دعوت اسلامی: مذہبی افراد کا حسین چہرہ



کم و بیش دنیا کا ہر انسان اپنی مرضی کا سچ دیکھنا اور جاننا چاہتا ہے۔ اپنی اسی خواہش کی تکمیل کے لیے بلآخر اچھے اور برے کی تمیز گنوادی جاتی ہے اور سب کو ایک ہی نظر سے دیکھنا شروع کردیا جاتا ہے۔ ، اس کے بعد انسان نظریات اور سوچ کا اتنا غلام ہوجاتا ہے کہ اسے اگر ایک بات میں لیلی مجنوں جبکہ مجنوں کو لیلی کر کے پیش کردیاجائے تو بس آنکھیں بند کرکے مانتا جاتا ہے مگر اپنی تصحیح کرنے کی کوشش نہیں کرتا، ایسا ہی کچھ ہماری معاشرتی و نظریاتی فکر کے ساتھ بھی ہوا۔

ایک منظم انداز سے ہماری سوچ میں تبدیلی کی گئی اور اس تبدیلی کی صورت میں مذہبی طبقہ اور سوچ کے حامل افراد کا فقط منفی چہرہ ہی ہمارے سامنے لایا گیا۔ ایک جانب مذہبی افراد کو مسالک اور مذاہب میں تقسیم رکھا گیا اور دوسری جانب بڑے منظم انداز سے تمام مسالک کے خلاف برابر پروپیگینڈہ جاری رکھتے ہوئے عام افراد کو مذہبی طبقہ سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی۔ ان کے اچھے کاموں کی پذیرائی کے بجائے صرف برے اور منفی کاموں کی تشہیر کی جاتی رہی اگر چہ اچھے اور برے کا م کا تعلق فرد واحد سے ہوتا ہے ناکہ نظام اور اس سے متعلقہ افراد سے۔

حال ہی میں ایک موصوف نے فرمادیا کہ پاکستان میں کرونا کے پھیلاؤ کا سبب مذہبی افراد تھے اور چونکہ یہ ہماری مرضی کا سچ تھا تو ہم نے تصویر کا دوسرا رخ دیکھنے کے بجائے مذہبی افراد کے خلاف واویلا شروع کردیا۔ جس میں کچھ مذہبی سوچ اور فکر کے حامل افراد بھی انجانے میں آلہ کار بن گئے اور مقصد صرف یہ گمان پیدا کرنا تھا کہ کرونا کے پھیلاؤ کی وجہ صرف مذہبی افراد کی نقل وحرکت تھی۔ اور اس ساری بحث میں حالیہ بحران میں مذہبی افراد اور تنظیمیوں کی انسانی فلاح و بہبود کے لیے کی جانے والی کوششوں کویکسر فراموش کردیا گیا اور کسی نے یہ جانے کی کوشش ہی نہ کی کہ مذہبی تنظیمیں انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے کہاں اور کیسے کیسے کوشاں ہیں۔

جن موصوف نے یہ فرمایا تھا کہ پاکستان میں کرونا کے پھیلاؤ میں مذہبی طبقہ ملوث ہے کاش وہ یہ کہتے کہ الحمدللہ کچھ مذہبی جماعتیں حکومتی اقدامات پر مکمل عمل کررہی ہیں اور جو نہیں کررہی انہیں عمل کرنے والی جماعتوں سے درس حاصل کرنا چاہیے۔ جیسا کہ دنیا بھر میں دین کی اشاعت وترویج میں مصروف عالمگیر جماعت دعوت اسلامی نے پاکستان بھر میں ہونے والے اپنے تمام ہفتہ وار اجتماعات اور معمول کی تمام سرگرمیاں حکومتی اقدامات کے پیش نظر ملتوی کرتے ہوئے اپنے تمام کارکنان کو گھروں میں رہنے کا حکم دے دیا۔

اس جماعت کا ایک مزید اہم اور قابل تقلید عمل تھلیسیمیا کے مریض بچوں کے لیے خون کے عطیات کی فراہمی تھی اور خون کے عطیات کی فراہمی کا یہ عظیم کام یقینا دیکھنے اور سننے والوں کے لیے بے حد متاثر کن تھا۔ ہماری معلومات کے مطابق جب تنظیم کے سربراہ مولانا الیاس قادری کو اس بارے میں اطلاع موصول ہوئی کہ لاک ڈاون کے سبب پاکستان میں خون کے عطیات میں کمی واقع ہوچکی ہے تو انہوں نے اپنے کارکنان کو فوری خون کے عطیات کی فراہمی کاحکم دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے بیشتر شہروں میں بلڈ کیمپ کے انعقاد کردیے گئے۔

ان کیمپس کی خاص بات یہ تھی کہ مذکورہ بلڈ کیمپس میں بھی کرونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر پر مکمل عمل کرتے ہوئے بین الاقومی معیار کو مدنظر رکھا گیا اور بڑی تعداد میں خون کے عطیات جمع کیے گئے۔ ان عطیات کے سبب پاکستان میں موجود تھلیسیمیا کے مریض بچوں میں خون کی کمی کو پورا کرنے میں معاونت حاصل ہوگئی اور اچھی خبر یہ ہے کہ اب لاک ڈاون کے سبب تھلسیمیا کے بچے خون کے عطیات سے محروم نہیں رہیں گے۔ میری گزارش دعوت اسلامی کے سربراہ سے ہے کہ اس سلسلے کو برقرار رکھتے ہوئے باقاعدہ بلڈبینک کے قیام کا اعلان کریں کیونکہ آپ کی تنظیم ایک منظم تنظیم ہے اور وہ یہ کارخیر احسن انداز سے سرانجام دے سکتی ہے۔

اس تنظیم کے ان دو فلاحی کا موں کو دیکھتے ہوئے جب میں نے مزید تحقیق کا راداہ کیا تو علم ہوا کہ نہ صرف حالیہ لاک ڈاون بلکہ جب بھی پاکستان پر مشکل وقت آیا دعوت اسلامی نے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کا اپنا حصہ شامل کیا۔ پاکستان کی تاریخ کے تباہ کن زلزلہ اور مختلف مواقع پر آنے والی سیلابی آفات میں بھی دعوت اسلامی اپنے ہم وطنوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی رہی۔ ٖاحترام انسانیت کے جذبہ سے سرشار فلاح و بہبود کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

کرونا کی احتیاطی تدابیر کے طور پر کیے جانے والے حفاظتی لاک ڈاون کے سبب متاثر ہونے والے مزدور اور کم آمدنی والے افراد کی خاموشی سے امداد میں دعوت اسلامی بڑھ چڑھ کر اپنا حصہ شامل کررہی ہے۔ اس تنظیم کے منظم اور باقاعدہ کام کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہماری ہائیر ایجوکیشن کمشن پاکستان ملک بھر کی جامعات میں آن لائین کلاسز کے لئے جس وقت پلاننگ کررہی تھی یہ تنظیم اپنے مدارس کے بچوں کو قرآن پاک کی آن لائن تعلیم فراہم کررہی ہے۔

اس تنظیم کے دیگر شعبہ جات میں بھی انقلابی کام دیکھنے کو مل رہا ہے مگر اس پر کسی اور کالم میں بات کروں گا۔ آج صرف اتنی گزارش ہے کہ تمام مذہبی طبقہ کے خلاف بات کرتے ہوئے ایسی تحریکوں اور تنظیموں پر بھی غور کیا کریں۔ مذہبی افراد کے فلاحی کاموں پر بھی روشنی ڈالا کریں، تاکہ ہم دعوت اسلامی جیسا مذہبی افراد کا حسین و جمیل چہرہ دنیا کے سامنے لاسکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments