی روپے ہیں اور کتنے درہم ملاؤ تو ایک ڈالر بنتا ہے۔ خدا خدا کرکے فلائٹ کا وقت قریب آیا اور دیکھتے ہی

دیکھتے تمام ایکسچینج طلباء جو دبئی ایئرپورٹ پر موتیوں کی مانند بکھرے ہوئے تھے آہستہ آہستہ استقبالیہ پر جمع ہونا شروع ہوگئے۔ دبئی ایئرپورٹ پر موجود ان طلباء میں نہ صرف لاہور سے آنے والے بلکہ وہ تمام طلبہ بھی شامل تھے جو اسلام آباد اور کراچی سے آنے والی پروازوں سے دبئی پہنچے تھے۔ ہماری اگلی پرواز دبئی سے جرمنی کے شہر فرینکفرٹ کی تھی۔ کچھ ایسے طلباء بھی تھے جو دبئی سے جرمنی کی بجائے سوئٹزرلینڈ پرواز کر نے والے تھے۔

استقبالیہ پر ایک خاتون براجمان تھیں۔ اس خاتون نے عربی لہجے میں بولی جانے والی انگریزی میں مجھ سے پے درپے متعدد سوالات کیے مگر ان خاتون کے تاثرات دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میرے کسی بھی جواب سے ان کی تسلی نہیں ہوئی۔ پھر اس خاتون نے پے در پے دو تین کالز کیں اور کچھ ہی دیر بعد اس نے مجھے دو بورڈنگ پاس تھما دیے۔ ایک بورڈنگ پاس دبئی سے جرمنی جانے والی فلائٹ کا تھا اور دوسرا جرمنی سے واشنگٹن ڈی سی جانے والی فلائٹ کا۔

اگلی پرواز کا پروانہ تھامے ہم خوشی خوشی متعلقہ ٹرمینل پر پہنچ گئے۔ پیسنجر لاؤنج میں مسافروں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ بزنس کلاس سے پرواز کرنے والے مسافروں کے لئے اعلی درجے کا الگ سے لاؤنج تھا۔ یاد رہے کہ اس بار میں لوفتھانسا ایئرلائن سے پرواز کرنے والی تھی۔ لوفتھانسا ائر لا ئن جرمنی کی ایئر لائن ہے۔ اور یہ یورپ کی دوسری بڑی ایئرلائن تصور کی جاتی ہے۔ بورڈنگ کا اعلان سنتے ہی میں نے بھی کمر کس لی اور قطار میں لگ گئی۔

لوگوں کا ہجوم دیکھ کر اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا تھا کہ یہ خاصی بڑی فلائٹ ہے۔ ہماری قطار کے برابر ایک اور قطار بھی چل رہی تھی جو کہ بزنس کلاس سے پرواز کرنے والے مسافروں کی تھی۔ داخلی دروازے پر پہنچتے ہی ڈیوٹی پر تعینات گارڈ نے مجھ سے بورڈنگ پاس کا مطالبہ کیا۔ بھاری بھرکم جسم والا وہ گارڈ شکل سے حبشی معلوم ہوتا تھا۔ میں نے جھٹ سے اس کو اپنا بورڈنگ پاس تھما دیا۔ مگر اگلے ہی لمحے میرا دل حلق کو آ گیا کیونکہ گارڈ نے فقط ایک نظر میرے بورڈنگ پاس پر ڈالی اور پھر نہایت بے دردی سے میرا بورڈنگ پاس پھاڑ کر کوڑے دان میں پھینک دیا۔ اور پھر خود منظر سے غائب ہو گیا۔

 (جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
7 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments