وہ بڈھا ۔۔۔ راجندر سنگھ بیدی کا شاہکار افسانہ


میں نہیں جانتی۔ میں تو مزے میں چلی جا رہی تھی۔ میرے ہاتھ میں کالے رنگ کا ایک پرس تھا، جس میں چاندی کے تار سے کچھ کڑھا ہوا تھا اور میں ہاتھ میں اسے گھما رہی تھی۔ کچھ دیر میں اچک کر فٹ پاتھ پر ہو گئی، کیو ں کہ مین روڈ پر سے ادھر آنے والی بسیں اڈے پر پہنچنے اور ٹائم کیپر کو ٹائم دینے کے لئے یہاں آ کر ایک دم راستہ کاٹتی تھیں۔ اس لئے اس موڑ پر آئے دن حادثے ہوتے رہتے تھے۔

بس تو خیر نہیں آئی لیکن اس پر بھی ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ میرے دائیں طرف سامنے کے فٹ پاتھ کے ادھر مکان تھا اور میرے الٹے ہاتھ اس کول کی سیمنٹ سے بنی ہوئی دیوار، جس کے اس پار مشنری اس کول کے فادر لوگ ایسٹر کے سلسلے میں کچھ سجا سنوار رہے تھے۔ میں اپنے آپ سے بے خبر تھی، لیکن یکا یک نہ جانے مجھے کیوں ایسا محسوس ہونے لگا کہ میں ایک لڑکی ہوں جوان لڑکی۔ ایسا کیوں ہوتا ہے، یہ میں نہیں جانتی۔ مگر ایک بات کا مجھے پتہ ہے ہم لڑکیاں صرف آنکھوں سے نہیں دیکھتیں۔ جانے پرماتما نے ہمارا بدن کیسے بنایا ہے کہ اس کا ہر پور دیکھتا، محسوس کرتا، پھیلتا اور سمٹتا ہے۔ گدگدی کرنے والا ہاتھ لگتا بھی نہیں کہ پورا شریر ہنسنے مچلنے لگتا ہے۔ کوئی چوری چکے دیکھے بھی تو یوں لگتا ہے جیسے ہزاروں سوئیاں ایک ساتھ چبھنے لگیں، جن سے تکلیف ہوتی ہے اور مزہ بھی آتا ہے البتہ کوئی سامنے بے شرمی سے دیکھے تو دوسری بات ہے۔

اس دن کوئی میرے پیچھے آ رہا تھا۔ اسے میں نے دیکھا تو نہیں، لیکن ایک سنسناہٹ سی میرے جسم دوڑ گئی۔ جہاں میں چل رہی تھی، وہاں برابر میں ایک پرانی شیور لیٹ گاڑی آ کر رکی، جس میں ادھیڑ عمر کا بلکہ بوڑھا مرد بیٹھا تھا۔ وہ بہت معتبر صورت اور رعب داب والا آدمی تھا، جس کے چہرے پر عمر نے خوب لڈو کھیلی تھی۔ اس کی آنکھ تھوڑی دبی ہوئی تھی، جیسے کبھی اسے لقوہ ہوا ہو اور وٹامن سی اور بی کمپلیکس کے ٹیکے وغیرہ لگوانے، شیر کی چربی کی مالش کرنے یا کبوتر کا خون ملنے سے ٹھیک تو ہو گیا ہو، لیکن پورا نہیں۔ ایسے لوگوں پر مجھے بڑا ترس آتا ہے کیونکہ وہ آنکھ نہیں مارتے اور پھر بھی پکڑے جاتے ہیں۔ جب اس نے میری طرف دیکھا تو پہلے میں بھی اسے غلط سمجھ گئی، لیکن چونکہ میرے اپنے گھر میں چچا گووند اسی بیماری کے مریض ہیں، اس لئے میں اصل وجہ جان گئی۔ دیر تک میں اپنے آپ کو شرمندہ سی محسوس کرتی رہی۔ اس بڈھے کی داڑھی تھی جس میں روپے کے برابر ایک سپاٹ سی جگہ تھی۔ ضرور کسی زمانے میں وہاں اس کے کوئی بڑا سا پھوڑا نکلا ہو گا جو ٹھیک تو ہو گیا لیکن بالوں کو جڑ سے غائب کر گیا۔ اس کی داڑھی سر کے بالوں سے زیادہ سفید تھی۔ سر کے بال کھچڑی تھے۔ سفید زیادہ اور کالے کم، جیسے کسی نے ماش کی دال تھوڑی اور چاول زیادہ ڈال دیے ہوں۔ اس کا بدن بھاری تھا، جیسا کہ اس عمر میں سب کا ہو جاتا ہے۔ میرا بھی ہو جائے گا کیا میٹرن؟ لوگ کہتے ہیں تمہاری ماں موٹی ہے، تم بھی آگے چل کر موٹی ہو جاؤ گی عجیب بات ہے نا کہ کوئی عمر کے ساتھ آپ ہی آپ ماں ہو جائے یا باپ۔ بڈھے کے قد کا البتہ پتہ نہ چلا، کیوں کہ وہ موٹر میں ڈھیر تھا۔ کار رکتے ہی اس نے کہا ”سنو۔“

میں رک گئی، اس کی بات سننے کے لئے تھوڑا جھک بھی گئی۔
”میں نے تمہیں دور سے دیکھا“ وہ بولا۔
میں نے جواب دیا ”جی۔“
”میں جو تم سے کہنے جا رہا ہوں اس پر خفا نہ ہونا۔
”کہئے میں نے سیدھی کھڑی ہو کر کہا۔

اس بڈھے نے پھر مجھے ایک نظر دیکھا، لیکن میرے جسم میں سنسناہٹ نہ دوڑی، کیوں کہ وہ بڈھا تھا۔ پھر اس کے چہرے سے بھی کوئی ایسی ویسی بات نہیں معلوم ہوتی تھی، ورنہ لوگ تو کہتے ہیں کہ بڈھے بڑے ٹھرکی ہوتے ہیں۔

”تم جا رہی تھیں۔“ اس نے پھر بات شروع کی ”اور تمہاری یہ ناگن، دایاں پاؤں اٹھنے پر بائیں طرف اور بایاں پاؤں اٹھنے پر دائیں طرف جھوم رہی تھی“

میں ایک دم کانشس ہو گئی۔ میں نے اپنی چوٹی کی طرف دیکھا جو اس وقت نہ جانے کیسے سامنے چلی آئی تھی۔ میں نے بغیر کسی ارادے کے سر کو جھٹکا دیا اور ناگن جیسے پھنکارتی ہوئی پھر پیچھے چلی گئی۔ بڈھا کہے جا رہا تھا ”میں نے گاڑی آہستہ کر لی اور پیچھے سے تمہیں دیکھتا رہا“ اور آخر وہ بڈھا ایک دم بولا ”تم بہت خوبصورت لڑکی ہو۔“

میرے بدن میں جیسے کوئی تکلف پیدا ہو گیا اور میں کروٹ کروٹ بدن چرانے لگی۔ بڈھا منتر مگدھ مجھے دیکھ رہا تھا۔ میں نہیں جانتی تھی اس کی بات کا کیا جواب دوں؟ میں نے سنا ہے، باہر کے دیسوں میں کسی لڑکی کو کوئی ایسی بات کہہ دے تو وہ بہت خوش ہوتی ہے، شکریہ ادا کرتی ہے لیکن ہمارے یہاں کوئی رواج نہیں۔ الٹا ہمیں آگ لگ جاتی ہے۔ ہم کیسی بھی ہیں، کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ ہمیں ایسی نظروں سے دیکھے؟ اور وہ بھی یوں سڑک کے کنارے، گاڑی روک کر۔ بدیسی لڑکیوں کا کیا ہے، وہ تو بڈھوں کو پسند کرتی ہیں۔ اٹھارہ بیس کی لڑکی ساٹھ ستر کے بوڑھے سے شادی کر لیتی ہے۔

میں نے سوچا، یہ بڈھا آخر چاہتا کیا ہے؟

”میں اس خوبصورتی کی بات نہیں کرتا۔ \“ وہ بولا ”جسے عام آدمی خوبصورتی کہتے ہیں مثلاً وہ گورے رنگ کو اچھا سمجھتے ہیں۔“

مجھے جھر جھری سی آئی۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں میرا رنگ کوئی اتنا گورا بھی نہیں سانولا بھی نہیں بس بیچ کا ہے۔ میں نے تو میں تو شرما گئی۔

”آپ؟“ میں نے کہا اور پھر آگے پیچھے دیکھنے لگی کہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا؟

بس دندناتی ہوئی آئی اور یوں پاس سے گزر گئی کہ اس کے اور کار کے درمیان بس انچ بھر کا فاصلہ رہ گیا لیکن وہ بڈھا دنیا کی ہر چیز سے بے خبر تھا۔ مرنا تو آخر ہر ایک کو ہے لیکن وہ اس وقت کی بے کار اور فضول موت سے بھی بے خبر تھا۔ جانے کن دنیاؤں میں کھویا ہوا تھا وہ؟

دو تین گھاٹی راما لوگ وہاں سے گزرے۔ وہ کسی نوکری پگار کے بارے میں جھگڑا کرتے جا رہے تھے۔ ان کا شور جو ایسٹر کی گھنٹیوں میں گم ہو گیا۔ دائیں طرف کے مکان کی بالکنی پر ایک دبلی سی عورت اپنے بالوں میں کنگھی کرتی ہوئی آئی اور ایک بڑا سا گچھا بالوں کا کنگھی میں سے نکال کر نیچے پھینکتی ہوئی واپس اندر چلی گئی۔ کسی نے خیال بھی نہ کیا کہ سڑک کے کنارے میرے اور اس بوڑھے کے درمیان کیا معاملہ چل رہا ہے۔ شاید اس لئے کہ لوگ اسے میرا کوئی بڑا سمجھتے تھے۔ بوڑھا کہتا رہا ”تمہارا یہ سنولایا ہوا، کندنی رنگ، یہ گٹھا ہوا بدن ہمارے ملک میں ہر لڑکی کا ہونا چاہیے اور پھر یکا یک بولا“ تمہاری شادی تو نہیں ہوئی؟ ”

”نہیں۔“ میں نے جواب دیا۔
”کرنا بھی تو کسی گبرو جوان سے۔“
”جی“
اب خون میرے چہرے تک ابل ابل کر آنے لگا تھا۔ آپ سوچئے آنا چاہیے تھے یا نہیں؟
لیکن اس سے پہلے کہ میں اس بڈھے کو کچھ کہتی اس نے ایک نئی بات شروع کر دی۔
”تم جانتی ہو، آج کل یہاں چور آئے ہوئے ہیں؟“
”چور؟“ میں نے کہا ”کیسے چور۔“

”جو بچوں کو چرا کر لے جاتے ہیں انہیں بے ہوش کر کے ایک گٹھڑی میں ڈال لیتے ہیں۔ ایک وقت میں چار چار پانچ پانچ۔“

مجھے بڑی حیرانی ہوئی۔ میں نے کہا بھی تو صرف اتنا ”تو؟ میرا مطلب ہے مجھے میرا اس بات سے کیا تعلق؟“

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments