پدر شاہی، خواتین اور قرنطینہ



مجھے نا چاہتے ہوئے بھی اپنی بات کا آغاز سوشل میڈیا پر وائرل اس جملے سے کرنا پڑ رہا ہے۔ ”مختاریا! گل ودھ گئی ہے، عورتاں اپنے بندیاں کولوں گھر دے کم کرا ریاں نے پر اوہ دسدے نیں پئے“۔ بظاہر ہم لوگوں کو اس میں کوئی ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئے گی جو کہ قابل اعتراض ہو یا اسے عورتوں کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش قرار دیا جائے۔ ویسے بھی ”پدر شاہی“ ہمارے معاشرے میں اتنی رچ بس چکی ہے کہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہماری توجہ کم ہی جاتی ہے۔ ہمارا سماجی رویہ بھی یہی ہے کہ عورتوں سے منسلک گالیاں ہوں یا لطیفے بہت کم لوگ ہی اسے قابل مذمت سمجھتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں ”پدر شاہی“ کی کئی جہتیں ہیں، کچھ معاشرے کو کم نقصان پہنچا رہی ہیں اور کچھ معاشرے کے لیے زہر قاتل ہیں۔ اگر سادہ الفاظ میں ”پدر شاہی“ کی تعریف کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا معاشرتی نظام جس میں مرد عورتوں کو اپنے سے حقیر سمجھتے ہیں اور اس نظام معاشرت میں مرد ہی حکمرانی کا حقدار ٹھہرتا ہے۔

اب ذرا ذکر قرنطینہ کا ہو جائے۔ آج کل ہر فرد کرونا وائرس کے خطرہ کے پیش نظر گھر تک محدود ہے۔ مرد حضرات کچھ زیادہ ہی پریشان ہیں کہ انہیں پندرہ دن گھر کی چاردیواری میں گزارنے پڑیں گے حالانکہ اسی چاردیواری کو انہوں نے عورت کے لیے جنت کی تشبیہ دے کر انہیں گھر تک محدود رکھا ہوا تھا۔ اب مردوں کو اس بات کا اندازہ ہو رہا ہے کہ گھر میں قید ہونا کتنا مشکل اور صبر آزما کام ہے۔ عورتیں تو صدیوں سے اسی قید میں زندگی گزار رہی ہیں اور بہت کم ہی شکایت کرتی نظر آتی ہیں۔

جہاں گھر بیٹھنا مردوں کے لیے عذاب سے کم نہیں وہیں قرنطینہ کی زندگی نے عورتوں کے کاموں اور پریشانیوں میں اور اضافہ کردیا ہے۔ پہلے مرد دفتر اور بچے سکول چلے جاتے تھے اور اسی دوران عورت گھر کے کام نمٹا لیتی تھی لیکن اب بچے تو رہے اپنی جگہ بڑے بھی خواتین کو ایک لمحہ بھی فارغ نہیں بیٹھنے دیتے۔ ہر کسی کی اپنی فرمائشیں ہیں، کوئی نمکین کھانا چاہتا ہے تو کسی کو میٹھے کی چاہت نے بے تاب کیا ہوا ہے۔ کسی کو ہر دو گھنٹے بعد چائے چاہیے تو کوئی پکوڑے کھانے کے لیے تڑپ رہا ہے۔

اس کے باوجود سوشل میڈیا پر بھی ایسی تصاویر شیئر کی جا رہی ہیں جس میں چند مرد حضرات امور خانہ داری میں خواتین کا ہاتھ بٹا رہے ہیں اور ان تصویروں کو اپنی بے بسی اور خواتین کے ظلم وستم سے تعبیر کر رہے ہیں۔ حالانکہ گھر کے کام کرنے میں کوئی عار نہیں بلکہ اس مشکل وقت میں تو مردوں کو چاہیے کہ وہ ہر ممکن کوشش کریں کہ خواتین پر کام کا بوجھ کم ہوسکے۔

مجھے تو ان مردوں پر حیرت ہے جنہیں میری طرح انڈے سے آملیٹ بنانا بھی نہیں آتا اور وہ بھی یہی رونا رو رہے ہیں کہ بیوی گھر کے کام بہت کرا رہی ہے۔ کچھ احباب ایسے بھی ہیں جنہیں سونف اور زیرہ کا فرق نہیں پتا لیکن فیس بک پر وہ بھی ہانڈیاں پکا پکا کر تھک گئے ہیں۔ بہت سارے دوست بلیچنگ لیکوڈ اور فلور کلیننگ لیکوڈ کو ایک ہی چیز سمجھتے ہیں لیکن ان کو بھی یہی شکوہ ہے کہ گھر والی نے صفائی کا کام مجھے سونپا ہوا ہے۔

ایسے بھی دوست ہیں جو لیمن ڈش واشنگ لیکوڈ اور لیمن سوڈا میں تفریق نہیں کرسکتے اور اس بات پر قائم ہیں کہ برتن تو ہمیشہ میں ہی دھوتا ہوں۔ بہت سارے مرد ایسے ہیں جنہیں ایریل سرف کا نام اس لئے یاد ہو گیا ہے کیونکہ اس کی ایڈورتیزمنٹ میں وسیم اکرم آتا ہے وہ دوست بھی نالاں ہیں کہ کپڑے دھو دھو کر ان کے ہاتھوں پر چھالے پڑ گئے ہیں۔ ہم میں سے کتنے مرد ایسے ہوں گے جو بچوں کے پیمپر تبدیل کرنے میں عار نہیں سمجھتے اور اپنی بیوی کا اس کام میں ہاتھ بٹاتے ہوں گے؟

اور کتنے مرد ایسے ہیں جو اپنی بیوی کے ساتھ کپڑے دھونے کو اپنی انا اور شان کے خلاف نہیں سمجھتے؟ ایسے مرد ہمارے معاشرے میں ضرور موجود ہوں گے لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ جیسے گھر سانجھاہوتا ہے ویسے ہی گھر کے کام بھی سانجھے ہوتے ہیں۔ مل جل کر ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں اور ”پدر شاہی“ کے وار ناکام بنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments