ہماری عقل کا ماتم کوئی نہیں کرتا


عالمی وبا کورونا کی روک تھام کے لئے مبسوط حکمت عملی کی تشکیل، تنظیم اور تنفیذ میں چائے فروش کی ہمالیائی غلطیاں مقتضائے بشریت نہیں جہالت و خباثت ہیں، اس وقت ملک کی زمام انصرام اگر کسی اندھے کے ہاتھ میں دے دی جائے تو کم از کم وہ اپنی جبلی بصری حس کا استعمال کرتے ہوئے ہوا کو سونگھ کر بتا دے گا کہ اس وقت کیا کرنا چاہیے اور کیوں کرنا چاہیے۔ اب کتنے لوگ اس فلاپی مالیخولیائی رہنما کی ہذیانی بصارت کی نذر ہوں گے اس کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے لیکن خبطی، سنکی، بے دماغ اور منتقم مزاج ہونے کے زمرے میں مرجع اندھ بھکات کو ٹکر دینے والے انہیں کے ہم منصب ٹرمپ نے کچھ دن قبل اعلان کردیا ہے کہ ”اگر ہم امریکی شہریوں کی اموات ایک لاکھ کے اندر تک کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ ہمارا ’بڑا اچھا کام‘ ہوگا“ ۔

امریکہ میں اس وقت 8,454 لوگ مرچکے ہیں اور 311,637 قطار میں ہیں۔ ہمارے اسی خفقانی کے بدبختانہ فیصلوں میں سے ایک فیصلہ ملک کے خار و خس اور بے ننگ و نام عوام کو ’کینڈل لائٹ ڈنر‘ کی شکل میں کورونائی کیمیا عطا کرنا ہے جس کا ایک خوش کن نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بھنگی میڈیا کا ختنہ کردہ ’کورونا جہاد‘ کا وائرس وقتی طور پر ہی سہی قدرے قابو میں آگیا ہے۔ اب سارے روسیاہ، خفتہ بخت، مودی مست، تھالی بدست اور کنگال حال کینڈل لائٹ ڈنر کی تیاری کررہے ہیں۔

کینڈل لائٹ ڈنر کے اختتام کے بعد، جب ہندوستان میں کورونا سے ہونے والی اموات میں اضافہ ہوگا تو واپس تبلیغیوں کے بہانے ہندوستانی مسلمانوں کو جو عرصے سے دیوار سے لگے ہوئے ہیں، سب و ستم کا نشانہ بناکر ان کے خلاف عوام کو مشتعل و متنفر کرنے کی مذموم کوشش شروع ہوجائے گی اور صرف اسی الزام پر اکتفا نہیں کیا جائے گا کہ قرنطینہ کاٹ رہے تبلیغی نرسوں کو دیکھ کر پینٹ اتار دیتے ہیں۔

گزشتہ بیس برسوں میں ہندوستانی سماج میں اگر سب سے زیادہ زہر کسی وجہ سے پھیلا ہے تو اس کے سب سے بڑے ’وائرس کیریئر‘ ہندوستان کے 24 / 7 انفونیوز چینل رہے ہیں۔ ہندو قوم پرستی، بینکرپسی اور ہجومی تشدد کا مزاج فروغ دینے میں ’قومی‘ میڈیا کا کردار کلیدی ہے۔ اس نے سادہ لوح عوام کا دہقانی مذاق ہی نہیں بدلا بلکہ غلط سلط، منتخب اور متعصبانہ مواد فراہم کرکے انہیں جاہل و دانشور بھی بنا دیا جس کا بدیہی لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ عوام کی ترجیحات بدل گئیں۔

اب وہ چنڈوخانے پر چائے پیتے ہیں، ہندوراشٹر کا بھجن گاتے ہیں، مسلمانوں کو کھدیڑ کر پاکستان بھیجنے اور ان کی منقولہ و غیر منقولہ جائدار پر قابض ہونے کے سہانے سپنے دیکھتے ہیں۔ گھر میں کتنی گھٹ گھٹی ہے، لنگوٹ کتنی پھٹی ہے کوئی فکر نہیں ہے۔ عوام کی ترجیحات تبدیل کرنے میں جب میڈیا کامیاب ہوگیا تو اس نے اپنا خفیہ ایجنڈہ جستہ جستہ حکومت کے سامنے پروسنا شروع کیا۔ میڈیا اب جمہور کی نمائندگی کرنے اور موثر حزب اختلاف کی عدم موجودگی میں مقتدرہ کے خلاف اپوزیشن کا کام کرنے والا چوتھا ستون نہیں ’ففتھ کالم‘ بن گیا تھا۔ اب وہ اقتدار کا نشہ پینا چاہتا تھا۔

چائے فروش کے سرپرست اس امر سے واقف تھے کہ جس میڈیا کو ہم نے منموہن حکومت کے خلاف استعمال کیا ہے وہ اقتدار میں بالراست شریک ہونا چاہتا ہے، سو انہوں نے میڈیا کو خرید کر دلال بنا دیا اور ان کی اوقات متعین و محدود کردی۔ اب ہمارے سامنے جو میڈیا ہے اس کی ریڑھ کی ہڈی سے ضمیر کا گودا نکال لیا گیا ہے اور اس میں مودی پسند سرمایہ کاروں کا پانی ڈال دیا گیا ہے۔

جب اس بے ریڑھ ’قومی‘ میڈیا نے کورونا جہاد شروع کیا اور کورونا کو ’تبلیغی‘ بنا دیا تو مسلمانوں کے ایک بڑے طبقے نے میڈیا کا بائیکاٹ کرکے خود کو موثر ثابت کرنے کی دھمکی دی۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح میڈیا کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔ جب مسلمان میڈیا کے نفرت انگیز رویے کا رونا رو رہا تھا تو مجھے مسلمانوں کی عقل پر رونا آرہا تھا کہ یہ ماضی مرحوم سے کب باہر نکلے گا۔ بحران کے دنوں میں بلا تفریق مذہب و مسلک متحد ہونے والی اور بحران ختم ہوتے ہی ایک دوسرے کی چڈیاں اتارنے والی یہ قوم ستر سال سے رائگاں مررہی ہے لیکن ’پدرم سلطان بود‘ کا نشہ ہے کہ ختم ہی نہیں ہو رہا ہے۔

میڈیا یہ بات ہم سے زیادہ سمجھتا ہے کہ جس قوم کو ووٹ بینک کے طور پر مسترد کردیا گیا ہو وہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ اور پھر آپ کیا بگاڑ لیں گے؟ یہی کہ ان کا چینل نہیں دیکھیں گے؟ تو مت دیکھئے۔ کس نے آپ کو مجبور کیا ہے؟ کون سا آپ ان کو لاکھوں کروڑوں ڈونیٹ کرتے ہیں۔ نیوز چینل، اخبار اور ویب پورٹلز کو عطیہ خیرات دینا تو چھوڑیئے آپ تو کبھی اشتہار ہی نہیں دیتے۔ سو آپ میڈیا کی مجبوری نہیں ہیں بلکہ وہ آپ کی مجبوری ہے۔

اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ صارف ہیں اور صارفیت ایک بڑی طاقت ہے تو ملک کا 80 فیصد ہندو صارف نہیں ہے؟ لیکن نہیں! آپ دیکھیں گے کیوں کہ آپ کو عادت پڑ چکی ہے، آپ کے پاس اپنا کوئی چینل نہیں ہے۔ مسلمانوں نے خود اپنے ذرائع ابلاغ کی کوئی مدد نہیں کی ہے، یہ تو خیر ’الکفر ملۃ واحدہ‘ کے چینل ہیں۔ ایسے درجنوں غیر جانبدار موقر اخبارات ہیں جنہوں نے مالی تنگی کی وجہ سے اپنا پرنٹ ایڈیشن بند کردیا اور اب ویب پورٹل چلا رہے ہیں، ویب پورٹل پر جلی حرفوں میں پیغام پاپ۔

اپ (Popup) ہوکر سامنے آتا ہے کہ ہمارے ادارے کو غیرجانبدار رہنے اور سرکار کے دباؤ سے بچانے میں مدد کریں۔ مجھے یقین ہے کہ مسلمانوں میں ہزاروں میں شاید ایک دو ایسا کرتے ہوں، کیوں کہ وہاں تک جانے والے بیشتر افراد ہم جیسے ہوتے ہیں جو اس پوزیشن میں نہیں ہوتے اور جو اس پوزیشن میں ہیں وہ وہاں جاتے ہی نہیں، کیوں کہ اکثریت یا تو جاہل ہے یا پھر بے حس ہے اور اس بے حس قوم کا کوئی نیوز چینل تو چھوڑیئے کوئی ایسا معقول اخبار ہی نہیں ہے جس کی اثر و فعالیت تو درکنار اس میں کام کرنے والے خود ملازمین عزت سے اپنا کچن چلا سکیں۔

ہم اتنی ہی بے حس قوم ہیں جتنی کوئی عذاب طلب قوم ہوسکتی ہے۔ جب اسے خود کوئی کام کرنا ہوتا ہے تو حلال و حرام کے عنکبوت میں الجھ جاتی ہے اور یہود و ہنود کے چینل سے استفادہ کرنے پر قناعت کرنے لگتی ہے۔ تبلیغیوں کا نیٹ ورک سب سے بڑا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس نے جاہل مذہبی مسٹنڈوں کی فوج تیار کرنے کے علاوہ کوئی کار خیر نہیں کیا۔ مزخرفات کو فضائل سمجھ کر اپنا عقبیٰ سنوارنے کے زعم میں مبتلا ہے اور اُس ’خاتم العقیدہ‘ جماعت کا حال بھی دیگر مذہبی جماعتوں سے کچھ بہتر نہیں ہے جس کے یہاں پہنچ کر عقیدے کا سفر ختم ہوجاتا ہے اور اثر بھی۔

میرا اشارہ اہل حدیثوں کی طرف ہے جن کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان سے زیادہ درست کوئی نہیں، اگر یہ کچھ کم درست ہوتے تو شاید کچھ بہتر انسان ہوتے۔ جماعت اسلامی اور آرایس ایس میں اتنا ہی فرق ہے جتنا چچا بھتیجے میں ہوسکتا ہے۔ مجموعی طور پر اپنا اعمال دیکھ لیں آپ کو خود پتہ چل جائے گا کہ آپ اس بے ریڑھ میڈیا کو گالی دینے کا حق رکھتے ہیں یا نہیں۔

چلتے چلتے ایک واقعہ سن لیں، شاید بے حسی کا اندازہ لگانے میں کچھ آسانی ہوجائے۔ یہی کوئی سال بھر پہلے کی بات ہے، ایک اخبار نکالنے کے سلسلے میں ایک مذہبی جماعت کے امیر محترم کے ساتھ ایک دو میٹنگیں ہوئیں۔ تیسری میٹنگ میں ہندوستان کی ایک عظیم الشان علمی درسگاہ کے ناظم اعلیٰ بھی موجود تھے جو قدرے تاخیر سے پہنچے تھے۔ میٹنگ میں جتنے بھی لوگ موجود تھے سب کے کپڑے چمک رہے تھے، داڑھیاں مہک رہی تھیں اور میں اپنی ذات میں بے نیاز دلت لگ رہا تھا یوں گویا برہمنوں کے درمیان آگیا ہوں۔

میٹنگ کے اختتام پر ناظم اعلیٰ صاحب نے سر تا پاؤں میرا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا ’پروفٹ کتنا ملے گا؟‘ یہ متوقع سوال تھا اور برجستہ زبان سے نکل گیا ’شیخ یہ آپ کا ضمیر ہے جتنے میں بیچ لیں، خیر، اخبار ایک طاقت ہے اور طاقت کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔‘ اس کے بعد نہ تو چراغوں میں روشنی رہی اور نہ ہی کوئی میٹنگ ہوئی۔

جو اصل غم ہے، وہی غم کوئی نہیں کرتا
ہماری عقل کا ماتم کوئی نہیں کرتا
رشید کوثر فارقی

محمد ہاشم خان، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد ہاشم خان، ہندوستان

مصنف افسانہ نگار ناقد اور صحافی ہیں، ممبئی، ہندوستان سے تعلق ہے

hashim-khan-mumbai has 15 posts and counting.See all posts by hashim-khan-mumbai

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments