پاکستان میں قدرتی آفات


اکیسویں صدی کے آغاز پردنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مذہبی اعتقادات اورمعاشرتی رسوم و رواج کے تحت دعاؤں اور خوشیوں کا اہتمام کیا گیا۔ نئی صدی کا آغاز بلا شُبہ اپنی جگہ پر ایک اہم واقعہ تھا تاہم اکسیویں صدی کے پہلے عشرے کا اختتام کم سے کم پاکستانی عوام کے لیے کوئی خوش کن نہ تھا۔ اگر گزشتہ بیس سالوں کا بغور جائزہ لیا جائے تو یقینی طور پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ یہ سارا عرصہ پاکستان کے سیاسی طور پر بے یقینی، امن و امان کے حوالہ سے عدم استحکام، معاشی اعتبار سے بدحالی اور قدرتی آفات کی وجہ سے پریشان کن رہا۔

اس وقت موضوع سخن وہ قدرتی آفات ہیں جن کے گہرئے اثرات پاکستا ن کی عوام پر مرتب ہوئے۔ قدرتی آفات میں زمینی ماحول، زرعی پیداوار اور مال مویشی کی پیداوار کے اعتبار سے سب سے خطرناک قدرتی آفت خشک سالی کو قرار دیا جاتا ہے۔ مگر ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا سے خودبنی نوع انسان کو سب سے زیادہ خطرہ لاحق ہوگیا۔

نئی صدی کا جب آغاز ہوا تو پاکستان کے بیشتر علاقے 1997 سے خشک سالی (DROUGHT) کا شکار تھے۔ اس خشک سالی سے بالعموم بارانی سندھ، پنجاب، ایرانی بلوچستان و سیستان اور بالخصوص بلوچستان کا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔ بدقسمتی سے 1997 سے شروع ہونے والی اس خشک سالی کا اختتام 2003 میں ہوا۔ یہ ہماری ملکی تاریخ کی طویل ترین خشک سالی تھی۔ بلوچستان چونکہ ایک بارانی علاقہ پر مشتمل ہے اس لیے یہ صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا۔

بلوچستان کے لوگوں کا ذریعہ معاش مویشی پالنا ہے۔ اور بلوچستان بھیڑ بکریوں کی ملکی ضروریات کا 45 فیصد پیدا کرتا ہے۔ اور اس خشک سالی سے بلوچستان کی دو کروڑ بھیڑ بکریوں میں سے ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک کروڑ ہلاک ہو گئیں۔ اس کے علاوہ قیمتی جڑی بوٹیوں، جنگلی حیات، باغات اور زرعی پیداوار کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ سیب، خوبانی، بادام، انگور، اخروٹ، انجیر، آڑو اور کجھور سمیت دوسرئے پھلوں کے لاکھوں درخت اور ہزاروں باغات خشک سالی کے سبب خشک ہونے پر کاٹ دیے گئے۔ بلوچستان کی عوام اور پاکستان کے لیے یہ ایک عظیم نقصا ن تھا اور اس کا اختتام 2003 کی موسم گرما کی بارشوں سے ہوا۔

قریبا دو سال بعد 8 اکتوبر 2005 ء میں آزاد کشمیر کے بہت سے علاقوں جن میں مظفر آباد، باغ اور صوبہ خیبرپختونخواہ کے کچھ علاقوں سمیت دارالحکومت اسلام آبادمیں ملکی تاریخ کا تباہ کن زلزلہ آیا۔ اس زلزلہ سے 30 ہزارمربع کلومیٹر کا علاقہ شدید متاثر ہوا اور 35 لاکھ کے قریب انسانی زندگیاں اس سے متاثر ہوئیں۔ اس زلزلہ سے 6400 کلومیٹر طویل سڑکیں، 6298 تعلیمی ادارے، نکاسی و فراہمی آب کی 3994 اسکیمیں تباہ ہو گئیں۔ دیہی علاقوں میں 6 لاکھ مکانات اور شہری علاقوں میں 22 ہزار مکانات کے علاوہ 949 سرکاری عمارتیں تباہ ہو گئیں۔

پاکستان کے سرکاری اندازئے کے مطابق جو کہ غیر سرکاری اندازوں کے مقابلے میں کہیں کم تھے کے مطابق اس قیامت خیز زلزلے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 75 ہزار اور زخمیوں کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ تاہم اس آفت کے موقع پر پاکستانی عوام ہمدردی کے جذبہ سے سرشار ہو کر گھروں سے باہر نکلی اور اُن لاکھوں لوگوں کی کڑئے وقت میں مدد کی۔ اس سے اگلے سال 2006 میں ملک میں سیلاب آگیا جس کی وجہ سے قریبا 200 افراد ہلاک ہوئے اور اربو ں روپے کا نقصان ہوا۔

سیلاب کے بعد جراثیم کش اور خصوصا مچھروں کے خاتمے کے لیے سپرئے نہ کرنے سے ملک میں ڈینگی ملیریا کی وباء پھوٹ پڑی جس کی وجہ سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔ ایک سال کے وقفہ سے 28 اکتوبر 2008 ء کو بلوچستان میں زلزلہ آیا اور اس کا متاثرہ علاقہ کوئٹہ سے زیارت تک کا تھا۔ اس زلزلے میں بھی کئی قیمتی جانوں کے علاوہ اربوں روپے کا نقصان ہوگیا۔

اکسیویں صدی کے پہلے عشرئے کے اختتام یعنی 2010 ء میں پاکستان کی تاریخ کا بدترین سیلاب آیا۔ یہ مون سون کی تباہ کن بارشوں کا نتیجہ تھا۔ عالمی سطح کے ماہرین کے مطابق یہ سیلاب 2004 ء کے سونامی، اکتوبر 2005 ء کے زلزلے اور 2010 ء ہیٹی کے زلزلے سے کہیں زیادہ تباہ کن اور ہولناک تھا۔ اس سیلاب سے ملکی معیشت کو کم و بیش 140 ارب ڈالر کا بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ اس سیلاب کے نتیجے میں پاکستا ن کے رقبے کا قریبا ساتواں حصہ یعنی 1 کروڑ 60 لاکھ مربع کلو میڑ زمینی علاقہ شدید متاثر ہوا اور کم و بیش دو کروڑ لوگ متاثر ہوئے۔

40 لاکھ لوگ خوراک کی شدید قلت کا شکار ہوئے اور 722600 رہائشی مکانات اور 4600 چھوٹے بڑئے دیہات تباہ ہوگئے۔ اس کے علاوہ پاور انفراسڑکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا اور دس ہزار سے زائد ٹرانسفارمر، متعدد ٹرانسمیشن لائن، فیڈر اور پاور ہاؤس متاثرہوئے۔ اس سیلابی پانی سے قریبا 3 لاکھ حیوانات ہلاک ہو گئے اور پانچ لاکھ ٹن گندم کے ضائع ہونے کا تخمینہ لگایا گیا۔ اس کے علاوہ مواصلات کا نظام درہم برہم ہو گیا اور کم و بیش 2433 میل سڑکیں اور 3508 میل ریلوئے لائن کو سخت نقصان پہنچا۔

ایک محتاط اندازئے کے مطابق مواصلات کے نظام کو 29 کروڑ ڈالر اور سرکاری عمارتوں کو ایک ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچا۔ یہ گزشتہ دس سال میں پاکستان کے اندر ہونے والی سب سے بڑی قدرتی آفت تھی۔ اربوں ڈالر کے نقصان اور کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کا متاثر ہونا ایک بہت بڑا امتحان بنا مگر پاکستانی قوم ایک حوصلہ مند اور ہمدرد قوم کے طور پر اُبھری اور اس مصیبت کو جھیل گئی۔ اس صدی کا پہلا عشرہ پاکستان کے لیے ایک امتحان سے کم نہیں تھا اور پاکستان قدرتی آفات کے حوالے سے دنیا میں سرفہرست رہا۔

اس کے بعد 2011 میں بھی دریائے سندھ کے اندر طغیانی اور مون سون کی بارشوں کے سبب جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ میں جانی و مالی نقصانات کی ایک طویل فہرست بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ ستمبر 2013 ء میں پاکستان کے ساحلی علاقوں میں آنے والے تباہ کن زلزلے نے عام آدمی کی زندگی کو بے پناہ متاثر کیا ہے۔ اس زلزلہ سے جہاں گوادر کے ساحل پر ایک جزیرہ سمندر سے نمودار ہو گیا وہاں بلوچستان کے مختلف علاقوں خضدار، آواران، دالبندین، مستونگ، قلات، سوراب، پنجگور، جعفر آباد، نصیر آباد، کوئٹہ، سبی اور کیچ اور سندھ میں کراچی، حیدرآباد، لاڑکانہ، سکھر، نواب شاہ سمیت کئی علاقے شدید متاثر ہوئے ہیں۔ مواصلات کانظام درہم برہم ہونے کے ساتھ ساتھ بے شمار ہلاکتیں بھی ہوئیں۔

قدرتی آفات کی بدولت پاکستانیوں کے امتحان ختم نہیں ہوئے اور 2020 کے شروع میں چین سے ایک وبا کورونا وائرس کے نام سے شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے دنیا کے کم وبیش تمام ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کچھ ہی مدت میں ترقی یافتہ اور پسماندہ ممالک اس وبا کے سامنے بے بس نظر آنے لگے۔ جنوری میں چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والی وبا نے انسانوں کو نگلنا شروع کیا تو سب کے ہاتھ پاوں پھولنا شروع ہوگئے۔ اس وائرس کے علاج کے تلاش میں دنیا بھر کے سائنسدان کوشش کرنے لگے اور اس بیماری کی روک تھام کے لئے پہلی بار دنیا بھر کے لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوگئے۔

پہلی بار انسانوں کے باہمی رابطے منقطع ہوگئے۔ اس وبا کی بدولت اس وقت دنیا بھر میں 12 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ 64 ہزار سے زائد جان کی بازی ہار گئے۔ پاکستان بھی متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ پاکستان میں اس وبا سے متاثرہ افراد کی تعدادگو کہ دیگر ممالک سے کم ہے پھر بھی متاثرین کی تعداد 2900 کے قریب ہے اور پاکستان میں 45 کے قریب افراد اس بیماری کے سبب زندگی کی جنگ ہار گئے۔ اس وبا کی بدولت عالمی اور ملکی معیشت کا جونقصان ہوا ہے اس کا اندازہ تو اس وقت ہوگا جب اس وبا کی روک تھام کے بعد دنیا ایمرجنسی سے نارمل حالات کی طرف لوٹے گی تاہم عالمی مالیاتی ماہرین کے مطابق کورونا وائرس سے انسانوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے ممالک کی معیشتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے جس کا ازالہ شاید جلد ممکن نا ہوسکے اور شاید یہ دنیا بھی پہلے جیسی نا رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments