عمران خان قوم کو دریلیس – ارطغرل ڈرامہ کیوں دکھانا چاہتے ہیں؟


اگرچہ میں محترم وزیرِ اعظم عمران خان صاحب کے مشورے سے پہلے ہی پروڈکشن کوالٹی اور معیار کی تعریف سن کر ترکی ڈرامہ ”دریلیس۔ ارطغرل“ دیکھنا شروع کر چکا تھا، لیکن وزیرِ اعظم صاحب کے فرمان کے بعد میں نے اس تفریحی ڈرامے کو اصلاحِ معاشرہ اور قوم سازی کے نکتہ نظر سے بھی پرکھنا شروع کردیا۔ اور لاک ڈاؤن کی بدولت آج لگ بھگ پانچ سو اقساظ پر مشتمل پانچ سیزنز مکمل کر کے فارغ ہوچکا ہوں۔

تیرہویں صدی کی ایک نیم تاریخی شخصیت ارطغرل کی زندگی کے واقعات پر مشتمل یہ ڈرامہ مجھے مطالعہ پاکستان کے نصاب کی یاد دلاتا ہے۔ اپنے نظامِ تعلیم اور نصاب کے حوالے سے میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ ہمارے سکولوں میں مطالعہ پاکستان کچھ یوں پڑھایا جاتا ہے کہ قائدِ اعظم کے اس فرمان کا کہ ”پاکستان اسی دن معرضِ وجود میں آ گیا تھا جس دن برِ صغیر کے پہلے ہندو نے اسلام قبول کیا تھا“ بچے کے ذہن میں کچھ ایسا نقشہ کھنچتا ہے کہ ایک نتھو رام نے کہیں بیٹھ کر پہلا کلمہ پڑھا، ہاتھ جھاڑے اور اٹھ کر کہنے لگا ”چلو بھئی پاکستان بنائیں“۔

ڈرامہ دریلیس۔ ارطغرل میں ”دریلیس“ یعنی نشاۃالثانیہ کا ذکر وقتاَ فوقتاَ بعینہ اسی انداز میں ہوتا رہتا ہے، قطع نظر اس کے کہ تاریخی اعتبار سے ترکوں کی سلطنت کسی قابلِ ذکر قد کاٹھ کی حامل کہیں دوسو سال بعد جا کر ہوئی۔

اللہ بخشے ہمارے ضیا الحق صاحب نے جب پروفیشنل ڈگری پروگرامز یعنی انجینئرنگ اور ایم بی بی ایس وغیرہ میں اسلامیات پڑھانے کا اہتمام کیا تو اسلامیات کی کتاب میں ”روزہ“ کے موضوع پر آدھ صفحے کی ایک تحریر تھی جس کا آغاز کچھ یوں ہوتا تھا:

”روزے کو عربی میں صوم کہتے ہیں۔ صوم صیام سے نکلا ہے، صیام کا مطلب ہے روزہ رکھنا“

ماشا اللہ ارطغرل کی تقریباَ ہر قسط میں بھی کوئی نہ کوئی کردار بچوں کو یا دیگر ساتھیوں کو پانچ سے دس منٹ تک اتنے ہی بنیادی سطح کی اسلامی تعلیمات یا تاریخِ اسلام سے منسوب واقعات بیان کرنا شروع کردیتا ہے۔ مقصد غالباَ ترکی کے موجودہ مردِ مومن کا بھی قبلہ ضیا الحق والا ہی ہے۔

لیکن ہم واپس اپنے موجودہ وزیرِاعظم صاحب کے مشورے کی افادیت کی طرف لوٹتے ہیں۔ آج سے دس پندرہ سال قبل جب پہلے پہل ترکی ڈراموں کو اردو ڈبنگ میں پاکستان کے ٹی وی چینلوں پر دکھائے جانے کا اہتمام شروع ہوا تو ایک طوفان کھڑا ہوگیا۔ ترکی اس وقت تک مشرف بہ اردگان نہیں ہوا تھا اس لئے مبینہ طور پر یہ ڈرامے ایک اخلاق باختہ معاشرے کی عکاسی کرتے تھے۔ جس میں لڑکے لڑکیوں کا آزادانہ میل جول، قابلِ اعتراض لباس اور اس طرح کے کئی مخربِ اخلاق مناظر ہماری عوام کے ایمان پر حملے کی ایک صیہیونی سازش قرار پائے۔

البتہ مجھے اس وقت کے ترکی ڈراموں میں بھی ترکی معاشرے کی اقدار کا ایک دوسرا پہلو نظر آتا تھا۔ ڈرامے کی سچوئیشن کتنی بھی ہنگامہ خیز کیوں نہ ہو، متعلقہ کردار جلدی میں بھی گاڑی میں بیٹھتے ہوئے سیٹ بیلٹ لگانا، موٹر سائیکل پر سوار ہوتے ہوئے ہیلمٹ پہننا نہ بھولتے۔ امیر کبیر عیاش نوجوان بھی صبح اٹھتے ہوئے اپنا بستر خود سیدھا کرتے۔ ڈرامے کے منفی کردار بھی اپنے گھریلو ملازموں اور ماتحتوں سے بڑی تمیز اور ادب سے مخاطب ہوتے۔

مجھے کبھی سمجھ نہیں آئی کہ اگر بصری آرٹ کے اثرات ہماری اخلاقیات پر پڑتے ہیں تو وہ لڑکے لڑکیوں کے میل جول اور لباس کے انتخاب کے معاملات تک ہی کیوں محدود ہیں، یہ اچھی باتیں اپنا اثر کیوں کھو دیتی ہیں؟ اور اگر انسانی نفسیات سے جڑی کوئی ایسی تھیوری موجود ہے جس کے تحت انسان سمعی اور بصری حسیات کے ذریعے محض ”منفی“ رجحانات ہی اپنانے پر مجبور ہے تو پھر ارطغرل دیکھنے سے ہم وہ اسلامی روایات کیسے سیکھ سکیں گے جو جناب وزیر اعظم صاحب احساسِ کمتری کی ماری پاکستانی قوم کو سکھانا چاہتے ہیں۔

سیکھنے کو ارطغرل ڈرامے میں بھی بہت کچھ ہے۔ مثلاَ اسلام کا نعرہ اپنی جگہ مگر جب اپنی نسلی برتری پر غرور کرنا ہو تو اسلاف کی ہزار سالہ پرانی (یعنی زمانہ قبل از اسلام کی) روایات کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ریاست کا دارومدار مذہب پر نہیں عدل اور روایات کی پاس داری پر بیان کیا جاتا ہے۔ لیکن یقیناَ نہ یہ سیکھے جانے والی باتیں ہیں نہ ہی ہمارے وزیراعطم کا مقصد یہ باتیں قوم کو سکھانا ہیں۔ انہیں (اور ان کے ناصحوں کو بھی) شاید ادراک بھی نہ ہو کہ ڈرامے میں یہ باتیں بھی مذکور ہیں۔

دوسری جانب باوجود اس کے کہ اب بظاہر ترکی اپنی سیکولر پہچان چھوڑ کر واپس اپنے اسلامی تشخص کی جانب بڑھ رہا ہے اور ارطغرل میں پیش کی جانے والی ترک معاشرت ”میرا سلطان“ کے حرم کے مناظر سے یکسر مختلف ہیں، لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ اس ”صاف ستھرے“ با اخلاق اور عین اسلامی معاشرے کے عکاس ڈرامے میں بھی خواتین نارمل لباس میں کسی حجاب، نقاب یا عبایہ کے بغیر مردوں کے شانہ بہ شانہ کام کاج میں، جنگوں میں اور حتیٰ کہ جنازوں میں بھی شرکت کرتی ہیں۔ مرد اور خواتین آپس میں مصافحہ، معانقہ بلکہ پیشانی پر بوسہ تک بھی دے لیتے ہیں۔ (گو مجھے اس سب پر قطعاَ کوئی اعتراض نہیں ) اف! ایسا تو ہمارے ”گئے گزرے بے حیا“ قسم کے دیسی میڈیا میں آج بھی نہیں ہوتا۔ تو کیا وزیرِ اعظم صاحب کا منشا یہ اقدار پاکستان میں رائج کرنا ہے؟ غالباَ ایسا بھی نہیں۔

تو اگر یہ دونوں باتیں وزیرِ اعظم صاحب کا مطمع نظر نہیں تو پیچھے ڈرامے میں ضیا الحق برانڈ کا اسلام ہی رہ جاتا ہے۔

بات بے بات نعرے لگانے اور بچوں کو بٹھا کر جہاد کی کہانیاں سنانے کے علاوہ جو سبق اس ڈرامے میں موجود ہیں وہ انیس بیس کے فرق سے وہی ہیں جو مولاجٹ مارکہ فلموں میں تھے۔ دشمن کا سر تن سے جدا کرنا اتنا ہی بہیمانہ فعل رہتا ہے چاہے اس کے بعد ارطغرل زندہ باد کے نعرے لگائے جائیں یا مصطفیٰ قریشی کی بڑھکیں دکھائی جائیں۔ اگر نیکی اور بدی کا تعین محض کہانی کے کردار کی بطور ولن یا ہیرو شناخت ہی پر منحصر ہے تو کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ منفی کردار کوئی افسانوی منگول ہے یا ہمارا اپنا نوری نت۔ اگر مسلمان قبیلوں کے درمیان اتحاد کا عملی مظاہرہ یہی ہے کہ ہر دوسرے قبیلے کی قیادت محض اختلافِ رائے کی بنیاد پر بزورِ تیغ ختم کر کے قبیلہ اپنے قبیلے میں ضم کر دیا جائے تو جناب آپ فسطائیت کی تعلیم دے رہے ہیں۔ شاید یہی دینا چاہتے ہیں۔ مگر پھر اسلام کو بدنام کرنا چھوڑ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments